سیاسی اسلام اور علمی اسلام

سیاسی اسلام اور علمی اسلام دو مختلف نظریاتی زاویے ہیں، جہاں سیاسی اسلام اسلامی اصولوں کو سماجی و حکومتی نظام میں نافذ کرنے پر زور دیتا ہے، جبکہ علمی اسلام دینی تعلیمات کی فکری اور فلسفیانہ تشریح پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ سیاسی اسلام کے پیروکار طاقت اور سماجی کنٹرول پر توجہ دیتے ہیں، جبکہ علمی اسلام کے پیروکار انفرادی ترقی اور فکری آزادی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ دونوں رویے مختلف نفسیاتی اور سماجی تقاضوں سے جڑے ہیں، اور ان کے درمیان مکالمہ اور ہم آہنگی سے دینی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

سیاسی اسلام اور علمی اسلام دو مختلف نظریاتی زاویے ہیں، جن کے نتیجے میں بنیادی اسلامی موضوعات کی متنوع تعبیریں پیدا ہوتی ہیں۔ ان اختلافات کو علم نفسیات کے حوالے سے سمجھنے کے لیے انسانی ذہن اور سماجی رویوں کے پس منظر میں تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں دونوں کے مابین فرق اور اس کی نفسیاتی تجزیہ پیش کیا گیا ہے:
1. سیاسی اسلام کا نفسیاتی تجزیہ:
سیاسی اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسلامی احکام اور اصولوں کو حکومت، قانون، اور سماج کے نظم و ضبط کے لیے عملی طور پر نافذ کیا جائے۔ اس نقطہ نظر کا مقصد دین کو زندگی کے ہر پہلو میں نافذ کرنا اور معاشرتی انصاف کے ساتھ ساتھ ایک جامع اسلامی ریاست قائم کرنا ہوتا ہے۔ نفسیات میں، اس رویے کا تجزیہ یوں کیا جا سکتا ہے:

- کنٹرول اور اختیار کا احساس: سیاسی اسلام کے پیروکار افراد یا گروہ عموماً ایک طاقتور اختیار یا اثرورسوخ کا حامل بننا چاہتے ہیں تاکہ وہ اسلامی اقدار کو نافذ کر سکیں۔ نفسیاتی طور پر یہ رویہ طاقت، کنٹرول، اور قیادت کی ضرورت سے جڑا ہوا ہوتا ہے، جس میں معاشرتی نظم و ضبط کو دین کی روشنی میں قائم کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔
- اجتماعی شناخت: سیاسی اسلام کے ماننے والے اکثر اجتماعی شناخت کی تلاش میں ہوتے ہیں، جہاں مذہبی عقائد اور سیاسی طاقت کو ہم آہنگ کیا جاتا ہے۔ نفسیات میں اس کو گروہی شناخت (group identity) کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے، جہاں افراد اپنی ذات کو ایک بڑے دینی اور سیاسی مقصد کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں، جس سے انہیں مقصدیت اور سماجی قبولیت کا احساس ملتا ہے۔
- عقائد کی حفاظت کا خوف: سیاسی اسلام کا نفسیاتی پہلو ایک دفاعی میکانزم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مغربی اثرات، لبرل ازم، اور سیکولرزم کے مقابلے میں اسلامی اقدار کی حفاظت کے لیے یہ ایک ردعمل ہوسکتا ہے۔ یہ خوف پر مبنی ردعمل ہوتا ہے جس کا مقصد اپنے عقائد کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔
2. علمی اسلام کا نفسیاتی تجزیہ:
علمی اسلام زیادہ تر فکری، فلسفیانہ، اور نظریاتی پہلوؤں پر زور دیتا ہے۔ یہ اسلام کی تعبیریں، فکر، اجتہاد، اور علم کی روشنی میں پیش کرتا ہے، اور دینی موضوعات پر گہرے غور و فکر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ نفسیاتی طور پر اس کے چند پہلو یوں سمجھے جا سکتے ہیں:
- خود شناسی اور انفرادی ترقی: علمی اسلام کے پیروکار زیادہ تر افراد انفرادی سطح پر خود کو بہتر بنانے اور اپنی دینی فہم کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر یہ رویہ خود شناسی (self-actualization) اور انفرادی شناخت کی تلاش سے منسلک ہوتا ہے، جس میں فرد اپنی روحانی ترقی اور فکری بالیدگی پر زور دیتا ہے۔
- غیر یقینی صورتحال کا سامنا: علمی اسلام میں سوالات اور اختلافی نظریات کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے، جو بعض افراد کے لیے غیر یقینی صورتحال (uncertainty tolerance) کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ نفسیاتی طور پر، یہ رویہ ایک کھلے ذہن اور علمی فکر کی نشوونما کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں فرد مختلف نظریات اور تعبیروں کو برداشت کرنے اور قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
