میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
گیارہویں شریف کے بارے میں ہم نے پہلے حصے میں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے بارے میں کچھ علم حاصل کیا آج اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم سب سے
پہلے سرکار بغداد شہنشاہ اولیاء حضور شیخ عبد القادر جیلانی بحضور غوث پاک
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کچھ اہم اور معروف کرامات کا ذکر کریں گے جس سے
ہمیں ایک تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان و عظمت کا اندازہ ہوگا اور منکر
عظمت اولیاء کے لئے ایک سبق بھی ہوگا کہ اللہ اپنے خاص ، محبوب اور مقرب
بندوں کو کیسے نوازتا ہے اور انہیں غیر مسلموں کو اسلام کی طرف اور غیر
مقلدوں کو صحیح عقیدے کی طرف لانے کے لیے کیسی کیسی کرامات سے نوازتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ابو سعد عبدﷲ بن احمد کا بیان ہے ‘ ایک بار
میری لڑکی فاطمہ گھر کی چھت پر سے یکایک غائب ہوگئی۔ میں نے پریشان ہوکر
سرکار بغداد حضور سیدنا غوث پاک رحمتہ ﷲ تعالیٰ علیہ کی خدمت بابرکت میں
حاضر ہوکر فریاد کی۔ آپ رحمتہ ﷲ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا ’’کرخ جاکر
وہاں کے ویرانے میں رات کے وقت ایک ٹیلے پر اپنے اردگرد حصار (یعنی دائرہ)
باندھ کر بیٹھ جائو۔ وہاں میرا تصور باندھ لینا اور بسم ﷲ کہہ لینا۔ رات کے
اندھیرے میں تمہارے اردگرد جنات کے لشکر گزریں گے‘ ان کی شکلیں عجیب و غریب
ہوں گی‘ انہیں دیکھ کر ڈرنا نہیں‘ سحری کے وقت جنات کا بادشاہ تمہارے پاس
حاضر ہوگا اور تم سے تمہاری حاجت دریافت کرے گا۔ اس سے کہنا ’’مجھے شیخ
عبدالقادر جیلانی قدس سرہ الربانی نے بغداد سے بھیجا ہے تم میری لڑکی کو
تلاش کرو‘‘ چنانچہ کرخ کے ویرانے میں جاکر میں نے حضور غوث اعظم رحمتہ ﷲ
تعالیٰ علیہ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا۔ رات کے سناٹے میں خوفناک جنات
میرے حصار کے باہر گزرتے رہے۔ جنات کی شکلیں اس قدر ہیبت ناک تھیں کہ مجھ
سے دیکھی نہ جاتی تھیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سحری کے وقت جنات کا بادشاہ گھوڑے پر سوار
آیا۔ اس کے اردگرد بھی جنات کا ہجوم تھا۔ حصار کے باہر ہی سے اس نے میری
حاجت دریافت کی۔ میں نے بتایا کہ مجھے حضور غوث الاعظم رحمتہ ﷲ تعالیٰ علیہ
نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ ایک دم گھوڑے سے اتر آیا اور
زمین پر بیٹھ گیا۔ دوسرے سارے جن بھی دائرے کے باہر بیٹھ گئیٍ میں نے اپنی
لڑکی کی گمشدگی کا واقعہ سنایا۔ اس نے تمام جنات میں اعلان کیا کہ لڑکی کو
کون لے گیا ہے؟ چند ہی لمحوں میں جنات نے ایک چینی جن کو پکڑ کر بطور مجرم
حاضر کردیا۔ جنات کے بادشاہ نے اس سے پوچھا‘ قطب وقت حضرت غوث الاعظم رحمتہ
ﷲ تعالیٰ علیہ کے شہر سے تم نے لڑکی کیوں اٹھائی؟ وہ کانپتے ہوئے بولا‘عالی
جاہ! میں دیکھتے ہی اس پر عاشق ہوگیا تھا۔ بادشاہ نے اس چینی جن کی گردن
اڑانے کا حکم صادر کیا اور میری پیاری بیٹی میرے سپرد کردی میں نے جنات کے
بادشاہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ ماشاءﷲ عزوجل آپ سیدنا غوث الاعظم
رحمتہ ﷲ تعالیٰ علیہ کے بے حد چاہنے والے ہیںٍ اس پر وہ بولا خدا کی قسم!
