میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں کو میرا آداب ہمارے کئی
اکابرین ،محدثین ، بزرگان دین اور علماء کرام نے احادیث اور قران کی تعلیم
سے منور ہوکر صحابہ کرام اور بزرگان دین کے بارے میں اپنی شہراء آفاق
تحریریں کتابوں کی شکل میں ہمارے اور ہماری نسل کے لئیے تحفہ کی شکل میں
چھوڑی ہیں جس میں ان کے متعلق کئی ایسی باتیں اور واقعات موجود ہیں جو ہمیں
دین اور دنیا دونوں کی تعلیم سے بھی آگاہی فراہم کرتے ہیں اور ہمیں دین کی
صحیح پہچان بھی دیتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آجکل کتابوں سے تعلق
اور کتابوں سے دوستی کا رجحان تو جیسے ختم ہی ہوگیا ہے اور ہماری نئی نسل
صرف اور صرف Internet سے اپنے آپ کو مستفید کرتے ہوئے نظر آتی ہے میں آج کے
دور کے حساب سے انٹرنیٹ کو برا نہیں سمجھتا بلکہ اس کے اگر ہم مثبت پہلو کی
طرف دیکھیں تو اس میں ایک بھرپور علم کا خزانہ چھپا ہوا ہے صرف اس کو
ڈھونڈنے والا جوہری ہونا چاہئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں میں خود اپنی تحریریں نیٹ پر مجود کتابوں
کی مدد سے اورمختلف علماء کرام کے بیانات سے لے کر اپنے الفاظ میں ڈھال کر
آپ تک پہنچاتا ہوں کیوں کہ جو کتابیں ہم بازار سے خریدتے ہیں وہ ہمیں نیٹ
پر مل جاتی ہیں لیکن پھر بھی کئی مواد ایسے ہوتے ہیں جس کے لئیے ہمیں
کتابوں کی بحر حال صرورت پڑتی ہے اس لیئے کتاب کی اہمیت کم ضرور ہوگئی مگر
ختم نہیں ہوئی ایسی ہی ایک کتاب شیخ الحدیث علامہ عبدآلمصطفی آعظمی رحمتہ
اللہ علیہ کی لکھی ہوئی *روحانی حکایات* کے عنوان سے بہت مشہور ہے اس کتاب
سے ایک حکایات تحریر کررہا ہوں جسے پڑھکر معلوم ہوگا کہ اللہ تبارک وتعالی
جب ہمیں اولاد جیسی نعمت سے نوازتا ہے تو ان کےمستقبل کے لئیے ہماری صحیح
Investment کہاں اور کس طرح ہونی چاہئیے ۔
میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں یہ واقعہ حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ
اور حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے استاد *ربیعہ الرائے* کے بارے
میں ہے آپ جب اپنی والدہ کی شکم میں ہی تھے تو آپ کے والد گرامی عبدالرحمان
فروخ کو جہاد پر جانے کا حکم ہوا آپ کی رہائش مدینہ منورہ میں تھی آپ نے
اپنی زوجہ کو تیس ہزار اشرفیاں دے کر کہا کہ یہ میری امانت ہے اگر واپس آیا
تو مجھے دےدینا ورنہ اسے استعمال کرلینا اور اپنا اور اپنے آنے والے مہمان
کا خیال رکھنا یہ کہکر وہ جہاد کے لئیے خراسان چلے گئے عبدالرحمان فروغ کو
ستائیس سال لگ گئیے اور جب وہ ستائیس سال بعد مدینہ منورہ اپنے گھر پہنچے
اور صحن میں گھوڑا باندھنے لگے تو ایک نوجوان نے آپ کو دیکھا اور عرض کیا
کہ آپ کون ہیں اور میرے صحن میں اپنا گھوڑا کیوں باندھ رہے ہیں تو فرمایا
یہ سوال تو میں تم سے کررہا ہوں کہ تم میرے گھر میں کیا کررہے ہو یہ میرا
گھر ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ شور شرابہ سن کر محلے کے لوگ اکھٹے
ہوگئیے حضرت خواجہ حسن بصری بھی استاد کا معاملہ سمجھکر پہنچ گئے اور
عبدالرحمان فروخ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر آپ کو رکنا مقصود ہے تو کسی
دوسری جگہ بندوبست ہوجائے گا تو فرمایا کہ میرا نام عبدالرحمان فروخ ہے اور
یہ میرا گھر ہے یہ آواز سن کر نوجوان کی والدہ نے پردے میں دیکھا اور چونک
گئی اورکہا کہ اے ربیعہ الرائے یہی تمہارے والد ہیں اور یہ آج ستائیس سال
بعد جہاد سے لوٹے ہیں پھر دونوں باپ بیٹے گلے مل کر خوب روئے اور یوں اذان