- فکری آزادی کی تلاش: علمی اسلام کا نفسیاتی پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ماننے والے فکر اور اجتہاد کے ذریعے آزادی اور انفرادی شعور کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ فلسفیانہ یا ذہنی آزادی کی نفسیات کے ساتھ جڑا ہوا ہے، جس میں فرد خود کو علمی بحث اور تحقیق کے ذریعے بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
3. نفسیاتی اختلافات اور ان کے نتائج:
- طاقت اور تسلیم کیے جانے کی ضرورت: سیاسی اسلام میں افراد زیادہ تر سماجی قبولیت اور طاقت کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں، جبکہ علمی اسلام میں زیادہ زور انفرادی ترقی اور اندرونی سکون پر ہوتا ہے۔ سیاسی اسلام کے ماننے والے افراد اکثر سماج میں اپنے مذہبی نظریات کو نافذ کر کے اپنا وجود تسلیم کرانا چاہتے ہیں، جبکہ علمی اسلام کے پیروکار فکر و دانش کے ذریعے تسلیم کیے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
- عقائد کا دفاع بمقابلہ عقائد کی تحقیق: سیاسی اسلام زیادہ تر اپنی مذہبی شناخت کے دفاع پر زور دیتا ہے، جبکہ علمی اسلام میں عقائد کی مسلسل تحقیق اور ان کی نئی تشریح کی اہمیت ہوتی ہے۔ نفسیات میں دفاعی ردعمل اور تجزیاتی ردعمل کے درمیان یہی فرق دیکھا جاتا ہے۔
4. ممکنہ تصادم اور ہم آہنگی:
نفسیاتی اعتبار سے، جب دو مختلف نظریاتی رویے—سیاسی اسلام اور علمی اسلام—آپس میں ٹکراتے ہیں، تو اس سے سماجی اور فکری تصادم پیدا ہو سکتا ہے۔ تاہم، اگر دونوں رویے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں اور ایک توازن قائم کیا جائے، تو سماجی اور دینی ترقی میں اہم پیشرفت ہو سکتی ہے۔

علم نفسیات کے تناظر میں، اس تجزیے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دونوں روایات کے پیچھے مختلف ذہنی اور فکری تقاضے کام کرتے ہیں، اور انہیں سمجھنے کے لیے انفرادی اور سماجی نفسیات کی روشنی میں غور و فکر ضروری ہے۔
علمی اسلام اور سیاسی اسلام کی روشوں پر چلنے والے افراد یا تحریکیں مختلف تاریخی اور عصری حوالوں میں نمایاں رہی ہیں۔ ان کی مثالیں دونوں رویوں کے نظریاتی فرق اور عملی اطلاق کو واضح کرتی ہیں۔
1. علمی اسلام کی مثالیں:
علمی اسلام کے پیروکار زیادہ تر اسلامی تعلیمات اور فلسفے پر زور دیتے ہیں، اور اجتہاد، علمی مباحث اور نظریات کی گہرائی میں جاکر اسلامی فکر کی نئی تشریحات پیش کرتے ہیں۔
مثالیں:
- امام محمد غزالی (1058-1111): امام غزالی نے فلسفہ، تصوف، اور اسلامی فقہ میں گہرا کام کیا اور اسلامی فکر کی ایک گہری تشریح کی۔ ان کی کتاب احیاء علوم الدین علمی اسلام کی ایک عظیم مثال ہے، جس میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کو تصوف اور روحانیت کے ساتھ جوڑا۔
- مولانا جلال الدین رومی (1207-1273): رومی کے افکار تصوف اور روحانیت پر مبنی ہیں، جو اسلامی تعلیمات کی گہری روحانی تعبیر پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری اور تصانیف میں اسلامی عقائد کو فرد کی روحانی ترقی سے منسلک کیا گیا ہے۔
- علامہ محمد اقبال (1877-1938): اقبال نے علمی اسلام کی روش پر چلتے ہوئے اجتہاد اور اسلامی فکر کی نئی تعبیریں پیش کیں۔ ان کی شاعری اور فلسفہ اسلام کی فکر کو جدید دور میں لانے کی کوشش کرتا ہے، اور وہ انفرادی اور اجتماعی ترقی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
- آیت اللہ مرتضی مطہری (1920-1979): مطہری ایک ایرانی اسلامی فلسفی تھے جنہوں نے اسلامی نظریات کو جدید فلسفیانہ مباحث میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ان کی کتابیں اور دروس علمی اسلام کی بہترین مثالیں ہیں، جو اسلامی تعلیمات کی گہرائی کو عصری مسائل سے جوڑتے ہیں۔
- فضل الرحمن (1919-1988): ایک پاکستانی نژاد اسلامی اسکالر، فضل الرحمن نے اسلامی اجتہاد کی اہمیت پر زور دیا اور اسلامی فکر کو جدید انسانی علوم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔

2. سیاسی اسلام کی مثالیں:
سیاسی اسلام کے پیروکار دین کو ایک سماجی اور سیاسی نظام کے طور پر نافذ کرنے پر زور دیتے ہیں اور اسلامی اصولوں کے تحت حکومت اور معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل کے خواہاں ہوتے ہیں۔
مثالیں:
- امام خمینی (1902-1989): امام خمینی سیاسی اسلام کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ انہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب کی قیادت کی اور ولایت فقیہ کے نظریے کی بنیاد پر اسلامی جمہوری ریاست قائم کی۔ ان کا مقصد اسلامی قوانین کو حکومت کے تمام شعبوں میں نافذ کرنا تھا۔
