ریشم کی سفید پوشاک میں لپٹی، عالیہ ایک عالیشان ہال میں
کھڑی تھی، جس کی دیواروں پر پُرانی دنیا کے فن کے نمونے جھلک رہے تھے۔ اس
کے ہاتھوں میں زیورات چمک رہے تھے، مگر آنکھوں میں ایک عجیب سی ویرانی تھی۔
عالیہ کا یہ حسن مردوں کو اپنی طرف کھینچتا، مگر وہ خود اپنے دل کی دھڑکن
کو محسوس کرنے سے قاصر تھی۔
عالیہ کی شادی کو پانچ سال ہو چکے تھے۔ اس کے شوہر، حماد، ایک مصروف تاجر
تھے، جن کی دنیا پیسوں اور معاہدوں کے گرد گھومتی تھی۔ عالیہ نے کئی سالوں
تک محبت اور توجہ کی تلاش کی، مگر حماد کی سرد مہری نے اس کے دل میں ایک
خلا چھوڑ دیا۔ وہ ایک ایسی دنیا میں قید تھی، جہاں رشتے ایک فرض بن چکے تھے،
اور جذبات کہیں کھو گئے تھے۔
شام کی ایک تقریب میں، وہ اس ہال میں تنہا کھڑی تھی، جب ایک اجنبی، زوہیب،
اس کے قریب آیا۔ زوہیب کی باتوں میں ایک عجیب سی کشش تھی، جس نے عالیہ کے
اندر کی بے چینی کو جگا دیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ قربت غلط تھی، مگر زوہیب
کی موجودگی میں اسے وہ سکون محسوس ہوا جو وہ برسوں سے تلاش کر رہی تھی۔
چند ملاقاتوں کے بعد، عالیہ کو احساس ہوا کہ زوہیب بھی محض ایک عارضی خوشی
کا ذریعہ ہے۔ اس کا دل کسی مرد کی قربت کے لیے نہیں بلکہ آزادی اور
خودمختاری کے لیے تڑپ رہا تھا۔ زوہیب کی موجودگی بھی اس کے دل کے زخموں کو
بھر نہیں سکی۔
آخرکار، عالیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کو ان جھوٹی تسلیوں سے آزاد کرے گی۔
اس نے حماد سے علیحدگی اختیار کی، نہ زوہیب کے لیے، نہ کسی اور کے لیے،
بلکہ اپنے لیے۔ وہ اپنی زندگی کو اپنے انداز میں جینا چاہتی تھی، بغیر کسی
رشتے کی بیڑیوں کے۔
یہ کہانی عالیہ کے ایک ایسے سفر کی ہے، جو ظاہری حسن سے شروع ہوا، مگر اسے
اپنے اندر کے حقیقی سکون کی تلاش تک لے گیا۔ یہ اس کی فتح تھی، اس کے
خوابوں اور خواہشوں کی۔
|