گذشتہ ماہ، 19 اکتوبر 2024 کو کراچی یونیورسٹی میں "شیطان
ڈے" کے عنوان سے ایک تقریب منعقد کی گئی، جس نے پورے ملک میں غم و غصے کی
لہر دوڑا دی مگر 22 دن گزرنے کے بعد بھی حکومت یا منسٹری آف ایجوکیشن کی
طرف سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ یہ تقریب، جو ابتدا میں ایک ثقافتی ایونٹ
کے طور پر پیش کی گئی تھی، اب پاکستان کی اسلامی شناخت اور نوجوانوں کی
اخلاقی تعلیم کے حوالے سے گہرے سوالات اٹھا رہی ہے۔ اس تنازعہ کا دائرہ صرف
اس کی نظریاتی اور ثقافتی نوعیت تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بڑھتے ہوئے
رجحان کی نشاندہی بھی کرتا ہے جس میں تعلیمی اداروں میں ثقافتی حساسیت کی
کمی کا سامنا ہے۔
"شیطان ڈے" کو ایک گروپ آف اسٹوڈنٹس نے منظم کیا تھا، جن کا دعویٰ تھا کہ
اس کا مقصد معاشرتی روایات کو چیلنج کرنا تھا۔ تاہم، اس تقریب کا تھیم، جس
میں شیطانی علامتوں کا کھلا استعمال کیا گیا تھا، مذہبی اسکالروں، سیاسی
رہنماؤں اور عوام کی جانب سے وسیع پیمانے پر مذمت کا شکار ہوا۔ ایک ایسی
قوم میں جہاں اسلام نہ صرف ریاستی مذہب ہے بلکہ اس کی ثقافتی اور اخلاقی
بنیاد بھی ہے، "شیطان" (شیطان) کے حوالے سے کسی ایونٹ کا انعقاد انتہائی
مسائل کا باعث ہے۔
اس جشن میں ایسی علامتوں، موسیقی اور افعال کا استعمال کیا گیا جو بہت سے
لوگوں نے گستاخانہ سمجھا، اور یہ پاکستان کی اکثریتی آبادی کے بنیادی عقائد
کو مجروح کرنے کا سبب بنا۔ اس کا عنوان "شیطان ڈے" خود ایک خطرناک پیغام
دیتا ہے، خاص طور پر ایک تعلیمی ادارے میں، جہاں بنیادی طور پر علمی ترقی،
تنقیدی سوچ اور اخلاقی یکجہتی پر توجہ دینی چاہیے۔ ایک اسلامی معاشرتی
ڈھانچے والے ملک میں ایسی تقریب کا انعقاد نہ صرف تعلیمی بلکہ سماجی ذمہ
داری میں سنگین غفلت کی نشاندہی کرتا ہے۔
اسلامی اقدار اور پاکستان کی قومی شناخت، پاکستان 1947 میں مسلمانوں کے لیے
ایک ریاست کے طور پر قائم کیا گیا تھا، جس کا مقصد اسلام کو سیاسی اور
ثقافتی رہنمائی کے طور پر اپنانا تھا۔ پاکستان کے آئین میں اسلام کو ریاست
کا مذہب قرار دیا گیا ہے، اور اس کی تعلیمات حکمرانی، سماجی زندگی اور
تعلیمی نظام کی رہنمائی کرتی ہیں۔ اس تناظر میں، کسی بھی ایسی تقریب کا
انعقاد جو ان اقدار کے مخالف ہو یا ان کا مذاق اُڑائے، پاکستان کی بنیادوں
کے لیے ایک براہ راست چیلنج ثابت ہوتا ہے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو برائی سے بچنے اور اچھائی کو اپنانے کی تعلیم دیتا
ہے۔ ایسی کسی تقریب کا فروغ جو شیطانی علامتوں سے جڑی ہو، اسلامی تعلیمات
کے خلاف ہے۔ اس قسم کی تقریب کا جشن منانا صرف ایک تعلیمی غلطی نہیں بلکہ
ایک ثقافتی اور اخلاقی دھچکا ہے جو قوم کی شناخت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
تعلیمی ادارے، خاص طور پر یونیورسٹیاں، مستقبل کے رہنماؤں اور شہریوں کی
تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ اسلامی اقدار کو فروغ دینے والے ادارے میں ایسی
تقریب کا انعقاد یا پروموشن ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔
**نوجوانوں اور اخلاقی انحطاط کے خطرات**
"شیطان ڈے" تقریب کا سب سے تشویشناک پہلو اس کا نوجوانوں پر اثر ہے، جو
اپنی ذاتی اور ذہنی ترقی کے اہم مرحلے میں ہیں۔ یونیورسٹیاں تعلیمی ادارے
ہیں جہاں طلباء کو تنقیدی سوچ، اخلاقی آگاہی اور قومی اقدار کا احترام
سکھایا جانا چاہیے۔ تاہم، جب طلباء ایسی تقاریب میں حصہ لیتے ہیں جو مذہبی
اور اخلاقی روایات کے خلاف بغاوت کی علامت بن جاتی ہیں، تو یہ مستقبل کی
نسلوں کے لیے خطرناک مثال قائم کر دیتا ہے۔
اس طرح کی تقاریب کا معمول بننا بتدریج معاشرتی اخلاقی اور مذہبی اقدار کے
زوال کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں جو اپنی زندگی کے
ابتدائی مراحل میں ہوتے ہیں۔ "شیطان ڈے" جیسے جشن ایک پیغام دیتے ہیں کہ
مذہب، روایات اور سماجی اصولوں کا مذاق اُڑانا قابلِ قبول ہے، جو کہ اخلاقی
اقدار میں کمی کا سبب بن سکتا ہے اور قوم کی ثقافتی اور سماجی یکجہتی کو