- سید قطب (1906-1966): سید قطب مصر میں اخوان المسلمون کے ایک نمایاں نظریاتی رہنما تھے۔ ان کی کتاب معالم فی الطریق میں انہوں نے اسلامی حکومت کے قیام کی اہمیت پر زور دیا اور مغربی سیکولرزم اور جدیدیت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔ سید قطب کا نظریہ عالمی سطح پر سیاسی اسلام کی تحریکوں پر اثر انداز ہوا۔
- مولانا مودودی (1903-1979): مولانا مودودی نے سیاسی اسلام کے نظریات پیش کیے اور جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ وہ اسلامی حکومت اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے قائل تھے اور انہوں نے مغربی جمہوریت کے برخلاف اسلامی نظام حکومت کا ایک واضح خاکہ پیش کیا۔
- اخوان المسلمون (Muslim Brotherhood): یہ مصر میں قائم ہونے والی ایک اسلامی سیاسی جماعت ہے جو پورے عرب دنیا میں اسلامی قوانین اور اصولوں کو سماجی اور سیاسی نظام میں نافذ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
- طالبان: طالبان کی تحریک بھی سیاسی اسلام کی ایک مثال ہے، جس میں وہ اسلامی قوانین کو حکومتی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی حکومت کا بنیادی مقصد شریعت کی بنیاد پر ایک اسلامی ریاست قائم کرنا تھا۔

3. معاصر مثالیں:
علمی اسلام:
ڈاکٹر علی شریعتی (1933-1977) ایک معروف ایرانی مفکر اور سماجی نظریہ ساز تھے جنہوں نے اسلامی ثقافت اور جدیدیت کے درمیان تعلقات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو جدید سائنسی نظریات کے ساتھ ملاتے ہوئے معاشرتی اصلاحات کا تصور پیش کیا، جس نے ایرانی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا۔

سیاسی اسلام:
ڈاکٹر ابراہیم رئیسی (1960-2024) ایک ایرانی سیاستدان اور صدر تھے۔ انہوں نے سیاسی اسلام کے حوالے سے اپنی سوچ کو نافذ کیا ہے، جس میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر قومی اور بین الاقوامی مسائل کا حل پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی قیادت میں، ایران نے اپنے اسلامی نظریات کو بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم عنصر کے طور پر پیش کیا۔
4. نفسیاتی تجزیہ:
- علمی اسلام کے پیروکار: علمی اسلام پر چلنے والے افراد زیادہ تر خود شناسی، روحانی ترقی، اور فکری آزادگی پر زور دیتے ہیں۔ ان کی نفسیات میں مذہبی تعلیمات کا گہرا فہم، تحقیق اور کھلے ذہن سے قبولیت کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
- سیاسی اسلام کے پیروکار: سیاسی اسلام کے پیروکار زیادہ تر اجتماعی طاقت، قیادت، اور اسلامی اصولوں کو سماجی نظم و ضبط میں نافذ کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ان کی نفسیات میں اجتماعی شناخت، کنٹرول کی خواہش، اور اپنی مذہبی شناخت کو سماجی سطح پر نافذ کرنے کی شدید طلب پائی جاتی ہے۔
دونوں روشوں کی پیروی کرنے والے افراد اپنے مخصوص دائرہ کار میں اسلامی نظریات کو عملی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کی مثالیں اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ کیسے اسلامی فکر کے مختلف زاویے سماجی اور سیاسی ڈھانچوں میں اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔
سیاسی اسلام اور علمی اسلام کے علماء کے مابین اختلافات:
سیاسی اسلام اور علمی اسلام کے علماء کے مابین اختلافات کو دور کرنے اور انہیں انتہا پسند ہونے سے بچانے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں جو فکری مکالمے، رواداری، اور تعمیری گفتگو کو فروغ دیں۔ یہ تدابیر اسلامی تعلیمات کی گہرائی میں جاکر یکجہتی، فکری وسعت، اور انسانی خدمت کے اصولوں پر مبنی ہو سکتی ہیں۔ چند اہم روشیں درج ذیل ہیں:
1. فکری مکالمے اور مباحثے کا فروغ:
علمی اور سیاسی اسلام کے علماء کو باہمی مکالمے اور مباحثے میں شامل کرنا ایک ضروری قدم ہے۔ جب علماء ایک دوسرے کے نظریات کو سنجیدگی سے سنتے اور سمجھتے ہیں، تو فکری انتہاپسندی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
- مذاکرے کے فورمز: اسلامی جامعات اور دیگر علمی ادارے ایسے فورمز اور کانفرنسیں منعقد کریں جہاں دونوں گروہوں کے علماء ایک دوسرے کے ساتھ بحث و مباحثہ کر سکیں۔ اس سے غلط فہمیاں دور ہوں گی اور اختلافات کے باوجود احترام کی فضا پیدا ہوگی۔
