قلم شگوفیاں ۔ اقبال ڈے اور ہم۔

رات سے طبیعت کے میں کچھ زیادہ ہی مدوجذر موجزن تھے ۔پچھلے بیس بائیس دن کی مصروفیت ، سفر اور بدلتے موسم کے اثرات سے بدن کے ریکٹر سکیل پر ایک اعشاریہ سات درجے کی شدت کا زلزلہ تھا جس کی غالب وجہ کل رات کی آوارگی تھی۔ ساتھ میں گلے اور چھاتی میں بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ ساتھ دماغ سے گلے میں باقاعدہ ٹپ ٹپ گرتے نزلے اور ناک سے ہونے والی بوندا باندی کی وجہ سےاس تنِ نازک میں حرارت کے اثار بھی نمایاں تھے۔

ایسے میں اللہ اور بیگم کے سہارے کے بعد ہماری دیرنہ دوست پیناڈول ایکسٹرا ہی ہماری مددگار ہوتی ہے۔ اس ساری صورتحال کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ روٹین سے زرا ہٹ کر چاۓ، کافی اور قہوہ پر نئی نئی ریسرچ کا بہترین موقع ملتا ہے۔ اور بیگم کی طرف سے کھانے میں باقاعدہ آفر اور آپشن بھی آتی ہیں جو عام دنوں میں تو مسلط کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے پاس پوچھنے کا فقط محدود اختیار ہوتا ہے کہ آج کھانے میں کیا بنا ہے یا اس سے اگلی جسارت کہ پکانے کو کیا لا کر دوں ۔پھر اگلا تو بس حکم ہی ہوتا ہے۔

خیر رات گئے قہوے اور میڈیسن کا دور چلا ۔ اور ایسے میں رضوی رضائی کی رفاقت سے اور کچھ انٹی الرجک ڈوز سے ایسی نیند آئی کہ 9 نومبر کی صبح 9 بجے جا کر گلی میں پتیسے والے کی آواز نے ہمیں "ثریا سے زمین پر دے مارا۔ کم بخت لوہے پلاسٹک کے کچرے سوکھی روٹی چھان بورا کے بعد جلے ہوۓ موبائیل ایل ای ڈی اور لیپ ٹاپ کے بدلے میں بھی پتیسہ آفر کر رہا تھا۔ یوں ہم خواب غفلت سے بیدار ہوۓ ۔ابھی باتھ روم کے درو دیوار کے آس پاس ہی تھا کہ فون کی بیل بج اٹھی۔ اور ذہن میں نئے وسوسے اور انجانے خطرات کی گھنٹیاں بج اٹھیں کہ پتہ نہیں کس کا فون ہو گا اور بیگم نے آگے سے کیا خواب دینا ہے اور پھر اپنی پیشگی پر الٹے سیدھے سوالات کے ممکنہ جوابات بھی سوچنے لگا۔ اور دوسرے لمحے ہی حالیہ دورہ ملتوی کرتے ہوۓ واپس پہنچا ہی تھا کہ فون بیگم کےہاتھ میں تھا اور کال بھائی کی تھی ۔ یہ معلوم پڑنے پر بے ترتیب سانسیں بحال ہو گئیں۔خیر بھائی سے بات ہوئی تو اس نے پوچھا کہ ابھی تک سو رہے ہو۔ جس پر میں نے برجستہ جواب دیا کہ یار آج ہی تو سونے کا مزہ آیا ہے۔ خوب بے فکری سے سویا ہوں۔ بھائی نے کہا کہ سمجھ نہیں آئی۔ جس پر میں نے کہا کہ آج حضرت اقبال ؒ آ گئے ہیں تو وہ میرے سمیت پوری قوم کو جگائیں گے۔ انسان سکون سے تب ہی سوتا ہے جب اسے اطمینان ہو کہ کوئی ہے جگانے والا ۔

میری اس تشریح پر بھائی نے ایک نیا موضوع چھیڑ دیا اور کہا کہ اقبال نے تو قوم کو واقعی جگا دیا اور شاید اس لیئے جگا دیا کہ وہ ہم سے پہلے آۓ تھے ۔ جن لوگوں کو ہم نے سلایا ہے ان میں سے اگر کوئی جاگا تو بتانا۔ بات میری سمجھ میں نہ آئی جس پر اس نے قائد اعظم ، لیاقت علی خان سے لے کر عصر حاضر کی چنیدہ شخصیات تک ایک طویل لسٹ گنوادی۔جس کا میرے پاس کوئی مدلل جواب نہ تھا۔جب کہ پچھلے کئی روز سے میں بدل بدل کر ساری دالیں بھی کھا چکا تھامگر " در ایں مسئلہ دلیل نیست۔"۔

