کبھی سوچا نوجوان نسل موت سے بدتر زندگی کیوں گزار رہی ہے؟

کیوں کہ ہم لوگ حد سے زیادہ practical ہو چکے ہیں۔

ہم ہر چیز کو materialistic way میں سوچتے ہیں۔

ہمیں کوئی بولتا ہوا انسان چپ نظر آتا ہے تو ہم کہتے ہیں۔

"ایسے ہی کسی سے بات کرنے کا دل نہیں کر رہا ہوگا اسی لیے چپ ہے۔ its okay.

ہمیں کوئی انسان چھپ کر روتا ہوا دکھتا ہے تو ہم کہتے ہیں۔

“رونے دو دل ہلکا ہوجاۓ گا۔ its okay

ہمیں کوئی انسان اکیلا بیٹھا نظر آتا ہے تو ہم کہتے ہیں۔

"کوئی بات نہیں اسکا نیچر ہی ایسا ہی کسی سے بات کرنا پسند نہیں۔ its okay"

ہمیں کوئی انسان الجھا ہوا نظر آتا ہے تو ہم کہتے ہیں

"رہنے دو ذہنی دباؤ کی وجہ سے ایسا کر رہا ہے۔ خود ہی ٹھیک ہوجاۓ گا۔ its okay

ہم سمجھتے ہی نہیں کہ ہمارا ایک "its okay" اُس "not okay" انسان کی آخری امید بھی توڑ دیتا ہے اور وہ شخص ہمیشہ کہ لیے اپنے منہ پر its okay کا tag لگا لیتا ہے کیوں کہ ہم اسے یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہمارے لیے اسکی خاموشی، اسکا رونا، اسکا اکھڑپن کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہمیں فرق ہی نہیں پڑتا اسکی کسی بھی چیز سے۔

اور وہ انسان اپنی تنہائیوں اور پیچیدگیوں میں مزید ڈوبتا جاتا ہے۔

ہمارے لیے ہر چیز بہت normalized ہو چکی ہے کیوں ہماری problems list کافی بدل چکی ہے۔ ہمارے لیے پروبلمس کیا ہیں؟

میرے پاس گھر نہیں ہے۔

میرے پاس بڑی گاڑی نہیں ہے۔

میری جاب نہیں لگ رہی۔

میری تنخواہ کم ہے۔

میرا ٹیسٹ clear نہیں ہورہا۔

میری طلاق ہو گئی ہے۔

میرا شوہر اچھا نہیں ہے۔

میری بیوی اچھی نہیں ہے۔

کیوں کہ ہمارے دماغوں کو materialism نے مفلوج کر دیا ہے۔

ہمارے نزدیک ہمارے بچوں کی feelings انکے emotions انکے behavior کی کوئی value ہی نہیں ہے۔

ہمیں لگتا ہے ہم کھلا رہے ہیں پلا رہے ہیں یا پڑھا رہے ہیں تو بس ہوگیا فرض پورا۔

ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو پاس بٹھا کر ان سے سے سوال نہیں پوچھتے کہ کیا بات ہے؟ کیوں خاموش ہو؟ کیوں رو رہے ہو؟

ہم اپنے بچوں سے انکی مرضی نہیں پوچھتے ہم ان پر اپنی مرضی مسلط کردیتے ہیں انکے ساتھ زبردستی کرتے ہیں۔

میں نے ایک لڑکی کو کہتے سنا کہ

"مجھ سے 19 سال کی زندگی میں کسی ایک انسان نے یہ نہیں پوچھا کہ میں کیا چاہتی ہوں اسی لیے اب میں کسی کو بتانا ہی پسند نہیں کرتی۔"

ہم وہ لوگ ہیں جو خود ہی اپنے بچوں کو ذہنی طور پر معذور بناتے ہیں اور بعد میں خود ہی انھیں psychologists کے پاس لے کر جاتے ہیں انکے sessions کرواتے ہیں۔ لیکن ان سے پوچھتے نہیں۔

ہم پوچھتے بھی تب ہیں جب اپنے بچوں کو پنکھوں سے لٹکتا دیکھتے ہیں تب ہمیں ان کے آنسو بھی دِکھنے لگتے ہیں تب ہمیں انکا احساس بھی ہونے لگتا ہے۔

لیکن افسوس اس وقت تک وہ اس دنیا میں نہیں رہتے۔
 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 403 Articles with 205805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.