- علمی بحث کو تشدد سے دور رکھنا: علماء کو تاکید کی جائے کہ فکری اختلافات کو تشدد، انتہاپسندی یا جبر کے ذریعے حل نہ کریں، بلکہ فکری بنیادوں پر بحث کو آگے بڑھائیں۔
2. مشترکہ دینی مقاصد پر زور دینا:
سیاسی اور علمی اسلام کے علماء کو ایک ایسے مشترکہ پلیٹ فارم پر لایا جا سکتا ہے جہاں وہ اسلامی تعلیمات کے بنیادی اصولوں اور مقاصد پر متفق ہوں، جیسے:
- انصاف، امن، اور انسانی حقوق: دونوں گروہوں کے درمیان مکالمے میں اسلامی اصولوں جیسے انصاف، مساوات، انسانی حقوق، اور فلاح و بہبود پر زور دیا جائے تاکہ معاشرتی ترقی اور عالمی سطح پر مثبت کردار ادا کیا جا سکے۔
- خدمت خلق اور معاشرتی بہبود: علماء کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ اسلام کا بنیادی مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہے، جس میں غربت کا خاتمہ، تعلیم کا فروغ، اور انسانی خدمت شامل ہے۔ یہ مشترکہ مقاصد انہیں ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں۔
3. انتہاپسندی کی نفسیاتی وجوہات پر تحقیق اور آگاہی:
انتہاپسندی کو روکنے کے لیے اس کی نفسیاتی اور سماجی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے۔
- نفسیاتی مشاورت اور تربیت: علماء کے لیے ایسے پروگرام منعقد کیے جائیں جہاں انہیں نفسیاتی طور پر تربیت دی جائے کہ وہ فکری لچک، برداشت، اور مختلف نقطہ نظر کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ اس سے انتہاپسندی اور جزمیت میں کمی آئے گی۔
- سماجی مسائل کو بہتر طور پر سمجھنا: بعض اوقات علماء معاشرتی، اقتصادی، یا سیاسی مسائل کو دین کے ساتھ جوڑ کر ان کا انتہاپسندانہ حل پیش کرتے ہیں۔ انہیں ان مسائل کا بہتر فہم حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا حل تشدد یا شدت پسندی کے بغیر نکالا جا سکے۔
4. اسلامی تعلیمات کے درست فہم کی حوصلہ افزائی:
بعض اوقات فکری انتہاپسندی اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو غلط طور پر سمجھا جاتا ہے یا ان کی تشریح سخت اور محدود انداز میں کی جاتی ہے۔ علماء کو اسلامی تعلیمات کی صحیح اور متوازن تفہیم کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
- روحانی تعلیمات کا فروغ: علماء کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ اسلام نہ صرف سیاسی و معاشرتی نظام ہے بلکہ یہ روحانی طور پر انسان کی فلاح کا دین بھی ہے۔ تصوف اور روحانیت کی اہمیت کو اجاگر کر کے علماء کو متوازن دینی نظریات کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔
- اجتہاد کی اہمیت: اجتہاد کے تصور کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ علماء وقت کے ساتھ ساتھ نئے مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کر سکیں اور جامد سوچ سے بچ سکیں۔
5. تعلیمی نظام میں اصلاحات:
تعلیمی نظام دونوں مکاتب فکر کے درمیان پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ مدارس اور جامعات میں ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو سیاسی اور علمی اسلام دونوں کے نظریات کو متوازن انداز میں پیش کرے۔
- جامع تعلیمی نصاب: اسلامی تعلیمی اداروں میں ایسا نصاب پڑھایا جائے جس میں فقہ، اصولِ فقہ، تصوف، اسلامی تاریخ، اور جدید علوم کا امتزاج ہو۔ اس سے علماء میں تنگ نظری کم ہوگی اور وہ مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھ سکیں گے۔
- علمی اور تحقیقی تربیت: علماء کو علمی تحقیق، تنقیدی سوچ، اور جدید دنیا کے مسائل کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تجزیہ کرنے کی تربیت دی جائے۔ اس سے فکری وسعت پیدا ہوگی اور وہ ایک دوسرے کے نظریات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔
6. تعلقات اور تعاون کا فروغ:
علماء کے درمیان ذاتی تعلقات کو فروغ دینا بھی انتہاپسندی کو کم کر سکتا ہے۔ جب مختلف مکاتب فکر کے علماء ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھتے ہیں اور ذاتی طور پر تعلقات استوار کرتے ہیں، تو اس سے ایک دوسرے کے نظریات اور شخصیت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
