ہماری زندگی پر احادیث کا اثر ( تیرہواں حصہ)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
" ہماری زندگی پر احادیث کا اثر " کے عنوان سے اب تک ہم نے بارہ احادیث کا تذکرہ کیا ہے آج ہم اس سلسلے کی تیرہویں حدیث کا ذکر کریں گے ہماری تیرہویں حدیث صحیح البخاری سے لی گئی ہے اور اس کا نمبر 1477 ہے اور حضور ﷺ کے جومع الکلم میں اس حدیث مبارکہ کو بڑا مقام حاصل ہے اس حدیث میں ان تین چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کو رب تعالی نے ناپسند فرمایا ہے حدیث کچھ یوں ہے کہ
" حضرت مغیرہ بن شعرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب وارد سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مغیری بن شعرہ کو خط لکھا کہ تم مجھے کوئی ایسی بات لکھ کر ارسال کرو جو تم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم سے سنی ہو تو انہوں نے جواب میں یہ لکھا کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تین چیزیں ناپسند کرتا ہےایک یہ کہ فضول قسم کی باتیں کرنا دوسرا یہ کہ مال کو ضائع کرنا یعنی فضول خرچی کرنا اور تیسرا یہ کہ بکثرت سوال کرتے رہنا۔"
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے کے لئے تین چیزوں کی ناپسندیدگی کا اشارہ کیا گیا ہے ہم ان تین چیزوں کی باری باری تفسیر پڑھیں گے اس حدیث میں پہلی چیز جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہے

1 : فضول گوئی یعنی بلا وجہ کی گپ شپ::
یعنی فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنا اگر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں یہ ایک بیماری کی طرح پھیلنے والی چیز ہے ہم اکثر وبیشتر یہ دیکھتے ہیں کہ شام ہوتے ہی جب چائے کی ہوٹلیں کھلنا شروع ہوتی ہیں تو کرسیوں اور ٹیبلوں پر لوگوں کی قطار لگنا شروع ہوجاتی ہے ساری کی ساری کرسیاں لوگوں سے بھر جاتی ہیں وہاں ہر موجود لوگوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہی ہوتی ہے جو اپنا وقت پاس کرنے کے لئے وہاں کم و بیش روزانہ جمع ہوتے ہیں اور پھر گھنٹوں بیٹھے آپس میں گپ شپ چلتی رہتی ہے جس میں کسی کا ذکر کرکے اس کا مذاق اڑانا کسی کی غیبت کرکے ایک دوسرے کو خوش کرنا اور یہ وہی گپ شپ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے اور جس کا اشارہ اس مذکورہ حدیث میں کیا گیا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دیکھنا یہ ہوگا کہ انسان کی وہ کونسی قسم ہے جو اس بلا وجہ کی گپ شپ میں اپنے آپ کو مصروف کئے رکھتی ہے تحقیق کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک تو وہ لوگ جو اپنے ارد گرد کے لوگ یعنی گھر کے افراد سے زیادہ گھل مل کر رہنا پسند نہیں کرتے تو وہ دوستوں کے ساتھ رہنا وقت گزارنا اور گپ شپ کرنا پسند کرتے ہیں اور وہ اس طرح کے ماحول میں اپنی ایک نئی اور انوکھی دنیا بنالیتے ہیں مطلب یہ کہ ایسے لوگ اپنے گھر میں انتہائی سنجیدہ اور زیادہ کسی کے ساتھ بات چیت نہ کرنا پسند کرتے ہیں جبکہ باہر کی دنیا ان کے لئے ایک انوکھی دنیا ہوتی ہے اب یہ سارا معاملہ دنیاوی اعتبار سے صحیح ہوسکتا ہے لیکن وقت کی بربادی ، اور فضول گوئی جیسے اعمال جو اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ عمل ہیں ان میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا کیا صحیح ہے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آپ کو معلوم ہے کہ اجکل سوشل میڈیا کا دور ہے اور اس دور میں لوگوں کا سب سے زیادہ اور گہرا رشتہ موبائل سے ہوتا ہے اب وہ چاہے کوئی جاب کرنے والی لڑکی ہو یا گھریلو عورت کوئی نوجوان ہو یا چھوٹا بچہ موبائل سب کی کمزوری اور ہر کسی کی ضرورت بن گیا ہے بلکہ کبھی کبھار تو بعض لوگوں کو ایسا لگتا ہے جیسے موبائل کے بغیر کچھ بھی نہیں لہذہ بلاوجہ کی گپ شپ کا اس موبائل سے بھی بڑا گہرا کنیکشن ہے کیونکہ آج کل موبائل پر آپس میں گھنٹوں گھنٹوں what's up پر chatting کا سلسلہ چلتا رہتا ہے جس میں کام کی باتیں کم اور بلاوجہ کی گپ شپ زیادہ ہوتی ہے لہذہ ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ کے اس ناپسندیدہ کام کو کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں جو اس دنیاوی عارضی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لئے بھی لمحئہ فکریہ ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم انبیاء کرام علیہم السلام کی بات کریں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے قریبی دوست اور رفیق سفر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اپنے منہ پر ایک پتھر باندھ کر رکھا کرتے تھے تاکہ اس کے ذریعے اپنے آپ کو فضول باتیں کرنے سے روک سکیں
( احیاءالعلوم جلد 3 ص 137)
اللہ تعالی نے قران مجید فرقان حمید کی سورہ المؤمنون کی آیت 3 میں ارشاد فرمایا کہ
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(3)
ترجمعہ کنزالعرفان::
اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اللَّغْوِ کا استعمال ہوا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ وہ کام ، فعل یا وہ ناپسندیدہ یا مباح کام جس کا دنیاوی یا دینی دونوں طرح سے کسی مسلمان کو کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق کرنا ،فضول گوئی میں اپنا وقت برباد کرنا ،بیہودہ گفتگو کرنا ، کھیل کود میں وقت کا ضائع کرنا یعنی ہر وہ کام کرنا جو رب العزت کے ناپسندیدہ کاموں میں سے ہیں تو پھر اس کی یہ دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہو جائے گی خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ہمیں دنیا اور آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال میں مصروف رہنا چاہئیے اور زندگی گزارنے کے لئے ضرورت کے تحت حلال رزق کی کوشش میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا چاہئے کیونکہ فضول کلامی بھی ایسی بیماری ہے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا ہےاس لیے کم بولنا اور سوچ سمجھ کر بولنا عقل مندوں کی علامت ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے رب العزت کی ناپسندیدہ چیزوں میں جس دوسری چیز کا ذکر کیا ہے وہ ہے " مال کو ضائع کرنا " یعنی فضول خرچی ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا تو آئیے اب اس پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں

2:: مال کو ضائع کرنا یا فضول خرچی کرنا
یعنی غیر شرعی وجوہ میں مال صرف کرنا اور ناحق فضول خرچی کرنا یا عمدہ و لذیذ کھانے و مشروبات اور نفیس کپڑوں اور سواریوں اور زیب و زینت اور بنگلوں میں آرائش کرنے میں اسراف کرنا اور اس کے علاوہ ان کاموں میں مال خرچ کرنا جن کے ذریعہ رب تعالیٰ سے ہٹنے کے علاوہ طبیعت اور دل میں سختی پیدا ہوتی ہے۔ مال کو تلف کرنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ یہ فساد ڈالتا ہے اور رب تعالیٰ فسادیوں کو پسند نہیں کرتا، کیونکہ جب کوئی اپنا مال ضائع کرے گا تو پھر وہ لوگوں کے مال کے درپے ہوگا اور چھیننے کی کوشش کرے گا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں مال ضائع کرنے کی بے شمار صورتیں ہیں یعنی مال كی حفاظت نہ کرنا ، مال بڑھانے کی کوشش نہ کرنا ، جو موجود ہے اسی کو بیٹھے بیٹھے کھانا ، فضول خرچی کرنا ، گناہوں میں خرچ کرنا ، اپنی حیثیت سے زیادہ انعام و اکرام پیش کرنا ، جن چیزوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے انہیں پھینک دینا وغیرہ وغیرہ اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک وہ مال جو اپنے اہل وعیال پر خرچ کیا جائے وہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور وہ مال جو گھر والوں کی بجائے باہر خرچ کیا جائے وہ اسراف میں آجاتا ہے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر اتنا خاص فضل و کرم ہے کہ وہ ان پر اپنی نعمتوں کی بارش ہر وقت چھما چھم برساتا رہتا ہے اب چاہے وہ اس کے ماننے والا ہو یا نہ ماننے والا لیکن آج کے معاشرے میں اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں سب سے زیادہ ضیاع اگر دیکھا گیا ہے وہ ہے دولت اور رزق ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو دولت جیسی نعمت سے مالامال کیا ہے تو اس انسان کو اس دولت کو صحیح جگہ خرچ کرنا چاہئے نہ کہ اسے فضول کاموں میں اور فضول جگہ پر خرچ کرکے اڑانا شروع کردے جو کہ اللہ تعالیٰ کی نا شکری کے زمرے میں اجاتا ہے اور اسے مال کا ضائع کرنا بھی کہا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ناپسندیدہ عمل ہے جبکہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت میں بخل کرے تو اس کے لئے بھی بڑی سخت وعید ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحیح البخاری کی 3118حدیث کے مطابق حضرت خولہ انصاریہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جو لوگ اللہ کے مال میں بے جا تصرف کرتے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن آگ ہوگی۔ (وہ قیامت کے دن دوزخ میں جائیں گے)۔اللہ تعالی نے قران مجید کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر 180 میں فرماتا ہے کہ
وَ لَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ہُوَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ بَلۡ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمۡ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِہٖ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۱۸۰﴾٪
ترجمعہ کنزالایمان::
اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے ، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے ،
