یہ بیچارے ملازم

میں نے گاڑی کھڑی کی ، باہر نکلا تو پارکنگ فیس وصول کرنے کو ایک شخص موجود تھا۔پہلے اس نے ایک رسید میری طرف بڑھائی مگرمجھے دیکھ کر اس نے رسید واپس رکھ لی اور باقاعدہ رونا شروع کر دیا۔ میں نے پوچھا کہ بھائی، کیا ہوا اور تم یہاں کیسے۔اس سے پہلے کہ میں کوئی دوسرا سوال کرتا ، وہ مزید زور سے زاروقطار رونے لگا کہ فلاں صاحب ہیڈ آف ڈیپارٹیمنٹ کے طور پر آ گئے ہیں، انہوں نے ڈیپارٹمنٹ کے 22ملازمین کو نکال دیا ہے۔ مگر کیوں۔ بتانے لگا کہ وہ کہتے ہیں کہ تم لوگ عارضی ملازم ہو ۔ ہم سب کی سروس بیس سال سے پچیس سال تک ہے۔ میری اپنی سروس بھی 23 سال ہے۔اب سے پہلے کسی نے کبھی پوچھا بھی نہیں تھا۔ ہم تو خود کو مستقل ہی سمجھتے تھے۔ مگر یہ ابتلا پتہ نہیں کیوں ہم پر آ گئی۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، بتائیں کیا کریں۔ 23 سال یہاں گزار لئے ،ہم تو اپنی سروس کو پکا ہی جانتے تھے۔مگر یکا یک ہمیں فارغ کر دیا گیا۔کوئی وجہ ، کوئی قصور، کچھ بھی نہیں۔ بس نیا افسر آ گیا ، اس کی افسری تو ہم پہلے دن ہی سے تسلیم کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ مگر اس نے افسری کی شان دکھا دی ہے۔یہ سب لوگ ایک ایسے ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں میں نے بارہ تیرہ سال پڑھایا ہے اس لئے وہ مجھ سے کھل کر بات کر رہا تھا۔

وہ کہہ رہا تھا کہ یہی تنخواہ ہی تو ہمارا کل اثاثہ تھا۔ اب گھروں میں بھوک کے ڈیرے ہیں۔کسی مہربان نے ترس کھا کر یہاں کھڑی ہونے والی گاڑیوں سے پارکنگ وصول کرنے پر لگا دیا ہے کہ چلو کچھ تمہارے گھر کا چولہا چلتا رہے گا۔ مگر یہ اصل میں غلط ہے ۔ یہ یو نیورسٹی کی ایک کینٹین ہے، بیٹھنے والے سارے ہمارے ہی طالب علم ہیں وہ پارکنگ نہیں دیتے ،کہتے ہیں کہ یونیورسٹی میں ہم جو یہاں سٹوڈنٹ ہیں کیوں یہ ٹو کن ٹیکس دیں۔جو جانتے ہیں، انہیں رحم آ جائے یا ہماری بے بسی اور بے کسی کو جانتا ہو تو رحم کھا کر کچھ پیسے دے دیتا ہے ورنہ ہم بس اﷲکے آسرے پر ہیں۔یا اپنے سابق ڈیپارٹمنٹ کے بچوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ جو احساس کرتے ہیں اور ترس کھا کر ہی سہی ، کچھ نہ کچھ دے جاتے ہیں۔میں اور میرے بچے اور میرے جیسے ساروں کے بچے انہی برے حالات میں جی رہے ہیں۔ہم نکالے جانے والے ساروں نے پچیس سال کے قریب نوکری کی ہے ۔لوگ پچیس سال بعد پنشن کے حقدار ہو جاتے ہیں۔ مگر ہماری قسمت عجیب ہے، ہم برخاستگی کے حق دار ٹھہرے ہیں۔ ذہنی طور پر کبھی سوچا بھی نہیں تھاکہ ہم عارضی ہیں۔ اب جب سڑک پر آ گئے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ جوانی انجانے میں گزار دی۔عارضی نوکری ہی ہمارا سب کچھ تھا۔سب یہی کہتے تھے کہ اتنی سروس ہو گئی ہے ، اب کوئی تمہیں نہیں نکال سکتا۔ ، مگرکبھی انہونی ہو کر رہتی ہے، ہم نکالے جا چکے، اب نکل کر کہاں جائیں۔اب نہ تو بازوؤں میں وہ طاقت ہے اور نہ دل میں کوئی ایسا ولولہ کہ ہمت کرکے کچھ اور کر لیں۔سرمایہ بھی نہیں ہے کہ کچھ بزنس کر لیں، کوئی رہڑی ہی لگا لیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ وہ عارضی ملازم تھے۔ مگر نکالنے والوں کو اتنی سمجھ بوجھ تو ہونی چاہیے کہ جو لوگ بیس یا پچیس سال آپ کے پاس نوکری کرتے رہے ہیں، وہ اگر اب نکال دئیے جائیں تو کہاں جائیں گے۔وہ جو نوکری حاصل کرنے یا نوکری کی جدوجہد کرنے کی عمر ہے وہ تو یہ سب کے سب پوری طرح گزار چکے۔ اب انہیں نوکری سے نکالنا تو انہیں اندھے کنویں میں پھینکنے کے مترادف ہے۔جو احکام کر چکے ہیں ۔ ویسے تو اس وقت حکومت کی کوشش ہے کہ ہر محکمے میں ڈاؤن سائزنگ کرے۔محکموں پر تنخواہوں کا جو بے پناہ جوجھ ہے وہ قدرے کم ہو۔ لیکن یہ وہاں ضروری ہے جہاں بڑی بڑی تنخواہوں پر نالائق اور سفارشی بھرتی کئے گئے ہیں۔ جہاں PIA جیسی لوٹ مار ہے۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرکزی سرکاری محکمے میں گریڈ سترہ کے سو کے قریب آفیسر اس لئے نکال دئیے گئے کہ ان میں زیادہ تر کی بھرتی ایک سیاسی جماعت نے کی تھی۔ بہت سے ایسے لوگ جو خالصتاً میرٹ پربھرتی ہوئے تھے، بھی اس زد میں آ گئے۔ایک موجودہ سدا بہار وفاقی وزیر جو اس وقت بھی وزیر تھے، کا بھانجا بھی ان سفارشی لوگوں میں شامل تھا جن کی وجہ سے سب کو یہ ابتلا برداشت کرنی پڑی اور بہت سے آج بھی کر رہے ہیں۔ بھانجا صاحب کو ہفتہ پہلے ایک دوسرے محکمے میں ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا۔ چند ایسے دوسرے بھی ملازم تھے جو کسی نہ کسی وزیر یا مشیر کے عزیز و اقارب میں شمار ہوتے تھے، وہ بھی نوازے گئے ۔ بقیہ سو کے لگ بھگ لوگ اس وقت سے دھکے کھا رہے ہیں۔ کورٹ بحال کرتا ہے، ایک دو سال گزرتے ہیں تو حکومت جوش میں آتی ہے تو میرٹ اور سفارشیوں کو الگ الگ کرنے کی بجائے ، سوائے چند لاڈلوں کے جنہیں وہ پہلے ہی کسی دوسری جگہ ایڈجسٹ کرا چکے ہوتے ہیں، سب کو پھر نکال دیتی ہے۔وہ سب دھکے کھانے والے اب اٹھارہ گریڈ میں کام کرتے ہوئے ایک بار پھر نکالے ہوئے ہیں مگر بھانجا صا حب ایک محکمے میں ڈیپوٹیشن پر آج بھی بیسویں گریڈ میں کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنی بنیادی سروس پر جہاں باقی سب خوار ہو رہے ہیں، آج بھی بحال ہیں اور مزے میں ہیں۔ساری مشکلیں اور سب مصیبتیں عام آدمی کے بچوں کے لئے ہیں۔