- مشترکہ منصوبے: سیاسی اور علمی اسلام کے علماء کو ایک ساتھ ایسے منصوبوں پر کام کرنے کی ترغیب دی جائے جن کا مقصد اسلامی تعلیمات کو عملی طور پر نافذ کرنا ہو، جیسے غربت کا خاتمہ، تعلیم کا فروغ، یا بین المذاہب ہم آہنگی۔
7. میڈیا اور سوشل میڈیا کے کردار کا مؤثر استعمال:
میڈیا اور سوشل میڈیا علماء کے درمیان نظریاتی مکالمے کو فروغ دینے اور شدت پسندانہ بیانیے کو کمزور کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
- مثبت پیغام رسانی: میڈیا کو ایسی مثبت بحثوں اور مکالمات کو فروغ دینا چاہیے جو سیاسی اور علمی اسلام کے پیروکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لائیں۔ علماء کو ذمہ داری سے میڈیا کا استعمال سکھایا جائے تاکہ وہ اختلافی مسائل کو معاشرتی فلاح و بہبود کے تناظر میں پیش کریں۔
نتیجہ:
سیاسی اور علمی اسلام کے علماء کو قریب لانے اور انتہاپسندی سے دور کرنے کے لیے فکری مکالمے، مشترکہ مقاصد پر زور، نفسیاتی تربیت، تعلیمی اصلاحات، اور مثبت میڈیا کے استعمال جیسی روشیں انتہائی اہم ہیں۔ ان اقدامات سے علماء میں فکری لچک اور رواداری پیدا ہو سکتی ہے، اور وہ مختلف نظریات کو برداشت اور سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں، جس سے امت میں اتحاد و اتفاق کا فروغ ممکن ہوگا۔

علمی اور سیاسی علماء کی شناخت:
سیاسی اسلام اور علمی اسلام کے علماء کے درمیان دلچسپی کے موضوعات اور ان کے نقطۂ نظر سے ان کی شناخت ممکن ہے۔ ہر مکتب فکر مخصوص موضوعات پر زور دیتا ہے، اور ان کے نظریات و دلچسپیاں ان کے علمی یا سیاسی رجحان کو ظاہر کرتی ہیں۔ ذیل میں مختلف موضوعات کے حوالے سے دونوں مکاتب فکر کے علماء کی دلچسپیاں اور نقطۂ نظر کو واضح کیا گیا ہے:
1. فلسفہ:
- علمی اسلام: علمی اسلام کے پیروکار فلسفے کو اہمیت دیتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کو عقلی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ فلسفے اور اجتہاد کو اسلامی فکر کا حصہ سمجھتے ہیں اور ارسطو، افلاطون، اور جدید فلسفیانہ نظریات پر اسلامی نقطۂ نظر سے غور کرتے ہیں۔
- مثالیں: علامہ اقبال، آیت اللہ مطہری، امام محمد غزالی۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء فلسفے کو بعض اوقات غیر ضروری یا پیچیدہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک عملی سیاست اور اسلامی حکومت کے قیام پر زور دینا زیادہ اہم ہے۔ وہ فلسفیانہ مباحث میں بہت زیادہ دخل نہیں دیتے، بلکہ اسلامی تعلیمات کو سادہ اور عملی انداز میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
- مثالیں: سید قطب، مولانا مودودی۔
2. عرفان (تصوف):
- علمی اسلام: علمی اسلام کے علماء عرفان اور تصوف کو روحانی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس پر گہری تحقیق کرتے ہیں۔ ان کے لیے عرفان اسلامی تعلیمات کا ایک لازمی جزو ہے اور اس کے ذریعے انسان کے دل کی صفائی اور خدا کی قربت حاصل کی جا سکتی ہے۔
- مثالیں: مولانا رومی، ابن عربی، علامہ طبا طبائی۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء عام طور پر عرفان یا تصوف کو نظرانداز کرتے ہیں یا اسے ثانوی حیثیت دیتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک اسلامی حکومت اور سماجی انصاف کو قائم کرنا زیادہ اہم ہے۔ عرفان کو بعض اوقات عملی سیاست کے میدان سے غیر متعلق سمجھا جاتا ہے۔
- مثالیں: امام خمینی کے ابتدائی خیالات میں عرفان کی بجائے عملی سیاست پر زیادہ زور تھا، حالانکہ بعد میں ان کے نظریات میں عرفان شامل ہو گیا۔
3. اصول (اصولِ فقہ):
- علمی اسلام: اصولِ فقہ علمی اسلام کے علماء کا اہم موضوع ہوتا ہے کیونکہ یہ اسلامی قوانین اور اجتہاد کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ وہ اصولِ فقہ کو اسلامی قوانین کی تخلیق اور نفاذ میں ایک لازمی عنصر سمجھتے ہیں اور اس میں گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔
- مثالیں: آیت اللہ باقر الصدر، آیت اللہ خوئی۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء اصولِ فقہ کو عملی طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے لیے اہم سمجھتے ہیں، لیکن ان کی توجہ زیادہ تر اسلامی قوانین کے نفاذ پر ہوتی ہے، نہ کہ اصولی مباحث پر۔ ان کے لیے اصولِ فقہ کا مطالعہ زیادہ تر اس وقت ہوتا ہے جب اسے اسلامی نظام حکومت کے عملی پہلو سے جوڑا جائے۔
