موم بتیوں کی نرم روشنی میں ایک عورت اپنی تنہائی کی گرمی
میں لپٹی ہوئی بیٹھی ہے، خود شناسی کی حقیقت کو مجسم کرتی ہوئی۔ اس کے ارد
گرد جھلملاتی روشنیاں اس کے اندر کی ہلکی روشنی کی عکاسی کرتی ہیں، جو نہ
صرف اس کی شخصیت کو بلکہ اس کی گہری سوچوں کو بھی منور کرتی ہیں۔ وہ اپنے
ہی دنیا میں ڈوبی ہوئی ہے، ایک ایسی پناہ گاہ میں جہاں وہ خود کو معاشرتی
توقعات یا فیصلوں سے آزاد محسوس کر سکتی ہے۔
اکیلے رہنے میں ایک خاص طاقت ہوتی ہے، خود کو قبول کرنے سے جو خوبصورتی اور
وقار حاصل ہوتا ہے، وہی اس لمحے میں جھلکتا ہے۔ ہر شعلے کا جھلملانا اس کی
اندرونی طاقت کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ اس کی پر سکون مسکراہٹ ایک مطمئن روح
کی عکاسی کرتی ہے۔ وہ نازک بھی ہے اور طاقتور بھی، کمزور بھی ہے اور مضبوط
بھی۔ اس تنہائی کی حالت میں، اسے اپنے حقیقی وجود سے جڑنے کا موقع ملتا ہے،
ایک ایسا لمحہ جب خوبصورتی ظاہری صورت میں نہیں بلکہ اندرونی سکون کی
گہرائی میں ہوتی ہے۔
موم بتیوں کی یہ روشنی اسے ایک قدیم اور گہری حقیقت سے جوڑتی ہے، ایک ایسا
لا زوال عمل جو سکون اور فکر کا ہے۔ وہ اس نرم روشنی میں زندگی کے سفر پر
غور کرتی ہے، وہ خواب جو کبھی بہت قریب محسوس ہوتے تھے اب دور جا چکے ہیں،
وہ امیدیں جو کبھی روشن تھیں اب مدھم ہو چکی ہیں۔ مگر اس پر سکون لمحے میں،
وہ چھوڑنے اور وقت کی عارضیت کو قبول کرنے کی صلاحیت حاصل کرتی ہے اور
موجودہ کی خوبصورتی کو سراہتی ہے۔
یہ ایک خاموش تقویت کا لمحہ ہے، اس حقیقت کو سمجھنے کا کہ خود سے محبت کامل
ہونے میں نہیں بلکہ قبولیت میں ہے۔ باہر کی دنیا شور اور توقعات سے بھری
ہے، مگر اپنی تنہائی کی گرمی میں، وہ خاموشی سے طاقت کو دریافت کرتی ہے۔ وہ
سیکھتی ہے کہ خوبصورتی ان چیزوں میں نہیں جو ہم حاصل کرنے کی کوشش کرتے
ہیں، بلکہ اس سکون میں ہے جو ہم اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔
|