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں لہذہ خلاصہ کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مال کی صورت میں جو نعمت عطا کی ہے اس کا استعمال اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بنیاد پر خرچ کریں تاکہ دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں فائدہ ہو اور نقصان سے بچ جائیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ۔آج کی مذکورہ حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے تیسری جس کو اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ چیز قرار دی ہے وہ ہے " 3 : بکثرت سوال کرنا "
بکثرت سوال کرنے کی ممانعت میں شرعی اجازت کے بغیر دوسروں سے مال وغیرہ مانگنا اور علمائے کرام سے غیر ضروری و فضول سوالات کرنا دونوں شامل ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ المائدہ کی آیت 101 اور 102 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْــٴَـلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْۚ-وَ اِنْ تَسْــٴَـلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْؕ-عَفَا اللّٰهُ عَنْهَاؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ(101)
قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ(102)
ترجمعہ کنزالایمان::
اے ایمان والو ایسی باتیں نہ پوچھو جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بُری لگیں اور اگر انہیں اس وقت پوچھو گے کہ قرآن اتررہا ہے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی اللہ انہیں معاف فرماچکا ہے اور اللہ بخشنے والا حِلم والا ہے۔
تم سے اگلی ایک قوم نے انہیں پوچھا پھر ان سے منکر ہو بیٹھے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اصل میں
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ’’لوگ بطریقِ اِستہزاء اس قسم کے سوا ل کیا کرتے تھے، کوئی کہتا میرا باپ کون ہے ؟کوئی پوچھتا کہ میری اونٹنی گم ہوگئی ہے، وہ کہاں ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب لا تسألوا عن اشیاء ان تبد لکم تسؤکم، ۳ / ۲۱۸، الحدیث: 4622)
جبکہ دوسری آیت پر فقہاء فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو ایک حکم دینے کے بعد سابقہ امتوں کے واقعات سے سمجھایا کہ تم سے پہلی قوموں نے بھی اپنے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے بے ضرورت سوالات کئے اور جب حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے احکام بیان فرما دیئے تو وہ ان احکام کو بجانہ لاسکے۔تو تم سوالات کرنے ہی سے بچو کیونکہ اگر تمہیں تمہارے ہر سوال کا جواب دے دیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ کسی سوال کا جواب تمہیں برا لگے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کے معاشرے میں بھی دین سے کے سبب ہمارے علماء کرام کو ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اب اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائے کہ ہر سال رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو سوشل میڈیا پر یا ٹی وی کے مختلف چینلز پر یہ سوالات دہرائے جاتے ہیں کہ فلاں چیز سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں یعنی وہ سوالات جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں وہ اب بھی لوگ پوچھتے ہوئے نظر آتے ہیں یہ سوالات دین سے دوری کا نتیجہ ہیں یا نہیں ؟ لہذہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ بڑے عجیب و غریب سوالات ہمارے علماء کرام سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن جب جواب مل جاتا ہے تو اس پر عمل نظر نہیں آتا بس یہ ہی وہ سوالات ہیں جن کا ذکر اس مذکورہ حدیث مبارکہ میں کیا گیا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بکثرت سوال کرنے پر ایک چیز یہ بھی ہے کہ لوگوں سے اپنی ذات کے لئے مانگنا اور اس کی بھی ممانعت کی گئی ہے کہ کسی کے سامنے دست دراز نہیں کرنا چاہئے اپنی ذات کے لئے مانگنے کی بڑی سختی کے ساتھ وعید آئی ہے جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے،اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، عام ضرورت کے مواقع پر قرض لینے کی اجازت ہے، اور قرض لیتے وقت واپسی کا پختہ ارادہ ہوناچاہیے، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، اس صورت میں بھی حدیث شریف کے مطابق صلحاء (نیک لوگوں) سے سوال کرناچاہیے۔ لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلا ضرورت مانگتا ہے تو قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کی حدیث میں موجود ایسی تین چیزوں پر ہم نے مختصر روشنی ڈالی کہ جو حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہیں لہذہ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ احادیث پڑھ کر یا سن کر اس کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس پر من و عن عمل کرنے کی کوشش کریں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید کی آیتوں کو اور اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو پڑھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 170 Articles with 137758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.