میں نے موضوع بدلتے ہوۓ ایک سوال داغ دیا کہ یوم اقبال کے حوالے سے کوئی اچھی پوسٹ کا مشورہ دو ۔ کہنے لگا کہ آپ نے اگر کچھ کرناہی ہے تو کسی معروف ادبی حلقے میں کوئی ایسا معروف شعر لگا دو جو اقبال کا نہ ہو مگر اس کے متھے لگا دیا گیا ہو۔ وہ "اے اقبال " والا۔

جس پر میں نے کہا کہ یار کیوں مرواتے ہیں بہت لتراڑ ہو گی۔ اس پر اس نے جواز پیش کیا کہ یہ بھی اقبال کے حوالے سے ایک خدمت ہی ہو گی۔ میں نے پوچھا وہ کیسے تو کہنے لگا کہ صاف ظاہر ہے اقبال شناس لوگ یاں تو فورا ً بولیں گے یا تھوڑی دقت کے بعد بتائیں گے کہ یہ کلام اقبال کا نہیں ہے بلکہ فلاں شاعر یا گلی محلے کے فلاں اقبال کا ہے ۔ کچھ لوگ آپ سے حوالہ بھی مانگ لیں گے۔اس طرح اسی بہانے کچھ لوگ اقبال کی کتب تک رسائی حاصل کریں گے اور یوں اقبال کے شاعری پر لگے کچھ داغ دھبے تو دھل جائیں گے۔اور پھر یار لوگوں کی طرف سے آپ کی شان اقدس میں جو کمنٹس آئیں گے ان کو پڑھ کر شاید باقی لوگ عبرت پکڑیں اور یوں آہستہ آہستہ یہ سلسلہ آخر معدوم ہو جاۓ گا۔ پھر ہر طرف اقبال کا سچا اور کھرا کلام ہی شیئر ہو گا۔بات اس کی اتنی بھی غیر معیاری نہیں تھی۔

اب نے اس سے اتنی صبح کال کا مقصد پوچھا تو وہ بولا کہ ایک دوست ہے ماشااللہ گریجوایٹ ہے۔ اور لا بھی پڑھ چکا ہے۔ مگر بیروزگاری سے تنگ آ کر ساتھ والے گاؤں میں ایک ملک کولیکشن سنٹر پر کام کر رہا ہے۔ میں نے کہا جب کام کر رہا تو پھر کیا مسئلہ ہے۔ جس پر بھائی نے بتایا ہے کہ دیکھو آخر اقبال کا شاہین ہے اور اس مہنگائی کے دور میں بیس ہزار روپیہ ماہانہ پر ملک سنٹر پر دودھ کو فیٹ لگا رہا ہے۔ اور کمی بیشی پورڈرز سے پوری کر رہا ہے۔ آپ کے اسلام آباد میں تو انگھوٹھا چھاپ بھی بہترین عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔کہیں کسی کو کہ کہلا کر کوئی اچھی نوکری پر ہی رکھوا دو۔

میں نے صائب مشورہ دیا کہ جہاں لگا ہے لگا رہے ۔ملک کے حالات تو دیکھو۔کیوں لگی روزی کو لات مارتا ہے۔ تھوڑی بہت بچت کرے کوئی زمین جائیداد بیچ کر بیرون ملک چلا جاۓ ملک پر احسان عظیم ہو گا۔ بھائی نے پوچھا وہ کیسے۔جس پر میں نے بتایا کہ جب جائیداد بیچےگا تو اس کے پاس بھی چار پیسے آ جائیں گےاور ٹیکس کی مد میں حکومت کا بھی فائدہ ہو گا۔ پ حکومتیں بھی تو مشکل وقت میں چھوٹی موٹی جائیدادیں بیچ ہی دیتی ہے۔پاسپورٹ بنوانے پر بھی سرکار کا فائدہ ہو گا۔ کچھ ٹیکس فیس تو دے گا ۔ ایجنٹ کو چار پیسے بھی مل جائیں گے اس کے بچے بھی دعا کریں گے۔ٹکٹ خریدے گا ٹیکس دے۔ ملک سے باہر جاۓ گا تو ملک پر ایک فرد کا بوجھ کم ہو جاۓ گا۔ باہر سے ڈالر بھیجے گا ۔ملک میں چار پیسے آئیں گے۔ یہی ملک پر بھی احسان عظیم ہو گا اور اس کا خاندان بھی خوش حال ہو گا۔ اسے میری طرف سے یہ شعر سنا دینا۔
نہیں تیرا نشیمن گاؤں کے اس ملک سنٹر پر
تو شاہین ہے بسیرا کر دبئی کے رستورانوں پر

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 29 Articles with 19475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.