ایک مشکوک کھیل: خیبر پختونخوا حکومت کی انشورنس اسکیم
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخوا حکومت نے گزشتہ روز زندگی بیمہ اسکیم کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 50 سال سے زائد عمر کے افراد کی وفات پر ان کے خاندانوں کو دس لاکھ روپے کی مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ جبکہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے موت پر پانچ لاکھ روپے دئیے جائیں گے ۔ یہ اعلان مشیر خیبرپختونخوا کی جانب سے کیا گیا اس اعلان کے بعد سے اس اسکیم کی عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت اور ممکنہ نقصانات پر شدید تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔ کیونکہ موجودہ صوبائی حکومت کی سابقہ ٹریک پالیسی اس حوالے سے کلئیر نہیں ۔
اس اسکیم کا سب سے بڑا مسئلہ صوبے کی پہلے سے ہی کمزور مالی حالت ہے۔ صوبے کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور تعلیمی نظام بھی بگڑتا جا رہا ہے۔ ایک طرف امن وامان کی ابتر صورتحال دوسری طرف یونیورسٹیوں کی زمینوں کے فروخت کا اعلان پرائمری سکولوں کو پرائیویٹ کرنے کے اعلانات کئے جارہے ہیں ۔ فنڈز کی کمی کا رونا رویا جارہا ہے ایسے میں صوبائی حکومت کی اس بڑے پیمانے پر چلنے والی انشورنس اسکیم کو برقرار رکھنے کی صلاحیت مشکوک ہے۔ خاص طور پر موجودہ حکومت کی محدود مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے فنڈنگ کے ذرائع کا سوال ابھی تک غیر واضح ہے۔ کیا انکے پاس اس سکیم کو جاری رکھنے کیلئے فنڈز دستیاب بھی ہے یا وفاق سے پیسے ملیں گے تو ہم ادا کرینگے والی پالیسی پر انکی سوچ ختم ہو رہی ہے ۔
مزید برآں، صحت کارڈ پروگرام جیسی اسی طرح کی فلاحی اسکیموں کو نافذ کرنے میں حکومت کا ٹریک ریکارڈ کرپشن اور غلط انتظام کے الزامات سے داغدار ہے۔ کیونکہ ناز سینما کے باربر اور ایک سیاسی شخصیت کے آپسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بننے والی میڈیسن سسٹم نے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کئے ہیں ۔ بھلے سے کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے اس سے خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ انشورنس اسکیم کا فائدہ کرپٹ حکام اٹھا سکتے ہیں جس سے جعلی دعوے اور فنڈز کی بدعنوانی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ صحت کارڈ سکیم میں بعض اضلاع میں جعلی سرجریوں کی شکایات آئی ۔ بعض اعلی معیار کے میڈیسن استمعال کرنا ظاہر کیا گیا لیکن حقیقت میں اس سے کم درجے کی ادویات استعمال ہوئی لیکن ادائیگی اعلی معیار کی ہوئی ۔ جبکہ ایسی سرجریوں بھی ہوئی جنکی ضرورت نہیں تھی صحت کارڈ منصوبے میں بہت سارے ہسپتال راتوں رات بن گئے ۔ اور گھر کی کرایہ کیلئے رونے والے افراد آج بنگلوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں ۔ جس کی نشاندہی کچھ عرصہ قبل ہونے والے آڈٹ رپورٹ میں بھی کی گئی ۔ حالانکہ یہی آپریشن پہلے بھی ہسپتال میں ہوتے تھے ۔سامان بھی کسی حد تک ملتا تھا اور مالی فنڈز ملنے کے باعث سرکاری ہسپتال مالی طور پر بھی مضبوط ہوا کرتے تھے ۔ لیکن امریکی سسٹم شروع کرنے کے بعد ایل آر ایچ سمیت حیات شیرپاؤ ہسپتال میں مریضوں کو کئی ماہ بعد آپریشن کیلئے وقت ملنے لگا۔ حالانکہ اس میں وہی اہلکار موجود تھے جو پہلے سے کام کرتے تھے لیکن اب انہیں پیسوں کا مزہ لگ گیا ۔ قبل ازیں پرچی بھی دس روپے کی ملتی ہے آج پچاس کا ٹوکن ملتا ہے اور ہسپتال کے گیٹ پر بیٹھا میٹرک پاس یہ ڈیسائیڈ کرتا ہے کہ آپ کو پرچی ملنی چاہئے یا نہیں ۔ یہ الگ بات کہ مریض مر رہا ہوں لیکن اگر اس کے نظر میں مریض کی حالت ٹھیک ہے تو اسے پرچی والا ٹوکن نہیں ملے گا۔
معذرت کیساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کچھ عرصہ قبل ایک مریض کے زکواہ فارم پر میڈیسن نہ ملنے کی رپورٹ سے متعلق ایک سرکاری ہسپتال میں جانے کا موقع ملا ۔ تو ہسپتال کے پی آر او سے رابط کیا تو اس وقت پی آر او نے ایک نجی ٹی وی چینل کی خاتون صحافی کو بلایا جس نے پی آر او کی پی آر شب خود سنبھال لی اور راقم کیساتھ انے والے متعلقہ شخص کو غلط قرار دیا بعد میں پتہ چلا متعلقہ صحافی کے والد خود زکواہ کے فارم جمع کرواتے ہیں اور لوگوں سے پیسے لیتے ہیں ۔ تبھی انکا کام ہوتا ہے ورنہ اس طرح اپروچ کرنے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ۔ اس طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہے لیکن خیر اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہی۔ ۔
انشورنس کی اس اسکیم کی تشکیل اور نفاذ کے حوالے سے شفافیت اور عوامی مشاورت کی کمی اس کی صداقت کو مزید کمزور کرتی ہے۔ کیا صوبائی حکومت نے اس حوالے سے کوئی سروے کیا ہے نہیں اور انکے پاس کونسے فگرز ہیں جسکے بنیاد پر یہ اس طرح کا منصوبہ لارہے ہیں ۔ یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت فوائد کے موثر اور منصفانہ تقسیم کو کیسے یقینی بنائے گی، خاص طور پر ایک ایسے صوبے میں جہاں بیوروکریٹک رکاوٹوں اور انتظامی ناکامیوں کا طوفان ہے۔ کیا یہ صحت کارڈ منصوبے کی طرح جعلی اموات کا سبب نہیں بنے گا اور کیا نرسری کی طرح بننے والی انشورنس کمپنیوں کا جال نہیں بچھے گا جنکا کوئی پرانا ریکارڈ بھی نہیں ہوگا اور ان سے کوئی ریکوری کا بھی امکان نہیں ہوگا
مزید برآں، اسکیم کا نجی انشورنس انڈسٹری پر ممکنہ اثر بھی ایک تشویش کا باعث ہے۔ حکومت کی جانب سے سرکاری حمایت یافتہ انشورنس پروڈکٹ پیش کر کے، حکومت غیر ارادی طور پر نجی شعبے میں مقابلے اور جدت کو سست کر سکتی ہے۔
آخر میں، خیبر پختونخوا حکومت کا اپنے شہریوں کو مالی تحفظ فراہم کرنے کا ارادہ قابل تعریف ہے، لیکن تجویز کردہ انشورنس اسکیم جلدی اور غلط سوچے ہوئے فیصلے کی طرح لگتی ہے۔ حکومت کو ان بڑے پروجیکٹس پر عمل کرنے سے پہلے غربت، کرپشن اور انتظامی ناکامی کے بنیادی مسائل سے نمٹنا چاہیے۔ زیادہ محتاط نقطہ نظر موجودہ سماجی تحفظ نیٹ ورکس کو مضبوط بنانے اور عوامی خدمت کی فراہمی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت صوبے کے پچاس فیصد سے زائد نوجوان طبقے کو روزگار کی ضرورت ہے انہیں جلسوں توڑ پھوڑ اور مرنے پر پیسے ملنے کے چکر سے نکالنے کی ضرورت ہے ۔۔۔ |