ڈیبٹ۔ کریڈٹ کارڈ فراڈ سے بچیں

میں انٹر نیٹ پر دیکھ رہا تھا۔ ایک کمپنی کا اشتہار تھا۔ بظاہر بہت بڑی کمپنی نظر آتی ہے۔ اس نے بہت سی چیزیں دیگر خریداری کے ساتھ مفت کی پیشکش کی ہے، صرف آپ کو ایک پہیہ گھمانا ہے۔ وہ قسمت کا چکر آپ کو مفت یا 90 فیصد کی رعایت کی خوشخبری دیتا ہے۔ وہ چکر اس خوبصورتی سے سیٹ کیا گیا کہ جب بھی آپ پہیہ گھمائیں گے، آپ مفت یا نوے فیصد ہی کا تحفہ پائیں گے۔ اس کے علاوہ وہ پہیہ کہیں رکتا ہی نہیں۔ آپ ان کی لمبی چوڑی فہرست میں سے اپنی پسند کی دو چار چیزیں نکال کر ان کی دی ہوئی کمپیوٹر باسکٹ میں درج کر لیں، وہ مفت اور نوے فیصد والی اپنی لاٹری کی چیزوں کو بھی اس میں شامل کر لیں۔ آپ کا بل اگر پانچ سو ڈالر ہے تو وہ قیمتوں کو اسقدر دلکش بنا کر آپ کو تقریباً ساڑھے تین سو ادا کرنے کا کہتے ہیں۔ یہ سودا اس قدر جاذب ہوتا ہے کہ اچھا بھلا بندہ پھسل جاتا ہے اور ادائیگی کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔پھر وہ بہت کم ڈلیوری چارجز لیتے ہیں یا چھوڑ بھی دیتے ہیں۔انسان فطری طور لالچی ہے اس لئے یہ تمام اقدامات میرے جیسے کسی شخص کو ٹریپ کرنے کے لئے بہت کافی ہوتے ہیں۔

میں صحیح کہہ رہا ہوں، کیونکہ میں بھی ٹریپ ہو گیا۔ جٹ سے ایک لمبا چوڑا آرڈر اس کمپنی کو لکھوا دیا۔ انہوں نے میری آرڈر باسکٹ کو جمع تفریق کرنے کے بعد مجھے کہا کہ فوری اپنے کریڈٹ کارڈ کے نمبر سے ہمیں یہ رقم بھیج دیں ۔ میرے سامنے اس فرم کا ایک فارم تھا جس پر مجھے اپنا کریڈٹ کارڈ نمبر اور وہ ادائیگی کرنا تھی۔ مجھے یقین تھا کہ میں اگر اپنا کریڈٹ کارڈ کا نمبر انہیں دے دوں گا تو میرا اکاؤنٹ مکمل خالی ہو جائے گا۔ اس لئے اس مرحلے پر پہنچ کر میں رک گیا۔ دو منٹ سوچا، اس لئے کہ ایسی تمام تر متاثر کن سائٹس اصلی نہیں ہوتیں۔ انہوں نے سب کچھ اس طرح ڈیزائن کیا ہوتا ہے کہ اصلی سے بھی زیادہ اصلی دکھائی دیتی ہیں۔ مگر چند ایک کے علاو ہ زیادہ تر جعلسازی کرتی اور آپ کا محنت سے کمایا ہوا پیسہ لے کر رفوچکر ہو جاتی ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کا نمبر ماسوائے اس فرم کو جسے آپ پوری طرح جانتے ہیں کہ وہ اصلی ہے جیسے ایمیزون ،کسی بھی دوسرے کو دینا اپنے ساتھ ظلم ہے۔ آپ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں FIA کی سائبر کرائم ونگ سے رجوع کریں گے۔ مجھے اتفاق سے اس ونگ سے پالا پڑا ہے۔ FIA اب ایک خالص سیاسی ادارہ ہے۔ اس کا کام حکومت وقت کی خدمت اور اس کے کہنے پر حکومتی مخالفوں کو ذلیل کرنا ہے۔ عام آدمی کی وہاں کوئی سنتا ہی نہیں۔ہزاروں کیس وہاں درج ہیں۔ تگڑی بلکہ بہت تگڑی سفارش کے بغیر وہاں کوئی کام نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے۔ میں نے ایک کیس کے سلسلے میں کافی چکر لگائے مگر مایوس ہی ہوا۔ کوئی شخص آپ کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ایسا ہی چلن ہماری پولیس اور انٹی کرپشن کا بھی ہے۔

