اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ خیبرپختونخوا: "تین سالہ دوڑ" میں دس سے سولہ تک جادوئی ترقی!
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبرپختونخوا کا اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ وہ طلسماتی دفتر ہے جہاں صرف کھلاڑی ہی نہیں، بلکہ فائلیں بھی 100 میٹر ریس جیت جاتی ہیں۔ یہاں ترقی کے اصول ایسے ہیں جیسے ٹی ٹوئنٹی میں پاور پلے—سب کچھ تیزی سے، اور رن ریٹ اتنا اونچا کہ پبلک سروس کمیشن بھی حیران رہ جائے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ کچھ ملازمین نے 2017 میں نوکری جوائن کی، اور صرف تین سال بعد ہی 2020 میں گریڈ 16 پر پہنچ گئے۔ یعنی جو بندہ کل تک "چھوٹا کوچ" تھا، اگلے دن ہی "بڑا باس" بن بیٹھا۔ عوام پوچھنے لگے کہ یہ بھاگنے والے کھلاڑی ہیں یا اڑنے والے جِن؟
حکومتی رولز کے مطابق کسی بھی سرکاری ملازم کو پروموشن کے لیے کم از کم تین سال سروس، خالی سیٹ اور میرٹ لسٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر امتحان یا ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی کی منظوری بھی لازمی ہے۔ لیکن یہاں تو کہانی الٹی ہے۔ ایک طرف تو فائل پر لکھا ہے "By Promotion"، دوسری طرف تاریخیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ ابھی جوتے کے تسمے بھی کھلنے نہیں دیے تھے کہ اگلی ریس جیت لی گئی۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو لوگ ماسٹر ڈگری کے ساتھ لائن میں کھڑے رہے، وہ اب بھی "ویٹنگ لسٹ" میں ہیں، جبکہ کچھ خوش نصیب صرف ایف اے یا میٹرک کے ساتھ شارٹ کٹ پکڑ کر منزل پر پہنچ گئے۔ یہ شارٹ کٹ شاید جی ٹی روڈ نہیں، بلکہ کسی خاص "VIP فائل روٹ" سے ہو کر گزرتا ہے۔ اب ذرا اس بات پر غور کریں کہ پروموشن کمیٹی کے اجلاس میں کیا ہوا ہوگا۔ شاید چیئرمین نے کہا ہو: "بھائیو، یہ فائل آج نہیں کل لانی تھی۔" سیکریٹری نے جواب دیا: "سر، کل لاتے تو بچہ گریڈ 16 کے بجائے گریڈ 19 میں چلا جاتا۔ اس لیے آج ہی دستخط کر دیں!" ایسا لگتا ہے جیسے اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں پروموشن کی دوڑ اولمپکس کی میراتھون نہیں، بلکہ "چھوٹا سا تڑکا" ہے۔ یعنی جو سب سے پہلے فائل پکڑ کر آفس میں گھس جائے، وہی کامیاب ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ حکومت کے رولز کہاں گئے؟ رولز کہتے ہیں کہ پروموشن میں سینیارٹی، قابلیت اور سروس کا ریکارڈ دیکھا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو شاید ایک نیا رول ایجاد کیا گیا ہے: "جس کی فائل پہلے چائے والے کے پاس پہنچے، وہی ترقی پائے گا!"کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ سب "میرٹ" پر ہوا ہے۔ لیکن عوام ہنس کر جواب دیتی ہے: "جی ہاں، یہ وہی میرٹ ہے جو صرف ڈائریکٹوریٹ کے کمرے نمبر 4 میں ملتا ہے، باہر جانے پر غائب ہو جاتا ہے۔"
اس کہانی کا سب سے مزاحیہ حصہ یہ ہے کہ ایک ملازم 2017 میں بھرتی ہوا اور صرف تین سال بعد گریڈ 16 پر پہنچ گیا۔ اب اگر یہی رفتار برقرار رہی تو 2030 تک وہ سیکرٹری اسپورٹس بھی بن سکتا ہے، اور 2040 تک شاید وزیر کھیل۔ دوسری طرف نوجوان کھلاڑی، جو اصل میدان میں پسینہ بہا رہے ہیں، وہ سوچ رہے ہیں کہ "ہم بھی کاش نوکری لے کر دفتری میز کے گرد دوڑ لگاتے۔ میدان میں کھیلنے سے بہتر تھا فائلوں میں باونسر مارنا!"
یہ کہانی صرف ایک پروموشن کی نہیں بلکہ پورے نظام کی ہے۔ جہاں کھلاڑیوں کی طرح افسر بھی شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں، اور قوانین صرف کتابوں میں پڑے رہ جاتے ہیں۔ عوام کا سوال وہی ہے: "تین سال میں گریڈ سولہ؟ یہ کھیل ہے یا جادو؟"
#SportsDirectorateKP #PromotionKiRace #FileOlympics #MeritYaShortcut #ComedyOfPromotion
|