کی آواز آگئی مسجد نبوی سے جب اذان کی اواز آئی تو ربیعہ الرائے مسجد کی
جانب چلے گئے اور عبدالرحمان فروخ اپنی زوجہ سے باتیں کرنے لگے اور اپنے
بچے اور تیس ہزار اشرفیوں کا معلوم کیا تو کہنے لگی کہ آپ نماز پڑھ کر
آجائیں پھر میں آپ کو بتاتی ہوں اور یوں وہ مسجد نبوی کی طرف چلے گئے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب نماز سے فارغ ہوئے تو عبدالرحمان فروخ
نے دیکھا کہ ایک نوجوان نے ایک حلقہ بنا رکھا ہے اور لوگوں نے اپنے شیخ کو
گھیر رکھا ہے اس حلقے میں حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ اور خواجہ حسن
بصری رحمتہ اللہ علیہ جیسے لوگ بھی موجود تھے آپ نے یہ منظر دیکھا تو بہت
خوش ہوئے ربیعہ الرائے نے ٹوپی اس طرح پہنے ہوئی تھی کہ چہرہ دکھائی نہیں
دے رہا تھا تو آپ نے پوچھا کہ یہ شیخ کون ہیں تو بتایا کہ یہ ربیعہ الرائے
ہیں عبدالرحمان فروخ کے صاحبزادے اور بڑے بڑے جید علماء سے دنیا گھوم کر
قران اور احادیث کا علم حاصل کر کے لوٹے ہیں یہ سن کر آپ خوش ہوگئے اور
اللہ تبارک وتعالی کا شکر ادا کیا اور کہا بیشک اللہ تبارک وتعالی نے میرے
بچے کو ممتاز مقام عطا کیا ہے اور خوشی خوشی گھر گئے اور اپنی زوجہ سے بات
کی اور مسجد نبوی میں ہوئے سارے ماجرے کو بیان کیا تو آپ کی زوجہ نے کہا کہ
میں نے آپ کی تیس ہزار اشرفیوں کو ربیعہ کی پڑھائی میں خرچ کردئیے اب بتائو
آپ کو کیا پسند ہے اپنے بیٹے کی یہ شان یا اشرفیاں تو آپ نے فرمایا کہ خدا
کی قسم تم نے میری امانت میں بلکل خیانت نہیں کی اور میرا مال صحیح جگہ خرچ
کیا۔
میرے معزز اور محترم پڑھنے والوں یہ ہے اصل علم اور صحیح Investment جو
پہلے جیسی عورتیں اپنے شوہر کی موجودگی ہو یا غیر موجودگی اپنے بچوں پر
کرتی تھیں لیکن بدقسمتی سے آج ہم اپنے بچوں کی خواہش پوری کرنے کے لیئے
انہیں اچھے سے اچھے تعلیمی ادارے سے پڑھاکر سمجھتے ہیں کہ ہماری انویسٹمینٹ
صحیح جگہ ہوگئی اچھے ڈریس اور شادی بیاہ میں بے تحاشہ خرچ کرکے سمجھتے ہیں
کہ ہم نے صحیح خرچ کیا ہے ہمارا بچہ پڑھ لکھکر اگر کوئی مقام حاصل کرلیتا
ہے تو ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم نے اسے دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئیے اچھے مقام
پر کھڑا کردیا ہے لیکن یہ مقام اور اس سے حاصل ہونے والی دولت صرف دنیا تک
محدود ہے اور یہ اس زندگی میں ہی فائدے مند ہے اصل زندگی جو موت کے بعد
ملنے والی ہے اس کے لئیے ہم نے کیا تیاری کروائی انگریزی تعلیم تو دلوادی
لیکن دینی تعلیم نہ دلواسکے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمارے پہلے کے بزرگان دین اور اکابرین پہلے
اپنے بچوں کی توجہ دینی تعلیم پر مرکوز کروایا کرتے تھے کیوں کہ انہیں اپنی
اور آخرت کی فکر ہوتی تھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم کے
ناراض ہوجانے کا خوف تھا لیکن بدقسمتی سے ہمیں صرف دنیا کمانے کا شوق ہے
سلام ہے اس دور کی ربیعہ الرائے کی والدہ جیسی عورتوں کو جنہوں نے اپنے
شوہر کی غیر موجودگی میں بھی اپنے بچوں کو وہ مقام دلایا جس سے اللہ اور اس
کے رسول صلی اللہ علیہ والیہ وسلم خوش ہیں اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ
اللہ تبارک و تعالی ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں کو کسی مستند مدرسے
سے قران و حدیث کی تعلیم دلواکر انہیں وہ مقام دلوایئں جس سے دنیا بھی سنور
جائے اور آخرت بھی کسی نے کیا خوب کہا کہ
یہ وہ مائیں تھیں کہ جن کی گود میں
اسلام پلتا تھا
اسی غیرت سے انسان نور کے سانچے
میں ڈھلتا تھا
|