- مثالیں: مولانا مودودی، سید قطب۔
4. کلام (عقائد):
- علمی اسلام: علمی اسلام کے علماء کلامی مباحث میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسلامی عقائد کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ایمان، خدا، نبوت، اور معاد جیسے موضوعات پر غور و فکر کرتے ہیں اور ان پر مباحثے کرتے ہیں۔
- مثالیں: امام محمد غزالی، علامہ طوسی۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء کلامی مسائل کو عوام میں رائج کرنے یا ان پر بحث کرنے کی بجائے اسلامی عقائد کو سادہ اور قابلِ عمل طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا زور زیادہ تر اس بات پر ہوتا ہے کہ ایمان کے عملی پہلوؤں کو سماجی اور سیاسی نظام میں کیسے نافذ کیا جائے۔
- مثالیں: امام خمینی، سید قطب۔
5. فقہی مباحث:
- علمی اسلام: علمی اسلام کے علماء فقہی مسائل پر گہرے علمی مطالعے اور بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔ وہ نئے مسائل پر اجتہاد اور تحقیق کو اہمیت دیتے ہیں اور فقہی احکام کی تفصیل میں جاتے ہیں۔
- مثالیں: آیت اللہ سیستانی، آیت اللہ محمد باقر الصدر۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء زیادہ تر فقہ کو عملی سیاست اور اسلامی حکومت کے قوانین کے نفاذ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا زور اسلامی فقہ کو عوامی اور حکومتی سطح پر نافذ کرنے پر ہوتا ہے، نہ کہ پیچیدہ علمی مباحث پر۔
- مثالیں: مولانا مودودی۔
6. سماجی مسائل:
- علمی اسلام: علمی اسلام کے علماء سماجی مسائل کو زیادہ تر اخلاقیات اور دینی تعلیمات کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور ان مسائل کا روحانی یا فلسفیانہ حل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
- مثالیں: علامہ طبا طبائی، فضل الرحمان۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء سماجی مسائل کو عملی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے غربت کا خاتمہ، عدل و انصاف کا قیام، اور اسلامی قوانین کا نفاذ۔ ان کا زیادہ تر زور سماجی اصلاحات اور اسلامی حکومت کے قیام پر ہوتا ہے۔
- مثالیں: امام خمینی، سید قطب۔
7. کتابیں و کتب خانے:
- علمی اسلام: علمی اسلام کے علماء کتابوں اور علمی تحقیق میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ اسلامی اور غیر اسلامی کتب خانوں کو ایک قیمتی علمی ورثہ سمجھتے ہیں اور اسلامی لائبریریوں کی ترویج پر زور دیتے ہیں۔
- مثالیں: آیت اللہ مطہری، ابن سینا۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء کتابوں اور علمی تحقیق کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کا زور اسلامی کتابوں کو عوامی اور عملی سطح پر استعمال کرنے پر ہوتا ہے، خاص طور پر ان کتب پر جو سیاسی اور سماجی اصلاحات سے متعلق ہوں۔
- مثالیں: سید قطب۔
8. نماز جماعت و فرادیٰ:
- علمی اسلام: علمی اسلام کے علماء فرد کی روحانی ترقی پر زور دیتے ہیں اور نمازِ فرادیٰ کو ایک گہری ذاتی عبادت کے طور پر اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک فرد کی انفرادی عبادات اور خدا کے ساتھ تعلق بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
- مثالیں: مولانا رومی، ابن عربی۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء نماز جماعت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ یہ اجتماعیت، اتحاد، اور اسلامی معاشرتی نظم و ضبط کی علامت ہے۔ ان کے لیے نمازِ جماعت سیاسی اور سماجی مقاصد کے فروغ کا ایک ذریعہ بھی ہو سکتی ہے۔
- مثالیں: امام خمینی۔
9. رسومات:
- علمی اسلام: علمی اسلام کے علماء رسومات میں جدت اور عقل کا عنصر شامل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ اسلامی رسومات کی فکری بنیادوں کو جانچتے ہیں اور ان میں ضروری تبدیلیاں کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔
- مثالیں: علامہ اقبال۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء رسومات کو زیادہ تر روایتی انداز میں نافذ کرنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ سماجی اتحاد اور اسلامی شناخت کا حصہ ہیں۔
- مثالیں: مولانا مودودی۔
10. سائنس اور جدیدیت:
- علمی اسلام: علمی اسلام کے علماء سائنس اور جدیدیت کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سائنسی ترقیات کو اسلامی نقطہ نظر سے قبول کرنے کے حق میں ہیں۔
- مثالیں: فضل الرحمن، علامہ اقبال۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء سائنس اور جدیدیت کو بعض اوقات اسلامی اقدار کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جدیدیت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالا جائے۔
- مثالیں: سید قطب۔
11. قدامت پسندی:
- علمی اسلام: علمی اسلام کے علماء قدامت پسندی کو اکثر چیلنج کرتے ہیں اور نئے اجتہاد اور علمی تحقیق کی حمایت کرتے ہیں۔
- مثالیں: آیت اللہ مطہری، فضل الرحمن۔
- سیاسی اسلام: سیاسی اسلام کے علماء قدامت پسندی کی حمایت کر سکتے ہیں، خاص طور پر جہاں وہ اسلامی روایات اور قوانین کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہیں۔
- مثالیں: مولانا مودودی۔
ان موضوعات کی روشنی میں علماء کی دلچسپیاں اور نقطہ نظر ان کے علمی یا سیاسی رجحانات کو ظاہر کرتی ہیں۔ علمی اسلام کے علماء عموماً فکری گہرائی، فلسفہ، اور روحانی ترقی پر زور دیتے ہیں، جب کہ سیاسی اسلام کے علماء اسلامی حکومت، سماجی انصاف، اور سیاسی جدوجہد پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

علمی اور سیاسی دلچسپیوں میں زمانے کا فرق:
فطری طور پر سیاسی اور علمی عالم کے درمیان زمانے کا فرق اور مختلف مراحل پر مختلف دلچسپیاں و رویے ہوتے ہیں۔ یہ فینامینا ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں فرد کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا اثر ہوتا ہے، خاص طور پر تعلیم، تجربات، اور حالات کے تناظر میں۔
1. طالب علمی کا مرحلہ:
طالب علمی کے دور میں انسان عموماً نظریاتی علم حاصل کرتا ہے۔ اس مرحلے پر ایک طالب علم مختلف علوم، نظریات، اور خیالات کا مطالعہ کرتا ہے، جس میں فلسفہ، کلام، فقہ، اور دیگر علوم شامل ہوتے ہیں۔
- علمی دلچسپیاں: اس دوران طالب علم کی توجہ زیادہ تر علمی مباحث، فلسفیانہ سوالات، اور نظریاتی تحقیق پر ہوتی ہے۔ وہ اپنے نظریات کو گہرائی سے سمجھنے اور ان کی بنیاد پر خود کو علمی طور پر مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
- سماجی و سیاسی فہم: تاہم، طالب علمی کے دوران سماجی مسائل، سیاسی حالات، اور معاشرتی تبدیلیوں کی شعوری سمجھ بھی فروغ پاتی ہے۔ یہ دور ایک طالب علم کو سماجی انصاف، انسانی حقوق، اور اسلامی فلسفے کے تحت عالمی مسائل کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے۔
2. عملی میدان میں قدم رکھنا:
جب فرد عملی میدان میں قدم رکھتا ہے، تو اس کی دلچسپیاں، رویے، اور اہداف تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی اس کے تجربات، مشاہدات، اور موجودہ حالات کے اثرات کی وجہ سے ہوتی ہے۔
- عملی چیلنجز: عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی فرد کو مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جیسے کہ سیاست میں شامل ہونا، سماجی مسائل کے حل کی کوشش کرنا، یا معاشرتی تبدیلیوں میں اپنا کردار ادا کرنا۔ ان چیلنجز کے باعث فرد کی توجہ علمی پہلوؤں سے عملی مسائل کی طرف بڑھ جاتی ہے۔
- سیاست کی طرف رجحان: عملی میدان میں آنے کے بعد فرد کا رجحان سیاست کی طرف بڑھتا ہے، جہاں وہ اسلامی اصولوں کے تحت عملی طور پر کام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مرحلہ عام طور پر فکری بحثوں کی بجائے عملی اقدامات، تحریکات، اور سیاسی جدوجہد میں مشغول ہونے کا ہوتا ہے۔
3. علمی اور سیاسی عناصر کا امتزاج:
فرد کی زندگی میں یہ دونوں عناصر—علمی اور سیاسی—کبھی بھی مکمل طور پر الگ نہیں ہوتے، بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ اس امتزاج کی کئی جہات ہیں:
- علمی بصیرت: عملی میدان میں کامیابی کے لیے علمی بصیرت اور نظریاتی فہم کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم کے بغیر عملی اقدام ناقص ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح، سیاسی تجربات علمی ترقی کا بھی سبب بنتے ہیں۔
- سیاسی علم کا اثر: ایک علمی عالم جب سیاسی میدان میں قدم رکھتا ہے تو اس کی علمی بصیرت اس کے سیاسی اقدامات کو متوازن اور سمجھ دار بناتی ہے۔ وہ نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر عملی حل تلاش کرتا ہے۔
4. مکالمہ اور تعامل:
علمی اور سیاسی علوم کے درمیان ایک صحت مند مکالمہ اور تعامل ضروری ہے:
- علمی مکالمے کی ضرورت: سیاست میں شامل افراد کو علمی مباحثے اور تحقیق کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ وہ اپنے فیصلوں اور اقدامات میں بصیرت حاصل کر سکیں۔
- عملی تجربات کی اہمیت: اسی طرح، علمی شخصیات کو بھی سیاسی میدان میں شامل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی تحقیق کے نتائج کو عملی طور پر نافذ کر سکیں اور معاشرتی مسائل کے حل کی جانب گامزن ہوں۔
5. ہدف اور مقصد:
زندگی کا بنیادی ہدف دونوں عناصر کو متوازن انداز میں استعمال کرنا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ فرد اپنی علمی بصیرت کو عملی زندگی میں نافذ کرے اور ساتھ ہی سیاسی مقاصد کو اسلامی اصولوں کے مطابق آگے بڑھائے۔
- اجتہاد اور فکری ارتقاء: اس عمل میں اجتہاد کا کردار اہم ہے، جہاں فرد کو نئے حالات کے مطابق اپنی سوچ کو اپنانا پڑتا ہے اور اپنے علمی نظریات کی بنیاد پر سیاسی موقف اختیار کرنا پڑتا ہے۔
- معاشرتی تبدیلیوں کا اثر: عالمی اور مقامی تبدیلیوں کے مطابق انسان کی دلچسپیاں اور توجہ تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اس سے ایک فطری توازن پیدا ہوتا ہے جو علمی اور عملی دنیا کے مابین مربوط رابطہ قائم کرتا ہے۔
نتیجہ:
فرد کی زندگی میں سیاسی اور علمی عناصر کا یہ امتزاج ایک اہم حقیقت ہے۔ یہ دونوں پہلو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ایک مکمل شخصیت کے لیے ضروری ہیں۔ اس فینامینا کا مقصد اسلامی اصولوں کے مطابق ایک متوازن زندگی گزارنا ہے، جہاں علم اور عمل دونوں کا اہم کردار ہو۔ یہ توازن نہ صرف فرد کی ترقی میں مددگار ہوتا ہے بلکہ اسلامی معاشرت کی فلاح و بہبود کے لیے بھی اہم ہے۔

کیا اسلام میں سیاست اور علم دو الگ روشیں ہیں؟
یہ کہنا کہ جو سیاسی ہوتا ہے وہ علمی نہیں ہوتا یا جو علمی ہوتا ہے اس کی سیاست میں دلچسپی نہیں ہوتی، ایک سادہ اور محدود نقطۂ نظر ہے جو کہ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔ اسلام میں علم اور سیاست دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط سمجھا جاتا ہے، اور دونوں کی اہمیت اپنی جگہ پر مسلمہ ہے۔
اسلامی تعلیمات میں علم کا حصول ایک بنیادی فریضہ ہے، اور یہ ہدایت کی گئی ہے کہ مسلمان کو علم حاصل کرتے رہنا چاہیے، چاہے وہ علم دینی ہو یا دنیاوی۔ علم کی یہ تلاش انسان کو نہ صرف اپنی روحانی ترقی کی راہنمائی کرتی ہے بلکہ اسے اپنے معاشرتی اور سیاسی ذمہ داریوں کا بھی شعور دیتی ہے۔ اس تناظر میں، ایک عالم جو علمی موضوعات پر توجہ مرکوز کرتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی اور سماجی مسائل کی حقیقت سے بھی واقف ہو۔ یہی علم اس کی علمی حیثیت کو مزید مستحکم کرتا ہے اور اس کے نظریات کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔
دوسری طرف، سیاسی افراد کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ علمی بنیادوں پر اپنی سیاست کو استوار کریں۔ سیاست میں دخل اندازی کرنے والے افراد اگر علمی بصیرت سے عاری ہوں تو وہ صرف سطحی یا عارضی مسائل پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، جو کہ ایک مکمل اور مستقل تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسے بہت سے سیاسی رہنما موجود ہیں جنہوں نے علمی تربیت حاصل کی اور پھر اپنی علم کی بنیاد پر سیاسی مسائل کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کیا۔
چناں چہ، یہ کہنا درست نہیں کہ ایک سیاسی عالم علمی نہیں ہوتا یا ایک عالم کی سیاست میں دلچسپی نہیں ہوتی۔ دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور ایک کامیاب اور مؤثر عالم وہ ہے جو علم کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی سیاسی بصیرت رکھتا ہو۔ اس طرح کی شمولیت نہ صرف فرد کی شخصیت کو متوازن کرتی ہے بلکہ اسلامی معاشرت کے استحکام اور فلاح و بہبود کے لیے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ علم اور سیاست کا یہ امتزاج ایک جامع اسلامی شخصیت کی تشکیل میں معاون ہوتا ہے، جو کہ اسلامی معاشرت کے نظریات اور عملی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 95 Articles with 72674 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.