انٹر نیٹ ہی پر ایک اشتہار آتاہے کہ 20 سے زیادہ عام استعمال کے اوزاروں کا ایک گتے کا باکس آپ صرف دو ہزار روپے میں حاصل کر سکتے ہیں۔ چیزیں بڑی معقول تھیں اور دو ہزار میں وہ بالکل مفت والی بات تھی۔ میں نے آرڈر دے دیا۔ چار یا پانچ دن بعد ایک چھوٹی سی کورئیر کمپنی جس کا نشان تو ایک طاقتور جانور کا ہے مگر وہ ایک کمزور کمپنی ہے جب کہ اس کمپنی کاکردار جانوروں والا ہی ہے، کا ملازم میرے پاس ایک لفافہ لے کر آیا کہ آپ کے آرڈر کے مطابق آپ کا سامان آیا ہے ۔سامان پکڑیں اور جلدی سے پیسے دے دیں۔ مجھے یاد آیاکہ میں نے تو ایک گتے والے باکس کا آرڈر کیا تھا جس میں بیس اوزار نما چیزیں تھیں۔ اس ڈھیلے ڈھالے لفافے کا کیا کام۔ میں نے ہلکا سا لفافے کی ایک سائڈ کو کھول کر دیکھا، کوئی پرانا سا کپڑا تھا۔ میں نے وہ لفافہ واپس کر دیا۔ پہلے میرا خیال تھاکہ اس کورئیر والے اور دوسرا بھیجنے والے دونوں کو وکیل کے ذریعے نوٹس دوں اور انہیں اس فراڈ کرنے کا کچھ مزہ چکھاؤں مگر کچھ فرصت نہ ہونے اور کچھ لاپروائی کے سبب یہ کام نہ کر سکا۔اس ڈبے کا اشتہار اب بھی روز نظر آتا ہے میں اس کے نیچے کمنٹس میں فراڈ لکھ دیتا ہوں، اور کیا کروں۔ ہماری آدھی سے زیادہ قوم اسی کام میں لگی ہے۔

چین کی ایک کمپنی کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک فیکٹری ہے اور فلاں فلاں چیزیں بناتی ہے۔ اس کا ویب پیج کوئی دس بارہ صفحے کا تھا۔میں نے اسے ایک بڑا آرڈر دیا۔ مگر اس نے مکمل پیسے وصول کرنے کے بعد رابطہ ختم کر دیا۔ رقم چونکہ معقول تھی، میں اس فرم کے پتے پر چائنہ پہنچ گیا۔ فرم کے دفتر کے پتے پر ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ تھا۔ہوٹل کی مالک لڑکیاں میرے ساتھ پولیس کو دیکھ کر رونے لگیں۔ وہ کسی فرم یا اس سے متعلقہ شخص کو جانتی ہی نہ تھیں۔ فیکٹری ایڈریس پر ایک خالی پلاٹ تھا۔ بنک اکاؤنٹ والے بنک میں گئے تو پتہ چلاکہ اس بنک کو اپریٹ کرنے والا کوئی شخص سنگا پور میں رہتا ہے اور اکاؤنٹ کھولنے کے بعد آج تک واپس نہیں آیا۔ اس کی جو رقم آتی ہے وہ اپنے ڈیبٹ کارڈکے ذریعے رقم نکال لیتا ہے۔ بنک والے اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ اس کے دئیے ہوئے فون پر ایک دفعہ تو کسی نے اٹھایا، پھر وہ فون نہیں اٹھایا گیا۔وہ فون وہاں کی ڈائریکٹری میں بھی نہیں تھا۔پولیس نے سب نوٹ کر لیا۔ درج شدہ FIR کی کاپی مجھے دے دی اور کہا کہ وہ مجھ سے جلدی رابطہ کریں گے ۔چین کی پولیس نے یہ بھی یقین دلایا کہ چند دن میں ملزم قابو آ جائے گا۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں ان کے کہنے پر واپس لوٹ آیا،پندرہ سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا، سوائے FIR کے میرے ہاتھ آج تک کچھ نہیں آیا۔انٹرنیٹ پر آج بھی وہ کمپنی بڑی ڈھٹائی سے موجود ہے اور کسی شکاری کی طرح سادہ لوح لوگوں کا شکار کر رہی ہے۔

میرا جاز اکاؤنٹ بھی ہے ۔میں اس میں کبھی کبھار ضرورت کے لئے کچھ پیسے ڈالتا ہوں۔ میں نے انٹر نیٹ پر کسی سے کوئی چیز لینے کے لئے اس کو اپنا اکاؤنٹ بتا دیا۔ خیال تھا کہ جب وہ کہے گا ، اس کو دینے کے لئے اکاؤنٹ میں پیسے ڈال دوں گا۔ روٹین میں اس اکاؤنٹ میں سو یا دو سو سے زیادہ رقم نہیں ہوتی۔ اس وقت اس اکاؤنٹ میں کل 170 روپے تھے۔ چیز دینے کا وعدہ کرنے والے نے کوئی رابطہ نہ کیا مگر وہ اس قدر بھوکا تھا کہ تیسرے دن میں نے دیکھا وہ میرے 170 روپے بھی نکال لے گیا تھا۔موجودہ حالات میں آپ کے لئے بہتر یہی ہے کہ کسی حال میں بھی کسی کو اپنے کارڈ کا نمبر نہ دیں۔کیونکہ اس طرح کی فرمیں عام طور پر جعلسازی میں ملوث ہوتی ہیں اور ان کواپنی ذاتی معلومات دینا اپنے ساتھ ہی زیادتی ہے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 585 Articles with 505967 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More