دنیا بھر میں منائے جانے والے بہت سے عالمی دنوں میں ایک
انتہائی اہمیت کا حامل ’’بچوں کا عالمی دن ‘‘ ہے ۔یہ وہ اہم ترین دن ہے جب
دنیا بھر میں بچوں کے حقوق کی وکالت ‘بچوں کو درپیش چیلنجوں اور مواقعوں کے
بارے میں آگاہی کو فروغ دینے پر بات کی جاتی ہے۔ 1954 میں اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی نے باہمی مشاورت سے فیصلہ کرتے ہوئے ہر سال 20 نومبر کو یہ دن
منانے کی منظوری دی جس کا مقصد بچوں کی فلاح و بہبود اور انکے حقوق معاشرے
میں اجاگر کرنا تھا۔ ہر سال یہ دن کسی مخصوص موضوع کے تحت منایا جاتا ہے ‘
امسال کا موضوع ’’ اپنے مستقبل پر سرمایہ کاری کرنے کا مطلب اپنے بچوں پر
سرمایہ کاری کرنا ہے۔‘‘"Investing in our future means investing in our
children"
اس دن پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر تقاریب کا اہتمام کیاجاتا ہے‘آگاہی
پروگرام مرتب کئے جاتے ہیں‘ بچوں کو خصوصی توجہ کا مستحق گردانا جاتاہے
‘سیمیناروں ‘ کانفرنسوں اور ریلیوں کا اہتمام ہوتا ہے ‘تقاریر کی جاتی
ہیں‘دعوے اور اعلانا ت کئے جاتے ہیں اور پھر اگلے سال تک کیلئے طویل خاموشی
اور لمبی چپ۔
پاکستان وہ ملک ہے جہاں بچوں کی اکثریت بنیادی حقوق سے محروم ہے جس کا سبب
مقامی طورپر والدین کی غربت‘محدود وسائل‘ ناخواندگی ‘ غیر متوازن طر زِ
زندگی اور سماجی ماحول ہے جبکہ ریاست کی جانب سے بھی اس ضمن میں مجرمانہ
غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی
کسی بھی حکومت نے بچوں کے حقوق کی ادائیگی کو اپنا فرض نہیں جانا۔ زبانی
کلامی دعوے اور وعدے تو بہت کئے جاتے ہیں لیکن عملاً کچھ بھی نہیں کیا
جاتا۔یونیسف کی رپورٹ کے مطابق یہاں ہر سال ایک ہزار میں سے 46 بچے پیدائش
کے پہلے ماہ ہی میں انتقال کرجاتے ہیں یعنی ہر 22 میں سے ایک بچہ اپنی
زندگی کا ایک ماہ بھی پورا نہیں کر پاتا جبکہ ہر ایک ہزار میں سے 8 بچے
اپنی پہلی سالگرہ منانے سے قبل ہی موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ % 30 بچے
بالحاظ عمر وزن میں کمی کا شکا رہیں‘% 50 بچے بحیثیت مجموعی وزن کی کمی کا
شکار ہیں‘% 9 بچے انتہائی لاغر ‘کمزوری اور دیگر بیماریوں میں مبتلا
ہیں۔پاکستانی بچوں کی بڑی تعداد اسکول کا منہ نہیںدیکھ پاتی‘ انہیں بچپن ہی
میں دکانوں ‘ ہوٹلوں اورورکشاپس ‘وغیرہ میں کام پر لگادیا جاتا ہے ۔
پاکستان میں حالیہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق یہاں کی موجودہ آبادی
24کروڑ سے زائد ہے۔ تشویش کی امر یہ ہے کہ سوا دو کروڑ سے زائد پاکستانی
بچے حصول تعلیم سے محروم ہیں۔یونیسیف اور پاکستانی ادارہ برائے ترقیاتی
معیشت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق یہاں تقریباً 22.8 ملین یا دو
کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے حصول تعلیم کیلئے اسکول نہیں جاپاتے۔تقریباً 23
ملین‘پانچ سے سولہ سال کے بچے شہریوں کی مجموعی تعداد کا %44 بنتے ہیں۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اسکول جانے کی عمر کا تقریباً ہر دوسرا بچہ
پڑھائی کیلئے کسی اسکول میں جاتا ہی نہیں یعنی آج ہم اپنے نوجوانوں کی
مناسب تربیت کرتے ہوئے مستقبل کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں
ہیں۔ بچوں کے حقوق کے عالمی دن کے موقع پر جتنے خوش کن اعلانات سننے اور
پڑھنے کو ملتے ہیں ان میں سے محض چند ایک پر ہی عمل کیا جائے تو مستقبل کے
ان معماروں کی قسمت بدل جائے اور ملک کے حالات سدھر جائیں۔اس حوالے سے
یونیسیف کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس نے اب
سے تیس برس قبل حقوق اطفال کے چارٹر پر ایک برس کے اندر ہی دستخط کرکے اس
پر عمل درآمد کی کوششیں شروع کر دی تھیں تاہم یہ کوششیں ناکافی ہیں اور
مزید بہتری کی ضرورت ہے۔
ہمارے خیال میں حکومتی امور اپنی جگہ ‘ ایسے میں نجی اداروں کو آگے بڑھ کر
کام کرنا چاہئے۔
|