پاکستان بننے سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد سے لیکر اب
تک عام لوگوں کی قربانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اگر انکو پاکستان کی تاریخ سے
نکال دیا جائے تو پیچھے صرف ڈھانچہ ہی بچتا ہے جو دریائے سندھ کے کنارے
کھڑے ہوئے انڈس کوئین سے ملتا جلتا ہوگا انڈس کوئین کا ذکر اس لیے کردیا کہ
شائد اس کو دیکھنے والے سمجھتے ہوں کہ ہماری ترقی کا کیا عروج تھا جب ہم
سعودی حکومت کی مدد کیا کرتے تھے ہماری قومی ائر لائن جو آج برائے فروخت ہے
اور اسے خریدنے کو کوئی تیار نہیں ایک وقت تھا جب ہمارے پاکستانی دوسرے
ممالک میں جاکر انکو ائر لائن بنانے اور چلانے کی تربیت دیا کرتے تھے ہماری
اسٹیل مل جو دنیا کے لیے ایک مثال تھی پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ کباڑ کا
ڈھیر بن گئی ہماری ترقی کا ناقابل یقین سفر جاری تھا جسے دیکھنے کے لیے چین
کے ماہرین بھی آئے اور کراچی میں قائم بڑی بڑی عمارتوں کو اپنا رول ماڈل
بنایا ڈیم بھی بن رہے تھے اور ہماری زراعت بھی ترقی کررہی تھی اور تو اور
ہماری انڈسٹری بھی پھل پھول رہی تھی بس پھر کیا تھا پیپلز پارٹی اور مسلم
لیگ کے قائد جناب میاں نواز شریف نے باری باری اقتدار سنبھالنا شروع کیا
اور ہمارا ملک انڈس کوئین بننا شروع ہوگیا حکمرانوں کے کاروبار دن دگنی اور
رات چوگنی ترقی کرنے لگے جسکے بعد نہ صرف حکومتی ادارے ختم ہونا شروع ہوگئے
بلکہ ان حکمرانوں کے مقابلہ میں چلنے والے بڑے بڑے کاروبار بھی زمینبوس
ہونا شروع ہوگئے آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم لاہور سے کراچی
تک کا سفر کرنے سے پہلے گھنٹوں سوچتے ہیں ریل گاڑی کا اعتبار نہیں اور جہاز
کا کرایہ عام انسان برداشت نہیں کرسکتا چاہیے تو یہ تھا کہ ہر ضلعی مقام پر
ائر پورٹ بنا ہوتا سرکاری ائر لائن کے ساتھ ساتھ درجنوں پرائیویٹ کمپنیوں
کے جہاز ہوتے جو مسافروں کو دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرواتے لیکن بات پھر
انڈس کوئین والی آجاتی ہے کہ ہم ہماری پی آئی اے بھی اسی پوزیشن میں آرہی
ہے انڈس کوئین کیا ہے راجن پور اوربہاولپور کے رہنے والے شائد اس جہاز سے
واقف ہوں یہ اس دور کی بات ہے جب ترقی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا لیکن
پاکستان اس دور میں بھی بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے بہت آگے تھا جسکی نشانی
آج بھی کوٹ مٹھن میں دریائے سندھ کے کنارے خستہ حال انڈس کوئین کی شکل میں
موجود ہے راجن پور میں اس وقت شفقت اﷲ مشتاق ڈپٹی کمشنر ہیں جو شاعر اور
لکھاری بھی ہیں اور ساتھ میں حساس طبیعت کے مالک بھی ماضی سے بھی واقف ہیں
اور مستقبل کو بھی بہتر بنانے کی کوشش میں ہیں انہی کے علاقے میں دریائے
سندھ کے کنارے کھڑا ایک صدی سے زائد پرانا تاریخی بحری جہاز انڈس کوئین
متعلقہ حکام کی عدم توجہی کے باعث تیزی سے بوسیدہ ہو رہا ہے انڈس کوئین کو
اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کے منصوبوں کا کئی بار اعلان کیا گیا لیکن یہ
عمل مکمل نہ ہو سکا مبینہ طور پر جہاز کے فکسچر اور فٹنگز بھی چوری ہو گئے
ہیں یہ جہاز 1867 میں برطانوی دور حکومت میں بنایا گیا تھا اور اس کی ملکیت
