حالیہ دنوں چین کے صدر شی جن پھنگ کے دورہ پیرو کے دوران
سب سے اہم واقعات میں سے ایک چنکے بندرگاہ کا افتتاح ہے۔ یہ نہ صرف ایشیا
کو لاطینی امریکہ سے جوڑنے کا گیٹ وے ہے بلکہ اس کا مقصد ایشیا بحرالکاہل
کے خطے میں یکجہتی اور تعاون کو بڑھانا بھی ہے۔پیرو میں حال ہی میں آپریشنل
ہونے والی چنکے بندرگاہ سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ اقتصادی ترقی میں
نئی تحریک پیدا کرے گی اور ایشیا بحرالکاہل میں مشترکہ خوشحالی کے حصول میں
مدد دے گی۔ اس منصوبے کو پورے خطے میں کھلے پن اور تعاون کی علامت کے طور
پر دیکھا جاتا ہے۔پیرو کے دارالحکومت لیما سے تقریباً 80 کلومیٹر شمال میں
واقع اس بندرگاہ کا باضابطہ افتتاح ایک خصوصی تقریب میں کیا گیا جس میں
چینی صدر شی جن پھنگ اور پیرو کی ان کی ہم منصب دینا بولورٹے نے ویڈیو لنک
کے ذریعے شرکت کی۔
یہ پورٹ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت ایک فلیگ شپ منصوبہ اور جنوبی
امریکہ کی پہلی اسمارٹ پورٹ ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں پیرو سے چین تک
شپنگ کا دورانیہ 23 دن تک کم ہوجائے گا ، جس سے لاجسٹکس کے اخراجات میں 20
فیصد سے زیادہ کی کمی آئے گی۔ توقع ہے کہ اس سے پیرو کے لئے 4.5 بلین
امریکی ڈالر کی سالانہ آمدنی پیدا ہوگی اور براہ راست 8000 سے زیادہ
ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
پیرو کے کسانوں، خاص طور پر چنکے کے قریب واقع ہوارل وادی کے کسانوں کا
ماننا ہے کہ بندرگاہ کے کھلنے سے انہیں بہت فائدہ ہوگا۔ہوارل پیرو میں
زراعت کا دارالحکومت کہلاتا ہے، کسانوں کے پاس تمام پھلوں اور سبزیوں کی
مصنوعات کا تقریبا 80 فیصد ہے. بندرگاہ کی بدولت زرعی مصنوعات کی نقل و حمل
میں کم وقت لگے گا جس سے کسانوں کو کم قیمت پر پیکنگ کرنے کا موقع ملتا
ہے۔زراعت سے وابستہ افراد کے لیے اسے ایک بہت بڑا فائدہ قرار دیا جا ہے۔
ماہرین کے نزدیک یہ بندرگاہ پیرو کو لاطینی امریکہ میں تجارت کے اعتبار سے
ایک نمایاں مقام پر فائز کرتی ہے اور اس پیش رفت سے درحقیقت پیرو نے صلاحیت
کے لحاظ سے چلی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ علاوہ ازیں اس بندرگاہ کی تعمیر سے
لے کر اس کی تکمیل تک جو ساڑھے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، یہ
کچھ ایسا ہے جو پیرو کی معیشت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ لہذا اس
سرمایہ کاری کا حجم اور لیما کے شمال میں بہت ساری ملازمتوں اور روزگار کے
مواقع پیدا ہونے کا امکان بھی پیرو کے لئے بہت اہم ہے۔
پیرو کی صدر بولوارٹے نے جون میں چین کا سرکاری دورہ کیا تھا اور دونوں
سربراہان مملکت نے چنکے پورٹ منصوبے کی اہمیت کو سراہا تھا کیونکہ یہ اس
وقت تکمیل کے قریب تھا۔چین کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں بولوارٹے نے
کہا کہ، چنکے بندرگاہ سے شنگھائی تک سامان کی منتقلی میں لگنے والے دورانیے
میں تقریباً 12 دن کی کمی واقع ہو گی، اور امریکہ کی مصنوعات تیز ترین
رفتار سے ایشیا پہنچ سکتی ہیں۔اسی طرح چینی صدر شی جن پھنگ نےبولوارٹے کے
ساتھ اپنی ملاقات کے دوران کہا کہ "چنکے سے شنگھائی تک" ایک بحث کا موضوع
بن گیا ہے، جو چین اور پیرو کے درمیان باہمی فائدہ مند تعاون کے وسیع
مستقبل کا اعلان کرتا ہے۔ انہوں نے اس اعتماد کا بھی اظہار کیا کہ اس سے
دونوں ممالک کے عوام کو ٹھوس بنیادوں پر فائدے اور خوشی کا مزید احساس ملے
گا۔
اسی طرح اپیک کے سی ای او سمٹ سے اپنے تحریری خطاب میں بھی شی جن پھنگ نے
واضح کیا کہ جب تک متعلقہ فریق کھلے پن اور رابطے کے جذبے پر عمل کرتے رہیں
گے، بحر الکاہل خوشحالی اور ترقی کو فروغ دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔اسی طرح
شی جن پھنگ نے بندرگاہ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "چنکے سے
شنگھائی تک، نہ صرف پیرو میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی جڑیں مضبوط ہو
رہی ہیں بلکہ نئے دور میں ایشیا اور لاطینی امریکہ کے درمیان ایک نئی زمینی
اور سمندری راہداری کے جنم کا بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
|