پروین شاکر 24نومبر ،1952 میں کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ وہ
اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں ۔ انہوں نے انگریزی ادب اور لسانیات دونوں مضامین
میں ماسٹر ڈگری حاصل کی تھی ۔اس کے علاوہ ایک ماسٹر ڈگر ی ہارورڈ یونیورسٹی
سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں بھی حاصل کی تھی ۔
سول سروسزز اختیار کرنے سےپہلے وہ نو سال تک استاد کی حیثیت سے بھی جامعہ
کراچی اور ٹرینیٹی کالج ( یو ایس اے سے منسلک )میں کام کرتی رہی تھیں ۔
١٩٨٦ میں سیکیٹری دوئم کی حیثیت سے سی بی آر اسلام آباد میں تقرر ہوا ۔
پروین شاکر کے لیے ایک انوکھا اعزاز یہ بھی تھا کہ ١٩٨٢ میں جب وہ سینٹرل
سپیرئیر سروسزز کے امتحان میں بیٹھیں تو اردو کے امتحان میں ایک سوال ان کی
ہی شاعری کے متعلق تھا ۔
پروین شاکر کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی ۔ لیکن ١٩٩٤ میں اس شادی کا
اختتام طلاق کی صورت میں ہوا ۔ وہ ایک کار کے حادثہ میں اسلام آباد میں جاں
بحق ہوئیں ۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام مراد علی ہے ۔
پروین شاکر کی شاعری اردو شاعری میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند تھی ۔
پروین نے ضمیر متکلم (صنف نازک) کا استعمال کیا جو اردو شاعری میں بہت کم
کسی دوسری شاعرہ نے کیا ہو گا ۔ پروین نے اپنی شاعری میں محبت کے صنف نازک
کے تناظر کو اجاگر کیا اور مختلف سماجی مسائل کو بھی اپنی شاعری کا موضوع
بنایا ۔ نقاد ان کی شاعری کا موازنہ فروغ فرخزاد ( ایک ایرانی شاعرہ ) کی
شاعری سے کرتے ہیں ۔
ان کی پہلی کتاب “ خوشبو “ کو آدم جی ایواڈ سے نوازا گیا ۔ بعد ازاں انہیں
پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا ۔
انکی کتابوں کے نام ترتیب وار کچھ یوں ہیں ۔
خوشبو (١٩٧٦)
سد برگ (١٩٨٠)
خود کلامی (١٩٨٠)
انکار (١٩٩٠)
ماہِ تمام (١٩٩٤)
منتخب کلام
بہت رویا وہ ہم کو یاد کرکے
ہماری زندگی برباد کرکے
پلٹ کر پھر یہیں آجایئں گے ہم
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کرکے
رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے
مگر ہاں منت صیاد کرکے
بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن
گیا ہے روح کو آباد کرکے
ہر آمر طول دینا چاہتا ہے
مقرر ظلم کی معیاد کرکے
........................
چلنے کا حوصلہ نہیں ، رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے میری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ، ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی ، اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی ، پر شیشہ رو نے تو
شہر شہر کو میرا واقفِ حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری یہ کیا مجھ کو بحال کر دیا
|