عوام کی معلومات: شفافیت کا حق اور چیلنجز
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
|
پشاور میں منعقدہ آر ٹی آئی کمیشن کے مشاورتی سیشن کے مناظر |
|
معلومات کے اصل مالک عوام ہیں اور عوام معلوما ت تک رسائی قانون کے ذریعے اصل معلومات حاصل کرکے اداروں کی شفافت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ،کم و بیش دو دہائی قبل معلومات چھپانے کیلئے قوانین بنائے جاتے تھے لیکن اب حکومتی سطح پر پاکستان میں معلوما ت دینے کیلئے قوانین بنائے جارہے ہیں جو خوش آئند ہیں ، عام لوگ ابھی بھی رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے تحت معلومات لینے میں خوف کا شکار ہیں رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت سوال پوچھنے والے کو نہیں پتہ کہ وہ کونسا سوالات کرے ،شہریوں کو معلومات ابھی بھی لیٹ دی جاتی ہیں جبکہ بعض ادارے غلط معلومات فراہم کرتے ہیں- یہ وہ چند باتیں ہیں جو رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن خیبرپختونخواہ کی منعقدہ مشاورتی سیشن میں شرکاءنے کی .آر ٹی آئی کمیشن نے اپنے دس سال مکمل کرنے پر کامیابیوں کی عکاسی اور مستقبل کی تشکیل کے عنوان سے پشاور کے مقامی ہوٹل میں دو غیر سرکاری اداروں کے تعاون سے تقریب منعقد کی ، جس میں مختلف سرکاری اداروں کے پبلک انفارمیشن افیسرز ، سول سوسائٹی ، صحافیوں او ر زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی ، چیف انفارمیشن کمشنرمسز فرح سمیت سابقہ کمشنرز نے بھی مشاورتی سیشن میں شرکت کی .
پشاو ر کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہونیوالے اس تقریب میں وزیراعلی خیبرپختونخواہ نے شریک ہونا تھا ان کی مصروفیات کی وجہ سے یہ مشاورتی سیشن لیٹ بھی کرایا گیا لیکن وزیراعلی کی شرکت نہیں ہوسکی ،سیشن میں شریک سرکاری اہلکاروں نے اپنے لئے الگ لپ ٹاپ اور موبائل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے وہ رائٹ ٹو انفارمیشن میں مزید بہتر کام کرینگے اور مستقبل میںیہی موبائل نمبر کسی دوسرے پی آئی او کو بھی ملے گا اور سارے صوبے کے لوگوں کو یہ موبائل نمبر معلوم ہوگا اور اس سے ان کا کام بھی آسان ہوگا ، شہریوں نے اپنی مسائل میں بعض اداروں سے بھی معلومات کی فراہمی میں دھمکانے اور معلومات نہ دینے کی بات کی اورکہا کہ بعض ادارے معلومات غلط دیتے ہیںجبکہ بعض ادارے معلومات اتنا لیٹ فراہم کرتے ہیں کہ ان معلومات کا پھر فائدہ نہیں ہوتا جبکہ آر ٹی آئی کمیشن میں کام کرنے والے سابقہ اور موجودہ چیف انفارمیشن کمشنر نے اس قانون پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ بہترین قانون ہے تاہم انہوں نے سہولیات، اہلکاروں کی کمی ، کورم کی کمی اور فنڈز کم ہونے سے متعلق بتایا اور کہا کہ گیا کہ صرف سینتالیس ملین روپے انہیں مل رہے ہیں .
فنڈز آر ٹی آئی کمیشن خیبرپختونخواہ کے پاس واقعی کم ہیں اسی وجہ سے یہ مشاورتی سیشن بھی سول سوسائٹی کے تعاون سے پشاور کے مقامی ہوٹل میں منعقد کروائی گئی اپنی نوعیت کے اس مشاورتی سیشن پر اگر عمیق نظر ڈالی جائے تو لگتا ہے کہ یہ مشاورتی سیشن بھی صرف تہوار منانے کی طرح ایک تقریب تھی جس میں تقریریں تو بہت اچھی ہوئی لیکن اس کے ثمرات مستقبل میں تو کیا ابھی بھی ملنا مشکل ہے.
