قراردادکی مخالفت کرنے والی خاتون کہتی ہیں کہ ہم
اپنے بچوں کی شادیوں پر پنجاب کی ثقافت کے مطابق خوشیاں منانے پر پابندی
لگانے کے خلاف ہیں۔ محترمہ یہ پنجاب کی ثقافت نہیں ہے۔ پنجاب کی ثقافتتہذیب
وتمدن ہے۔ ادب واحترام ہے۔ مہمان نوازی ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک
ہوناہے۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی کاکہنا ہے کہ اگر ڈی پی او مہک ملک کو بلائے
تو آرٹ اور کلچر اور غریب آدمی بلا لے تو فحاشی کہا جاتا ہے۔بالکل اسی طرح
میری پارٹی کومخالف پارٹی کے ممبرووٹ دیں تویہ ضمیرکی آوازہوتی ہے اورجب
میری پارٹی کے ممبرمخالف پارٹی کوووٹ دیں تووہ لوٹے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے
میں اس طرح کے تضادات کوختم ہوناچاہیے۔ غلط کام عام آدمی کرے یاخاص شخصیت
کرے وہ غلط ہی ہوتا ہے۔ اس بارے مزیدبات اس تحریرمیں آگے چل کرتے ہیں۔سمیع
اﷲ خان درست کہتے ہیں کہ سماجی برائیوں کو سماج روکتا ہے ۔ سماج کوراہ راست
پرلانااوراس کی راہنمائی کرنا علمائے کرام اورحکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی
ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی سماجی پریشر گروپ نہیں ہے ۔پاکستان میں
سماجی پریشر گروپ ہونہ ہو تاہم اصلاحی تنظیمیں ضرورکام کررہی ہیں۔تنظیم
العارفین اوردعوت اسلامی اس کی واضح مثالیں ہیں ، اس قرارداد کو سماجی
ثقافتی روایات کے مطابق ری ڈرافٹ کریں۔
حکومتی رکن حمیدہ میاں کی پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا تھا کہ کسی
معاشرے میں اس کے تہوار اور خاندانی تقریبات جیسا کہ شادی بیاہ وغیرہ اس کی
معاشرتی و ثقافتی روایات اور مذہبی تعلیمات کی آئینہ دار ہوتی
ہیں۔قراردادمیں یہ درست ہی کہا گیا ہے ۔ہماری تقریبات شادی بیاہ وغیرہ
ہماری حقیقی معاشرتی ثقافتی روایات اوراسلامی تعلیمات کی آئینہ دارکم
اوراغیار کے کلچرکی زیادہ آئینہ دارہوتی ہیں۔قراردادمیں کہاگیا ہے کہ
صوبائی اسمبلی کا یہ ایوان وفاقی و صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے شادی
بیاہ کی تقریبات کے موقع پر ایسی فحش محفلوں کے انعقاد پر فی الفور سخت
پابندی عائد کرے، ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے باقاعدہ قانون سازی عمل
میں لائی جائے۔ فحش محفلوں کے انعقادپرپابندی صرف شادی بیاہ کی تقریبات میں
ہی پابندی نہیں لگائی جانی چاہیے بلکہ یہ پابندی پنجاب میں ہونے والی تمام
تقریبات میں لگائی جائے۔ رقص ، ڈانس صرف شادیوں میں ہی نہیں عرس کی تقریبات
میں بھی ہوتا ہے۔راقم الحروف ایک عرس کااشتہارہے ۔اس اشتہارکاعنوان ہے عرس
مبارک ومیلہ اس کے ساتھ مزارکانام لکھا ہے۔اشتہارمیں عرس ومیلہ کی جو
تقریبات لکھی ہیں ان میں مرغوں کی لڑائی،گھوڑا ناچ،کتوں کی لڑائی،باٹابال
میچ شامل ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام پروگرام ایک مزارپرہورہے
