بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
قرآن و احادیث کو جدید دور پر منطبق کرنے کے لیے زمان و مکان کی شرط یقیناً
ایک اہم عنصر ہے، لیکن یہ واحد شرط نہیں ہے۔ اس معاملے کو بہتر طور پر
سمجھنے کے لیے چند بنیادی نکات پر غور کرنا ضروری ہے:
1. زمان و مکان کی شرط:
زمان و مکان کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ قرآن اور احادیث کا نزول ایک خاص
معاشرتی، تاریخی، اور جغرافیائی سیاق و سباق میں ہوا تھا۔ جب ہم ان تعلیمات
کو آج کے جدید دور میں لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہمیں اس بات کا
ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے اندر عمومی اصول اور اقدار موجود ہیں جن کا
اطلاق ہر دور اور ہر جگہ ممکن ہے۔ تاہم، ان اصولوں کو جدید معاشرتی، علمی،
اور اخلاقی سیاق و سباق میں سمجھنا اور ان کی وضاحت کرنا ضروری ہوتا ہے
تاکہ ان کا اطلاق صحیح طور پر کیا جا سکے۔
مثال کے طور پر، قرآن میں تجارت اور مالی معاملات کے حوالے سے دی گئی
تعلیمات کو آج کے جدید مالیاتی نظاموں میں ڈھالنے کے لیے اجتہاد اور غور و
فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح، سزاؤں اور معاشرتی اصولوں کے حوالے سے بھی
جدید قانونی نظام اور انسانی حقوق کی بنیادوں پر ان کا جائزہ لینا ضروری
ہوتا ہے۔
2. اجتہاد اور فہم کا عمل:
زمان و مکان کے ساتھ ساتھ اجتہاد کا اصول بھی اہم ہے۔ اجتہاد کا مطلب ہے کہ
اسلامی سکالرز اور علماء قرآن و احادیث کے عمومی اصولوں کو نئے حالات اور
مسائل کے ساتھ تطبیق دیں۔ اجتہاد کے بغیر، معاشرتی اور علمی ترقی کے ساتھ
دین کو مطابقت میں رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ جدید دور میں اجتہاد کا عمل اس
بات کو یقینی بناتا ہے کہ قرآن و احادیث کی تعلیمات زمانہ حال کے مسائل اور
چیلنجز کے ساتھ ہم آہنگ رہیں۔
3. ہر آیت اور حدیث کا اطلاق ہر شخص پر یکساں نہیں ہوتا:
یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ ہر آیت یا حدیث ہر شخص اور ہر زمانے میں یکساں طور
پر لاگو نہیں ہوتی۔ کچھ آیات اور احادیث مخصوص حالات، مقامات، یا افراد سے
متعلق ہوتی ہیں، اور ان کا اطلاق مخصوص شرائط و ضوابط کے تحت ہوتا ہے۔ اس
کی وجہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث کے اندر عمومی احکام کے ساتھ ساتھ خصوصی احکام
بھی موجود ہیں۔ کچھ احکام انفرادی حالات پر منحصر ہوتے ہیں، جیسے مالی
احکام، نکاح و طلاق، یا وراثت سے متعلق مسائل، جن کا اطلاق مخصوص شرائط پر
ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر، ایک آیت یا حدیث جو جنگ یا قتال سے متعلق ہو، وہ ہر مسلمان
پر ہر وقت لاگو نہیں ہوگی، بلکہ مخصوص حالات میں، جیسے دشمن کی جارحیت یا
ظلم و ستم کے جواب میں، اس کا اطلاق ہوگا۔ اسی طرح، زکات دینے کا حکم ہر
مسلمان پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ اس پر واجب ہوتا ہے جو مخصوص مالی استطاعت
رکھتا ہو۔
4. آیات اور احادیث کی تفہیم کا فرق:
قرآن و احادیث کے احکام کو سمجھنے میں مختلف عوامل شامل ہوتے ہیں، جیسے:
- نصوص کے پس منظر: کسی آیت یا حدیث کا شانِ نزول یا تاریخی سیاق و سباق
سمجھنا ضروری ہے۔
- عمومی اصول: کچھ احکام عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں، جو ہر زمانے اور ہر جگہ
پر لاگو ہوتے ہیں، جیسے صدق، انصاف، اور رحم دلی۔
- خصوصی احکام: کچھ احکام مخصوص حالات یا مخصوص افراد کے لیے ہوتے ہیں، جو
کہ ہر شخص یا ہر زمانے میں لاگو نہیں ہوتے۔
5. شرائط و ضوابط:
بہت سے احکام قرآن و حدیث کے اندر مخصوص شرائط کے ساتھ مشروط ہیں۔ ان شرائط
کا علم رکھنا ضروری ہے تاکہ کسی آیت یا حدیث کو غلط یا بے جا طریقے سے لاگو
نہ کیا جائے۔ مثلاً، روزے کا حکم ایک عمومی حکم ہے، لیکن اس کے ساتھ بیمار،
مسافر، یا ایسے افراد جن کو روزہ رکھنے میں شدید تکلیف ہو، ان کے لیے روزے
کا حکم نہیں ہے۔ یہ شرائط قرآن میں وضاحت کے ساتھ موجود ہیں، اور ان کی
تفہیم ضروری ہے۔
6. سماجی اور اخلاقی ترقی کا لحاظ:
قرآن و احادیث کی تعلیمات بنیادی انسانی اقدار پر مبنی ہیں، جیسے انصاف،
مساوات، اور انسانیت کی فلاح و بہبود۔ جب ہم ان تعلیمات کو جدید دور میں
لاگو کرتے ہیں، تو ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہ تعلیمات انسانیت
کی ترقی اور بہتر معاشرت کی تشکیل کے لیے ہیں۔ اس لیے آج کے سماجی، سیاسی،
اور اقتصادی حالات کے تناظر میں ان تعلیمات کو ایسے انداز میں پیش کرنا
ضروری ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے موزوں ہو۔
خلاصہ:
قرآن و احادیث کو جدید دور پر منطبق کرنے کے لیے زمان و مکان کی شرط اہم
ہے، لیکن اس کے ساتھ اجتہاد، نصوص کا صحیح فہم، اور احکام کی شرائط و ضوابط
کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہر آیت اور حدیث ہر شخص اور ہر زمانے کے لیے یکساں
طور پر لاگو نہیں ہوتی، بلکہ ان کا اطلاق حالات اور شرائط پر منحصر ہوتا
ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسانیت کی فلاح اور کامیابی ہے،
اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب ہم ان تعلیمات کو زمانے کی ضروریات
کے مطابق سمجھیں اور عملی زندگی میں اپنائیں۔
|