جب حضورغوث الاعظم رحمتہ ﷲ تعالیٰ علیہ ہماری طرف نظر فرماتے ہیں تو تمام
جنات تھر تھر کانپنے لگتے ہیںٍ جب ﷲ تبارک و تعالیٰ کسی قطب وقت کا تعین
فرماتا ہے تو تمام جن و انس اس کے تابع کردیئے جاتے ہیں۔
(بہجتہ الاسرار و معدن الانوار ص 140 دارالکتب العلمیہ بیرون)
تھرتھراتے ہیں سبھی جنات تیرے نام سے
ہے تیرا وہ دبدبہ یا غوث اعظم دستگیر
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
صاحبزادے شیخ عبدالجبار رحمتہ اللہ علیہ اپنی والدہ محترمہ کے بارے میں
بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ جب بھی کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتیں
تو وہاں چراغ کی مثل روشنی ہوجاتی تھی ، ایک مرتبہ میرے والد صاحب حضور غوث
اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں تشریف لے آئے، جیسے ہی اس روشنی پر آپ
کی نظر پڑی تو وہ روشنی فوراً ہی غائب ہوگئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
فرمایا یہ شیطان تھا جو تمہاری خدمت کیاکرتا تھا، اسی لیے میں نے اُسے ختم
کردیا ، اب میں اس روشنی کو رحمانی نور میں تبدیل کیے دیتا ہوں، اس کے بعد
والدہ صاحبہؒ جب بھی کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتیں تو وہاں چاند کی
مثل نور اور روشنی ہوجاتی ۔ (بہجتہ الاسرار صفحہ196)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بغداد شریف کے محلہ باب الازج کے قبرستان
میں ایک قبر سے مردہ کے چیخنے کی آواز سنائی دینے کے متعلق لوگوں نے حضرت
غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ نے پوچھا: “کیا اس قبر والے نے مجھ سے خرقہ پہنا ہے ؟“ لوگوں
نے عرض کیا: “حضور والا ! اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔“ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے پوچھا کہ “اس نے کبھی میری مجلس میں حاضری دی تھی ؟“ لوگوں نے عرض
کیا: “بندہ نواز ! اس کا بھی ہمیں علم نہیں۔“ اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے پوچھا کہ “کیا اس نے میرے پیچھے نماز پڑھی ہے ؟“ لوگوں نے عرض کیا:
“کہ ہم اس کے متعلق بھی نہیں جانتے۔“تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا
کہ بھولے ہوئے لوگ ہی خسارے میں پڑتے ہیں اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے مراقبہ فرمایا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ مبارک سے جلال، ہیبت
اور وقار ظاہر ہونے لگا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرمبارک اٹھا کر فرمایا
کہ “فرشتوں نے مجھے کہا ہے: “اس شخص نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کی
ہے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےحسن ظن اور محبت رکھتا تھا اور اللہ عزوجل
نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سبب اس پر رحم فرما دیا ہے۔“ اس کے بعد اس
قبر سے کبھی بھی آواز نہ سنائی دی۔“
(بہجۃ الاسرار، ذکر فضل اصحابہ و بشراہم، ص 194)۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دنیا
میں آنے سے دین کو ایک نئی طاقت ملی نئی جدت ملی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
فرماتے ہیں کہ 511 ھ میں
ایک دفعہ میں ایک سفر سے بغداد کی طرف وآپس لوٹ رہا تھا تو میرا گزر ایک
ایسی جگہ سے ہوا جہاں ایک مریض لیٹا ہوا تھا انتہائی کمزور اور لاغر جسم
اور رنگ جیسے اڑا ہوا اٹھنے کی طاقت نہیں تھی لیکن جب اس نے آپ حضور غوث
پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا تو عرض کیا " اسلام علیک یا عبدالقادر "
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے بھی اسے جواب دیا تو وہ مجھے
کہنے لگا کہ کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اٹھا کر بٹھا سکتے ہیں تو میں
نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو وہ اس طرح اٹھ کر بیٹھ گیا جیسے کبھی لیٹا ہی
نہ ہو طبیعت بھی ٹھیک ہوگئی رنگ بھی کھل گیا اور مرض بھی جاتا رہا پھر اس
نے کہا کہ دراصل میں " دین۔ " ہوں موت کے بالکل کنارے تک پہنچ گیا تھا لیکن
اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدولت مجھے نئی زندگی عطا فرمائی
۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بزرگوں کی نسبت نہ صرف اس عارضی دنیا کے
لئے بلکہ ہمیشہ قائم رہنے والی اخرت کی زندگی کے لئے بھی بڑی کارامد ہے اور
جن لوگوں نے اولیاء کرام ، بزرگان دین اور ولی اللہ سے بغض رکھا تو ان کی
یہ زندگی بھی سوائے پریشانی اور تکلیف میں گزرے گی بلکہ آخرت بھی خراب ہوگی
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنا دوست کہا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے
دوست سے دوستی اور دشمن سے دشمنی کا سبق بھی ہمیں اللہ نے ہی سکھایا ہے
اللہ نے قرآن مجید کی سورہ یونس کی آیت 62 میں ارشاد فرماتا ہے کہ
" اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ
یَحْزَنُوْنَ
ترجمعہ کنزالعرفان:
سن لو! بیشک ا للہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک دفعہ حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کی بارگاہ میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا اور عرض کیا
کہ حضور میں آج آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوئی کرامات دیکھنا چاہتا ہوں
تاکہ میرے دل کو کچھ اطمینان ہو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بتائو
تم کیا چاہتے ہو ؟ اس نے دل میں سوچا کہ ایسی خواہش کروں جو یہ کبھی پوری
نہ کرسکیں کیونکہ وہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طاقت سے
ناواقف تھا بولا کہ میں سیب کھانا چاہتا ہوں اگر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
غیب سے مجھے سیب منگوا کر دیں تو میرا دل مطمعن ہو جائے گا اس وقت پورے
عراق میں سیب کا کہیں بھی کوئی نام و نشان نہیں تھا یعنی سیزن نہیں تھا
لیکن میرے پیران پیر دستگیر حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسے
ہی ہوا میں ہاتھ بڑھائے تو دو عدد سیب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں
تھے ایک سیب اس کو دیا اور دوسرے سیب کو جب کاٹا تو بالکل سفید تھا اور اس
میں سے مشک جیسی خوشبو آرہی تھی جبکہ ابوالمظفر نے جب سیب کو کاٹا تو اس
میں کیڑے نکلے اس نے کہا کہ یہ کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سیب اتنا صاف
اور خوشبودار جبکہ میرے سیب میں کیڑے تو حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے فرمایا کہ اے ابوالمظفر تمہارے سیب کو ظالم کے ہاتھ لگ گئے ہیں اس لئے
اس میں کیڑے پڑ گئے ہیں ۔( المرجع السابق، ص 12).
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک بہت ہی معروف واقعہ یہاں میں شامل کرنا
چاہوں گا جسے کئی علماء اور فقہا نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے
یہاں تک کہ اس واقعہ کو منکر بزرگان دین منکر اولیاء کرام حضرت مولانا اشرف
علی تھانوی نے بھی اپنی کتاب الاضافات الیومیہ میں لکھا واقعہ کچھ یوں ہے
کہ ایک شخص کا انتقال ہوگیا جو پیشے کے اعتبار سے ایک دھوبی تھا اور حضور
غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے دھویا کرتا تھا جب اس کی قبر میں منکر
نکیر آئے تو انہوں نے وہ سوال کئے جو ہر قبر والے سے کئے جاتے ہیں لیکن اس
دھوبی نے ہر سوال پر ایک ہی جواب دیا کہ میں تو غوث پاک کا دھوبی ہوں اور
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نےکھا ہے کہ اس دھوبی کے ایسا کہنے کی
وجہ سے اس کی نجات ہوگئی اب شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا فیض احمد اویسی
علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب " برکات گیارہویں شریف " میں اس واقعہ کی تفسیل
کچھ اس طرح بیان کی ہے کہ دراصل جب اس دھوبی سے پہلا سوال کیا گیا " ما ربک
" یعنی تیرا رب کون ہے اور اس نے کہا کہ میں تو غوث پاک کا دھوبی ہوں تو اس
کا مطلب یہ تھا کہ جو رب میرے غوث پاک کا ہے وہی میرا رب ہے اور اس طرح جو
دین میرے غوث پاک کا ہے وہی میرا دین ہے لہذہ چاروں جوابات صحیح تھے اس لئے
اس کی نجات ہوگئی اور یہ ہے بزرگان دین سے نسبت کا فیضان بزرگان دین اور
خاص طور پر حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نسبت کا انعام۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جس طرح ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے
کے لئے اس کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم ہونے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا
ضروری ہے تو اس کے لئے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان ، اولیاء کاملین اور
بزرگان دین سے محبت کرنا ہوگی انہی کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنا ہوگا ان
سے اپنی نسبت کو پکا کرنا ہوگا گویا سردار اولیاء محبوب سبحانی شیخ
عبدالقادر جیلانی حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی نسبت کو مظبوط
سے مظبوط رکھنا ہوگی پھر اس عارضی زندگی میں بھی اور ہمیشہ قائم رہنے والی
اخرت کی زندگی میں بھی ہمارا بیڑا پار ہوگا ان شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب میں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کے اس مشہور اور معروف واقعہ کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہوں گا جس واقعہ
میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو کرامت ظاہر ہوئی اس کی وجہ سے نہ صرف اس
وقت کے کئی ہزار لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوکر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
بیعت سے سرفراز ہوئے بلکہ قاضی حاجات اور غوث پاک کا مقام و مرتبہ ہر خاص و
عام کی زباں پر جاری وساری ہوگیا اور یہ واقعہ اس بوڑھی عورت کا ہے جس کا
بیٹا پوری بارات سمیت دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوگیا تھا اس واقعہ کو ہمارے
فقہا نے دو طرح سے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قصہ کچھ یوں ہے کہ حضور غوث پاک رضی اللہ
تعالیٰ عنہ ایک دن ایک دریا کے کنارے انتہائی خوبصورت اور سرسبز مقام پر
عبادت میں مشغول تھے کچھ عورتیں اپنے اپنے ہاتھوں میں پانی کے گھڑے لیکر
آئیں اور پانی بھر کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیں لیکن ایک بوڑھی عورت
وہاں بیٹھ کر اونچی آواز کے ساتھ زارو قطار رو رہی تھی جب آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ تک آواز پہنچی تو ایک مرید سے پوچھا کہ یہ بوڑھی عورت اتنے
دردناک انداز میں کیوں رورہی ہے تو اس نے عرض کیا کہ اس کا ایک جوان بیٹا
تھا جو ٹھیک بارہ سال قبل شادی کرکے اپنی دلہن اور باراتیوں سمیت بڑی دھوم
دھام کے ساتھ کشتی میں آرہا تھا کہ کشتی دریا میں دولہا ، دلہن اور
باراتیوں سمیت ڈوب گئی سب کے سب ہلاک ہوگئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مرید نے مزید بتاتے ہوئے کہا کہ اس
واقعہ کو 12 سال گزر گئے لیکن یہ بوڑھی عورت ہر روز یہاں آکر زاروقطار روتی
ہے یہ بات سن حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل مضطرب ہوگیا فرمایا
اس عورت کو میرے پاس لےکر آئو تو وہ مرید اس عورت کے آیا جب وہ عورت آپ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے
تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ میں عبدالقادر تجھ سے وعدہ کرتا ہوں کہ تیرے بیٹے
اور بہو سمیت پوری بارات کو تجھے اللہ تعالیٰ سے واپس دلوائوں گا یہ کہکر
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور سجدے میں چلے گئے آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تین دفعہ دعا فرمائی کہ اے میرے رب میری لاج رکھ لے
تو وہاں پر موجود لوگوں نے دیکھا کہ وہ پوری کی پوری بارات دولہا اور دلہن
کشتی سمیت دریا سے باہر آگئے اور کشتی دریا کے کنارے لگی اس کشتی کا نام "
سفینہ" تھا جس کی زیارت بعد میں بہت سے علماء کرام نے کی جس میں شیخ الحدیث
مفتی فیض احمد اویسی صاحب بھی شامل ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ منظر دیکھ کر اس بوڑھی عورت کی خوشی کا
کوئی ٹھکانہ نہیں تھا وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدموں پر گر گئی اور
اجازت لیکر خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف چلی گئی لیکن اس واقعہ کی خبر جب
پھیلی تو جوگ در جوگ کفار اور مشرکین کے قافلے کے قافلے آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا شروع ہوگئے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ آپ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں مشرف با اسلام ہوئے اور ہر طرف حضور غوثِ