ہیں۔ یہ مزارات ہی ہیں جہاں سے عین اسلامی تعلیمات کے مطابق عوام کی
راہنمائی کی جاتی ہے۔ یہ بات توسب جانتے ہیں کہ لاہورمیں حضرت علیہجویری
داتاگنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ کے عرس پرسرکس لگائی جاتی ہے۔ جب مزارات پراس طرح
کے پروگرام کرائے جائیں گے اس سے عام لوگوں کوکیاپیغام دیاجارہاہے۔ اس لیے
رقص وسرود ،ڈانس کی محفلوں پرپابندی شادی بیاہ کی تقریبات کے ساتھ ساتھ
تمام سیاسی سماجی اوردیگرتقریبات میں بھی لگائی جائے۔ اس کے لیے صرف
قراردادکاپاس ہوجاناہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے قانون سازی بھی ہونی چاہیے
۔جس کی بات اس قراردادمیں کی گئی ہے۔ قراردادکو ری ڈرافٹ کرنے کی بات کی
گئی ہے۔ اس کواس طرح ری ڈرافٹ نہ کیاجائے کہ قراردادکی روح ہی ختم ہوجائے۔
قراردادمیں شادی بیاہ اوردیگرتقریبات میں رقص وسرودکی محفلوں پرپابندی کی
بات ضرورہونی چاہیے۔جیسا کہاسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ اگر ڈی پی او مہک
ملک کو بلائے تو آرٹ اور کلچر اور غریب آدمی بلا لے تو فحاشی کہا جاتا
ہے۔قراردادمیں ترمیم کرتے وقت اورقانون سازی کرتے وقت رویوں کے اس
تضادکوبھی ختم کیاجاناچاہیے۔اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ صرف نام یاعنوان دیکھ
کرہی تقریبات کی اجازت یاپابندی کافیصلہ نہیں کرناچاہیے بلکہ اس کے اجزائے
ترکیبی کوبھی دیکھنا چاہیے ۔اس قرراداداورقانون سازی میں یہ بھی لکھ
دیاجائے کہ تقریبات شادی بیاہ کی ہوں یاکوئی اوران میں اس طرح کے معاملات
ہوں گے تویہ فحاشی ،غیراخلاقی اوراسلامی تہذیب کے خلاف تصورکیے جائیں گے ،پھر
چاہے اس طرح کی تقریبات کاعنوان آرٹ کلچرہی کیوں نہ ہو۔اس پرپابندی ہونی
چاہیے۔ پنجاب اسمبلی کی اس قراردادکوترمیم کرنے کے بعد تمام مکاتب فکرکے
مفتیان کرام اورفقہ میں عبوررکھنے والے علمائے کرام کوبھی فراہم کیاجائے
اوران سے ضرورراہنمائی لی جائے۔ مفتیان کرام کی رائے اورتجاویز کو شامل
کرکے اس قراردادمیں ایک بارپھرترمیم کی جائے ۔اس کے بعد اسے ایوان میں پیش
کیاجائے اوراسی کے مطابق ہی قانون سازی کی جائے۔اس طرح کی قراردادیں
اورقانون سازی وفاق اوردیگرصوبوں کوبھی منظورکرنی چاہیے۔شادی بیاہ
اوردیگرتقریبات میں رقص وسرود، ڈانس سمیت تمام غیراخلاقی اورغیرضروری
سرگرمیوں پربھی پابندی ہونی چاہیے۔شادی آسان کروتحریک کابھی یہی پیغام ہے
کہ شادی بیاہ میں رقص، ڈانس، مجرے ،محفل موسیقی کی بجائے قرآن خوانی
اورمحافل میلاد مصطفی منعقد کرائی جائیں۔پنجاب اسمبلی کی زیرغوریہ قرارداد
جومیڈیامیں رپورٹ ہوئی ہے شادی آسان کروتحریک کے مشن کے عین مطابق ہے۔اس
قرارداداورقانون سازی میں شادی بیاہ میں غیرملکی کرنسی اورموبائل لٹانے
پربھی پابندی کوشامل کیاجائے چونکہ ایسی ویڈیوزآچکی ہیں جن میں شادیوں
پرغیرملکی کرنسی اورموبائل لٹائے جارہے ہیں۔
|