یونیورسٹی کے یہ عارضی ملازم بھی بیچارے غریب لوگ ہیں۔ بے سہارا اور بے سفارش۔ انہیں نکالنے سے پہلے حکام کو سوچنا چائیے تھا کہ ان سب کی کل تنخواہ کسی ایک سینئر ٍبیوروکریٹ کی تنخواہ سے بھی کم ہو گی۔ان چند پروفیسروں پر بھی کچھ نظر کرم کریں جو سارا سال سیاست کرتے اور پڑھانے، جو ان کا اصل کام ہے، سے گریز کرتے ہیں۔کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر ، ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسسٹنٹ پروفیسر اور لیکچرار کی ایک خاص نسبت ہوتی ہے۔ مگر ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں بہت سے پروفیسر ، وہاں سیاست کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ ان درجہ چہارم کے ملازموں سے زیادتی کی بجائے ایک دو ہڈ حرام پروفیسروں پر نظر ڈالیں ، ان کا نکالنا کہ جو کام نہیں کرتے صرف تنخواہ وصول کرنے آتے ہیں،یونیورسٹی پر بھی احسان ہو گا۔اس ایک پروفیسر کی تنخواہ درجہ چہارم کے نکالے جانے والے بیس ، پچیس ملازمین کی مجموعی تنخواہ کے برابر ہو گی۔ کسی نا اہل کو نکالنا بھی ایک قومی خدمت سے کم نہیں۔

حکومت کوایک پالیسی بنانا چائیے کہ کسی شخص کو عارضی ملازم دو یا تین سال سے زیادہ نہیں رکھنا چائیے اور اگر وہ اتنا ہی ضروری ہے کہ نکالا نہیں جاسکتا تو دس سال بعد اس کی ملازمت خود بخود مستقل ہو جائے۔ جو دس بارہ سال ایک جگہ نوکری کر لیتا ہے وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ جاتا ہے کہ جہاں بھاگ دوڑ اور نئی نوکری کے حصول کی ہمت نہیں رہتی۔ گھریلو مسائل اور ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے میں کسی کو نوکری اور خصوصاً سرکاری نوکری سے فارغ کرنا اس کے پورے خاندان کو فاقوں اور مصیبتوں سے دو چار کرنا ہے۔دوسرا پروفیسر ایک بڑا عہدہ ہے اس کے لئے عمر کی کم از کم کچھ حد ہونی چائیے۔ کاغذات کی بنیاد پر نابالغ اگر پروفیسر بن بھی جائے تو اس کے فیصلے بالغ نہیں ہوتے اور مادر علمی کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500009 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More