پاک کا چرچہ ہونے لگا صرف سلسلئہ قادریہ ہی نہیں بلکہ تاریخ کے ہر دور میں
ہر سلسلے کے علماء اور مشائخ نے مختلف زبانوں میں مختلف انداز میں اس واقعہ
کو منظوم اور نثری انداز میں بیان کیا ہے ۔ اگر تمام زبانوں میں موجود اس
واقعہ کو تحریری شکل دی جائے تو یہ ایک مکمل اور خوبصورت کتاب کی شکل
اختیار کرسکتی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں گیارہویں شریف کا لنگر یعنی گیارہویں شریف
کی نیاز کے ابتدا کے متعلق ہمیں کئی کتابوں میں کئی روایات ملتی ہیں لیکن
ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر سال دن دسویں
اور رات گیارہویں کو اپنے آقا و مولا سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم
کا جشن ولادت منایا کرتے تھے اور ایک بڑے کھانے کا اہتمام کرتے تھے جسے بعد
میں لنگر کا نام دے دیا گیا یہ لنگر اتنا مشہور ہوگیا کہ لوگ دور دور سے اس
میں شرکت کرنے کے لئے آتے تھے گیارہویں شریف کا لنگر وہ لنگر بن گیا جس میں
اپنے تو اپنے غیر بھی اپنا حصہ ڈالنے میں خوشی محسوس کرتے تھے اللہ تبارک
وتعالیٰ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس نیاز کو اتنا قبولیت کا درجہ دیا
اور اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ یہ لنگر یہ نیاز اس کے بعد پوری دنیا
میں پھیل گئی اور ہر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور حضور غوث پاک
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مرید یا چاہنے والا ہر ماہ کی گیارہویں تاریخ کو اس
کا اہتمام کرتے نظر آتے ہیں اور یہ نیاز و لنگر آج تک قائم و دائم ہے اور
رہتی قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان
وعظمت کا وہ مقام تھا کہ اولیاء کرام اور بزرگان دین پر کفر کا فتویٰ لگانے
والے " ابن تیمیہ " کو بھی حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت اور
مقام ولایت کو تسلیم کرنا پڑا حضرت ابراہیم عب دروہی نے اپنی کتاب "
المختصر التاریخ شیخ عبدالقادر گیلانی " میں لکھا ہے کہ ہر سال ابن تیمیہ
ربیع الاول کے آخری ہفتے میں حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسے پر
درس و تدریس کا سامان بمعئہ غلہ، اناج ، چاول تحفے تحائف اور لنگر غوثیہ جو
گیارہویں شریف کی دن دس اور رات گیارہویں کو حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ
عنہ مناتے تھے اس کے لئے 30 اونٹ قافلے کی صورت میں دمشق شام سے بغداد تک
کم و بیش 830 کلومیٹر دور حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اس لئے
روانہ کرتا تھا کہ وہ اونٹ گیارہویں شریف کی دس تاریخ کی دن اور گیارہویں
کی رات سے پہلے پہلے پہنچ جائیں اور اس لنگر میں اس کابھی حصہ ہو جائے اس
لئے روانہ کیا کرتا تھا یعنی حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و
مرتبہ اتنا اعلی تھا شان و عظمت اتنی نرالی تھی کہ جو اولیاء اللہ کا منکر
تھا اور کفر کے فتوے لگاتا تھا وہ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام
ولایت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا اور سب سے حیرت کردینے والی بڑی بات یہ
تھی کہ وہ ہر سال یہ کام کرتا تھا اور ہر سال ربیع الاول کے آخری دنوں میں
اپنے اونٹ روانہ کرتا اور وہ اونٹ گیارہویں شریف کی دن دس اور رات گیارا کے
نیاز کے اہتمام سے پہلے پہلے پہنچ جایا کرتے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سردار اولیاء محبوب سبحانی حضور شیخ سید
عبدالقادر جیلانی غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی نسبت مظبوط بنائیں
اور اس پر ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے کی توفیق مانگئے تاکہ آپ کی یہ عارضی
دنیاوی زندگی اور ہمیشہ قائم رہنے والی اخرت کی زندگی میں بیڑا پار ہو جائے
حضور غوث پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں لکھنا ان مضامین کے دو حصوں
میں ممکن نہیں لہذہ میں اس عنوان کے تیسرے حصے کے ساتھ دوبارہ آپ کی خدمت
میں حاضر ہو جائوں گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی
اولیاء کرام اور بزرگان دین کی شان و عظمت کو سمجھنے اور ان کے راستوں پر
چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ
وسلم ۔
|