اس کی بنیادی وجوہات میں اہم وجہ یہی ہے کہ ابھی بھی پاکستانی عوام سے معلومات چھپائی جارہی ہیں اور معلومات نہیں دی جارہی ،سرکاری ملازمین اپنے آپ کو عوام کے ملازم کے بجائے اپنے آپ کو حکمران سمجھتے ہیں اور معلومات چھپاتے ہیں. جس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر پہلا ملک ہے جس نے پانی ، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے بعد انٹرنیٹ کی لوڈشیڈنگ بھی شروع کردی ، انٹرنیٹ کی لوڈشیڈنگ صرف اس لئے کہ معلومات شہریوں کو میسر نہ ہو ، اپنی پسند اور مطلب کی معلومات شہریوں تک پہنچانا ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے ، اب جس طرح بجلی کی لوڈشیڈنگ میں متبادل راستے اختیار کرتے ہیں اسی طرح انٹرنیٹ کی لوڈشیڈنگ میں معلومات تک رسائی کیلئے دیگر متبادل راستے اختیار کرلیتے ہیں جس سے بعض اوقات ایسی صورتحال بن جاتی ہیں کہ حکومتوں سے بھی کنٹرول نہیں ہوتیں- معلومات اگر بروقت اور صحیح طریقے سے میسر نہ ہوتو پھر غلط معلومات مسائل پیدا کرتی ہیں جس کی بڑی مثال ایک ہفتہ قبل لاہور میں طالبہ کی جھوٹی ریپ کی خبر تھی جسے غلط انداز میں پیش کیا گیا اور اس سے طلباءمیں اشتعال پھیل گیا اور لاہور سے راولپنڈی ارور اسلام آباد تک تک حالات کنٹرول نہیں ہوئے ، حکومتی اداروں میں بیٹھے سرکاری ملازمین نے اس طرح ان خبروں کو ہائی لائٹ نہیں کیا جس طرح انہیں کرنا چاہئیے تھا اس لئے غلط خبریں پھیل گئی اور اس سے انتشار پھیل گیا ، تقریروں کی حد تک تو انفارمیشن عوام تک پہنچانا تک کا اعلامیہ تو بہترین ہے لیکن حقیقت میں اور گراﺅنڈ میں کچھ اور ہی صورتحال ہے.اور موجودہ صورتحال نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ اگر معلومات بھرپور طریقے اور مکمل نہیں دی جاتی تو پھر حالات مستقبل میں بھی خراب ہوسکتے ہیں .
رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کی اس مشاورتی کمیشن میں ایک بڑے سرکاری افسر جو اس تقریب میں شریک تھے اور جنہوں نے اس تقریب کی سمری بھی پیش کی انہوںنے چار سال سے معلومات نہ ملنے کا شکوہ کیا ، ان کے شکوے اپنی جگہ بجا لیکن سب سے بڑا شکوہ معلومات تک رسائی قانون کے تحت کام کرنے والے پی آئی اوز اپنے لئے الگ لپ ٹاپ ، موبائل فون نمبر کا مطالبہ کیا ، جبکہ ایک صاحب نے تمام اداروں میں الگ الگ پی آئی اتعیناتی کا بھی مطالبہ کیا.ایک ایسے ملک میں جہاں پر اداروں میںسیاسی بنیادوں پر غیر ضروری افراد بھرتی کئے گئے اور ابھی وفاق کی سطح پر بہت سارے ادارے ختم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جارے ہیں ایسے میںیہ مطالبے کچھ عجیب و غریب ہیں ، کیا یہ اہلکار اپنے ذاتی موبائل فون اپنے آفس کیلئے استعمال نہیں کرتے ، اور کیا انہوں نے جولپ ٹاپ اور موبائل فون لئے ہیں وہ کسی او ر ذریعے سے رقم حاصل کرکے لئے ہیں یا پھر سرکاری تنخواہوں سے لئے ہیں اگر اپنے ذاتی موبائل فون سے سرکاری کام ہوتے ہیں اور سرکاری ادارے سے ملنے والی تنخواہ سے موبائل لئے ہیں تو پھر اس میں کونسے ان لوگوںنے ایٹم بم بنانے کے فارمولے شیئر کرنے ہیں ، ویسے بھی جو لوگ کام کرتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتا کہ ان کے پاس وسائل کتنے ہیں وہ کام کئے جاتے ہیں -
رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کے اس مشاورتی سیشن میں کامیابیوں کی باتیں تو بہت کی گئی ، اور اور آل ملنے والی رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کو درخواستوں کی تعداد تو بتا دی گئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ سب سے زیادہ درخواستیں کس ادارے کے حوالے سے آئی ہیں ، اور کب سے زیر التواءچل رہی ہیں ، کامیابیوں کیساتھ ساتھ ناکامیوں کا ذکر ہو تو اس کیلئے الگ سٹریٹجی بنانی پڑتی ہے لیکن ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں پر روشن پہلو سب کو دکھایا اور بتایا جاتا ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ کسی کو نہیں دکھایا جاتا ، مشاورتی سیشن میں اگر بہترین سرکاری اہلکار ،صحافی اور شہری کو ایوارڈ دئیے گئے تو کم از کم اگر یہ بتا دیتے کہ فلاں محکمے کے پاس درخواستیں پڑی ہوئی ہیںاور یہ کتنے عرصے سے زیر التواءہیں جو بروقت نہیں دی جارہی اور ان اداروں کی کارکردگی اس حوالے سے بات ہوتی ، اس میں شرم کی بات نہیں البتہ یہ پتہ چل جاتا کہ کتنے سرکاری ادارے معلومات دینے میں انٹرسٹڈ ہیں اور کتنے نہیں ،اور ان کیخلاف کیا کارروائی ہوئی ،یہ بات قابل غور ہے کہ سال 2020 کے بعد رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن نے کسی بھی ادارے کو معلومات نہ دینے پر جرمانہ نہ کیا ، یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن بھی دیگر سرکاری اداروں کی طرح سست روی کا شکار ہیں.مشاورتی سیشن میں لوگوں میں خوف اور دھمکانے کے حوالے سے باتیں بھی ہوئی جبکہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نوشہرہ کے شہری نے نگران دور حکومت میں خیبرپختونخواہ کے اقلیتی امور کے فنڈز کو صوبہ سندھ کو دینے کی شکایت کی اور کہا کہ میڈیا اس بات کو ہائی لائٹ کرے کیونکہ خیبرپختونخواہ میں بھی اقلیتی برادری موجود ہیں اور یہ انکے ساتھ ظلم و زیادتی ہے.
فنڈز اور اہلکاروں کی کمی کے حوالے سے رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کے کورم کی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی جو کئی سال سے مکمل نہیں ، رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن میں کی مشاورتی کمیشن میں یہ بات بھی کی گئی کہ وقت کیساتھ ساتھ بہتری آئیگی لیکن یہ بہتری ابھی کیوں نہیں آرہی یہ وہ بنیادی سوا ل ہیں جو کرنے کا ہے ، اگر رائٹ ٹوانفارمیشن کمیشن میں کمشنرز کی تعیناتیاں سیاست اور سفارش کے بجائے میرٹ پر کی جائے اور ان دونوں عہدوں پر تعینات افراد کو رضاکارانہ طور پر لیا جائے تو کم از کم کام تو چل جائیگا ویسے بھی بہت سارے بیورو کریٹ جو ریٹائرڈ ہو کر پنشن لے رہے ہیں انہیں اس خدمت پر تعینات کرکے ان سے کام لیا جاسکتا ہے ، صرف گاڑی ، دفتر اور مراعات کے چکر سے نکلنے کی ضرورت ہے کیونکہ بیورو کریٹ سمیت معاشرے کے ہر فرد کو اس مملکت خداداد نے بہت کچھ دیا ہے ور اگر ریٹائرڈ ہونے کے بعد یہی افراد خدمت کے جذبے سے کام کریں تو کم از کم رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن خیبرپختونخواہ میں مزید بہتری آسکتی ہیں.اسی طرح اگر اداروں پرجرمانوں کا سلسلہ شروع ہوجائے تو کم از کم احتسا ب کے ڈر سے معلومات شہریوں کو فوری طور پر میسر ہوسکیں گی . #RTI #COMISSION #KPK #RTIACT #information
|