ایک اندھیری رات، چاندنی کی ہلکی روشنی کے ساتھ، ایلیسا
گہرے سکوت سے بھرے ایک جھیل کے کنارے پہنچی۔ سفید لباس میں ملبوس، اس کی
آنکھوں میں خوابیدہ رنگ تھے۔ وہ جانتی تھی کہ یہ رات معمولی نہیں۔ جھیل کے
پانیوں میں ایک پراسرار داستان چھپی ہوئی تھی، جو صرف ان لوگوں کے دلوں تک
پہنچ سکتی تھی جو حقیقت اور خواب کے درمیان فرق کو بھول چکے تھے۔
ایلیسا نے جھیل کے کنارے پر قدم رکھا، پانی کی ٹھنڈک نے اس کے پاؤں کو
چھوا، جیسے جھیل اسے خوش آمدید کہہ رہی ہو۔ وہ آہستہ آہستہ پانی میں اتری،
اس کے سفید لباس نے چاندنی کی کرنوں کو منعکس کیا اور وہ کسی دیومالائی پری
جیسی لگنے لگی۔
پانی کے بیچ میں پہنچ کر، وہ اپنی کمر کے بل لیٹ گئی، اس کے گہرے سانسوں نے
پانی پر ہلکی ہلکی لہریں پیدا کیں۔ اس کی آنکھیں آسمان کی طرف دیکھتی رہیں،
اور اس کے لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ آگئی۔ اچانک، پانی میں ایک غیر مرئی سی
طاقت نے اسے اپنے اندر سمیٹنا شروع کر دیا، جیسے کوئی پرانی کہانی زندہ ہو
رہی ہو۔
کہا جاتا ہے کہ یہ جھیل ان محبتوں کی یادگار ہے جو کبھی پوری نہ ہو سکیں۔
جھیل ان کہانیوں کو سنبھالتی ہے، اور ہر سو سال بعد کسی خاص روح کو بلاتی
ہے تاکہ وہ اپنی داستان سنائے۔ ایلیسا کو اس کی بے پناہ محبت نے یہاں تک
پہنچایا تھا، وہ محبت جسے وہ کبھی اپنے الفاظ میں بیان نہ کر سکی۔
پانی نے اسے گھیر لیا، اور وہ محسوس کرنے لگی کہ وہ کسی اور دنیا میں جا
رہی ہے، جہاں وقت رک چکا تھا، جہاں محبت اور خواب ہمیشہ کے لیے زندہ تھے۔
جب صبح ہوئی، جھیل کے پانی پر ایلیسا کا سفید لباس تیر رہا تھا، اور کنارے
پر ہوا میں اس کی ہلکی ہنسی کی بازگشت تھی۔
کہتے ہیں، جو لوگ اس جھیل کے پاس جاتے ہیں، وہ ایلیسا کی کہانی سنتے ہیں۔
اس کی محبت، اس کی قربانی، اور اس کی دائمی مسکراہٹ آج بھی ان پانیوں میں
زندہ ہے۔
|