نواب آف بہاولپور کی تھی یہ نواب کے مہمانوں کے سفر کی سہولت کے لیے
استعمال ہوتا تھا تین منزلہ جہاز میں 400 مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرنے
کے لیے باورچی خانے تھے مرد اور خواتین مسافروں کے لیے الگ الگ حصے تھے
ماضی میں یہ جہاز علاقے کے لوگوں کو کوٹ مٹھن سے چاچڑاں شریف جانے میں بھی
سہولت فراہم کرتا تھا دریا کے دونوں کناروں سے سینکڑوں لوگ روزانہ جہاز پر
سفر کرتے تھے نواب آف بہاولپور سبحان صادق نے 1917 میں کوٹ مٹھن اور روہی
کے صوفی شاعر خواجہ غلام فرید کے پیروکاروں کو یہ جہاز تحفے میں دیا جس کے
بعد اسے عقیدت مندوں کی آمدورفت کے لیے وقف کر دیا گیاقیام پاکستان کے بعد
نواب کے خاندان نے چند سال تک اس جہاز کی دیکھ بھال کی جس کے بعد اسے محکمہ
ہائی ویز کے حوالے کر دیا گیا تاہم محکمہ نے جہاز کی مناسب دیکھ بھال نہیں
کی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حالت خراب ہوتی گئی اورپھر وقت گذرنے کے
ساتھ ساتھ ضلعی حکومت نے اس تاریخی جہاز انڈس کوئین کی ذمہ داری سے ہاتھ
کھینچ لیااس تاریخی جہاز کے پرزے اور سامان چوری ہوگئے یہاں تک کہ اسکاانجن
بھی نکال لیا گیا 2012 اور 2017 میں انڈس کوئین کی بحالی کے منصوبوں کا
اعلان کیا گیا جو صرف اعلان ہی رہا اور ابھی تک اس جہاز کی بحالی کا کام
شروع نہیں ہوا کمشنر ڈیرہ غازی خان جہازاور ڈپٹی کمشنر اس تاریخی جہاز کا
دورہ کریں اور اس کی تزئین و آرائش کے لیے کمیٹی بنائیں وہ اسے ضلع راجن
پور کے لوگوں کے لیے تفریحی مرکز میں بھی تبدیل کر سکتے ہیں اگر وہ خود کچھ
نہیں کرسکتے تو پھر ایک اور نکما محکمہ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن بھی ہے
جو نہ خود کچھ کرتا ہے اور نہ ہی کسی اور کو کچھ کرنے دیتا ہے اسے ساتھ
شامل کرکے اس جہاز کو قومی ورثہ بنوا دیں اگر ضلعی انتظامیہ اور ٹورازم بھی
کچھ نہیں کرسکتا تو پھر ایک اور کھانے پینے والا محکمہ اثار قدیمہ بھی ہے
اسے ہی دیدیا جائے جنکی روٹی پانی کا انتظام بھی ہوجائے گا اور جہاز پر
لوگوں کی آمدورفت کا سلسلہ بھی شروع ہوجائیگا اگر یہ سب ملک کر بھی کچھ
نہیں کرسکتے تو پھر یہ قیمتی اثاثہ کامران لاشاری کے سپرد کردیا جائے جو
وہاں پر ایک اچھی سی فوڈ سٹریٹ بنا کر رونق میلے کا اہتمام ضرور کردیگا اس
تاریخی جہاز کی بحالی سے نہ صرف علاقے میں سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ اس
علاقے میں آنے والے خواجہ فرید کے لاکھوں ماننے والوں کو تفریحی سہولیات
بھی فراہم ہوں گی ویسے اس تاریخی جہاز کی تزئین و آرائش کے لیے فزیبلٹی
رپورٹ 2017 میں تیار کی گئی تھی جہاز کی بحالی کے کام کے لیے جہاز کو کراچی
شپ یارڈ منتقل کیا جانا تھامگر اس کی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ اس قیمت پر دو
نئے جہاز خریدے جا سکتے تھے اس منصوبے کو اعلیٰ حکام نے بھاری لاگت اور
دیگر مسائل کی وجہ سے روک دیا تھا جہاز اب محکمہ ہائی ویز کے کنٹرول میں ہے
اور انہوں نے اس جہاز کا وہی حال کررکھا ہے جو ہماری سڑکوں کا حشر کیا ہوا
ہے نہ جانے کب کوئی محب وطن حکمران آئے گا جو ہمیں ہمارے پرانے دور میں ہی
لے جائے اور عام لوگوں کی قسمت کھل سکے ۔
|