"ام ترتر" کا اصل نام نفوسہ تھا، جو اسکندریہ
(Alexandria) کے علاقے "کرموز" کے محلوں میں رہتی تھی۔ یہ خاتون اپنی تیز
زبان اور مضبوط شخصیت کے لیے مشہور تھی، اور کسی سے ڈرتی نہیں تھی۔
اسے "ام ترتر" اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ وہ چمکدار اور خوبصورتی سے سجے
ہوئے لباس اور دوپٹے پہنا کرتی تھی، جن پر اکثر ترتر (چمکتے ہوئے موتی یا
کڑھائی کے عناصر) لگے ہوتے تھے۔ اس کا شوہر "معلم علوان ابو اسماعیل" کے
نام سے جانا جاتا تھا، جو ایک حنطور (گھوڑا گاڑی) چلایا کرتا تھا۔
کہانیوں کے مطابق، ام ترتر کے گھر کی چھت پر مرغیاں رکھی ہوئی تھیں۔ جب بھی
محلے کے کسی ہمسائے کا مرغ غلطی سے اس کی چھت پر چلا جاتا، تو وہ واپس نہ
آتا—کیونکہ ام ترتر اسے ذبح کر کے اپنے شوہر کو کھانے میں پیش کر دیتی تھی۔
بعد میں جب ہمسائے اپنے گمشدہ مرغ کی تلاش کرتے تو انہیں کہا جاتا:
"عند ام ترتر، ربنا يعوض عليكم"
(یعنی: "ام ترتر کے پاس چلا گیا، اللہ تمہیں اور عطا کرے")۔
یہی وجہ ہے کہ مصری عوام میں یہ محاورہ مشہور ہوا "عند ام ترتر"۔ اس محاورے
کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی چیز آپ کو ہرگز واپس نہیں ملے گی، حالانکہ آپ کو
اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ کہاں گئی۔
یہ کہانی ایک طنزیہ اور عوامی داستان ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے
کہ بعض لوگ موقع پرستی کے ذریعے دوسروں کے نقصان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ "عند
ام ترتر" کا محاورہ دراصل ان حالات کو بیان کرتا ہے، جہاں آپ کو علم ہوتا
ہے کہ آپ کی چیز کس کے پاس گئی، مگر آپ اسے حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں🌹
|