نقصان پہنچا سکتا ہے۔
تعلیمی ادارے وہ مقامات ہونے چاہئیں جہاں علم کی ترقی اور اخلاقی تربیت ایک
ساتھ کی جائے، نہ کہ ایسی علامات کو فروغ دیا جائے جو تخریبی یا توہین آمیز
ہوں۔ جب یونیورسٹیاں تعلیمی اصولوں اور اخلاقی یکجہتی پر زور دینے کے بجائے
متنازعہ تقاریب پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، تو یہ تعمیراتی تعلیم کی جگہ نقصان
دہ خیالات کو اجاگر کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کی صورتحال ایک الگ واقعہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں کئی
مثالیں ملتی ہیں جہاں قوموں نے اپنے روایتی اقدار اور مذہبی شناخت کو ترک
کیا، اور غیر ملکی عقائد یا روایات کو اپنانے کے نتیجے میں انہیں سنگین
نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان قوموں نے اکثر سماجی تقسیم، اخلاقی زوال اور
قومی یکجہتی کی کمی کا سامنا کیا۔
مثال کے طور پر، رومن ایمپائر کے زوال کو جزوی طور پر اس بات سے جوڑا جا
سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے روایتی مذہبی اور ثقافتی طریقوں کو ترک کر لیا
تھا اور غیر ملکی نظریات و عقائد کو اپنا لیا تھا۔ اسی طرح، سلطنتِ
عثمانیہ، جو ایک طاقتور اسلامی ریاست تھی، اندرونی تقسیموں کا شکار ہوئی جب
مغربی نظریات اور سیکولرازم نے 19ویں اور 20ویں صدی میں وہاں جڑ پکڑی۔ جیسے
ہی سلطنت نے اپنی مذہبی ہم آہنگی کھو دی، ویسے ہی اس کی سیاسی اور سماجی
طاقت میں کمی واقع ہوئی۔
حالیہ برسوں میں، کئی مغربی ممالک میں سیکولرازم کے بڑھنے کے نتیجے میں
روایتی اقدار میں کمی آئی ہے، جس کے نتیجے میں ثقافتی شناخت اور اخلاقی
زوال پر بحث بڑھ گئی ہے۔ فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک، جو کبھی مسیحی
روایات کے ستون تھے، آج مذہبی مشاہدات میں کمی اور زیادہ سیکولر عوامی
حلقوں کی جانب مائل ہیں۔ حالانکہ سیکولرازم بذاتِ خود منفی نہیں ہے، لیکن
ثقافتی اور مذہبی شناخت کا مکمل خاتمہ اکثر قومی یکجہتی اور اخلاقی سمت کے
فقدان کا سبب بنتا ہے۔
پاکستان کے لیے خطرہ واضح ہے۔ ایک ایسی قوم جو اسلامی اصولوں پر قائم تھی،
کو ان اصولوں کی کمی کا سامنا کرنے سے بچانا چاہیے، خاص طور پر تعلیمی
اداروں میں۔ غیر ملکی، سیکولر یا مذہب مخالف نظریات کا نوجوانوں میں پھیلنا
پاکستان کی اسلامی شناخت کو کمزور کر سکتا ہے، اور ایک نسل کو ان اقدار سے
دور کر سکتا ہے جو کبھی قوم کی طاقت کا سبب تھیں۔
"شیطان ڈے" کی تقریب پاکستان کے تعلیمی نظام اور سماج کے لیے ایک ہوشیا ر
انتباہ ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں
کو اسلامی اقدار، ثقافتی حساسیت اور اخلاقی یکجہتی کو فروغ دینے میں ایک
فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگرچہ تعلیمی آزادی اہم ہے، لیکن یہ کبھی بھی
معاشرتی اصولوں کے خلاف نہیں جانی چاہیے جن پر یہ ادارے قائم ہیں۔
حکومت اور تعلیمی اداروں کو ایک ساتھ کام کرنا چاہیے تاکہ ایسی تقاریب کو
روکا جا سکے، جو اخلاقی زوال اور ثقافتی انتشار کا سبب بن سکتی ہیں۔
یونیورسٹیوں میں ہونے والی سرگرمیوں اور تقاریب کے لیے ایک واضح ضابطہ ہونا
چاہیے، تاکہ یہ اس ملک کی اسلامی روح سے ہم آہنگ ہوں۔ اس طرح، پاکستان کی
شناخت کا تحفظ کیا جا سکے گا اور نوجوانوں کو وہ علم اور اخلاقی تربیت دی
جا سکے گی جو انہیں جدید دنیا کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرے۔
کراچی یونیورسٹی کا "شیطان ڈے" ایک سنگین یاد دہانی ہے کہ پاکستان کو آج جس
بڑھتے ہوئے چیلنج کا سامنا ہے وہ اس کی اسلامی شناخت کا تحفظ ہے۔ اگر ایسے
ایونٹس کو روکا نہ گیا، تو یہ ایک وسیع تر ثقافتی اور اخلاقی زوال کا سبب
بن سکتے ہیں، جو پاکستان کی بنیادی اقدار کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
پاکستان کو آگے بڑھتے ہوئے اپنے تعلیمی اداروں، پالیسی سازوں اور پورے سماج
کو اس کی اسلامی شناخت، اقدار اور ثقافتی ورثے کا تحفظ کرنے کے لیے چوکنا
رہنا ہوگا۔ صرف اس صورت میں ہم پاکستان کی اخلاقی سالمیت، قومی اتحاد
|