محمد خان جونیجو کون ہیں؟ وقت نے کیسے ثابت کیا کہ آج تک پاکستان کی تاریخ میں ایسا پارلیمانی وزیر ِاعظم نہیں آیا. وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کی حقیقی وجہ "پارلیمٹ کی بالادستی کو قائم رکھنے کی کوشش تھی"۔ پاکستان کے وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو کے بارے میں بیان کرنے سے پہلے دوباتوں کا ذکر ہمیشہ اہم رہے گاجنکی وجہ سے اُن پر تنقید کر کے اُنکی شخصیت کو پس ِپُشت ڈال دیا گیا ہے۔
|
|
|
محمد خان جونیجو، ضیاء الحق، نواز شریف |
|
محمد خان جونیجو کی بحیثیت وزیر ِاعظم ِپاکستان: خصوصیات و خدمات کی پردہ داری کیوں؟
پاکستان کے وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو کے بارے میں بیان کرنے سے پہلے دوباتوں کا ذکر ہمیشہ اہم رہے گاجنکی وجہ سے اُن پر تنقید کر کے اُنکی شخصیت کو پس ِپُشت ڈال دیا گیا ہے۔ اوّل: جب وہ وزیر ِاعظم بنے اُنکی کوئی سیاسی شناخت نہیں تھی،اس لیئے جب اُنکے وزیر ِاعظم بننے کا ذکر آتا ہے تو اُنکو نامزد کرنے میں سیدشاہ مردان شاہ دوئم پیر پگاڑا کی شفقت زیر ِبحث آتی ہے۔بالکل! اور اسکے بعد یہ زیادہ غور طلب ہو نا چاہیئے کہ محترم پگاڑا صاحب نے پاکستان کیلئے ایک مخلص شخص کا نام پیش کیا تھا اور پھر وقت نے ثابت بھی کیا۔عوام نے اُنکے دور ِحکومت کو سراہا بھی، بس عوام میں جڑیں نہ ہونے کی وجہ سے آج پاکستان کی عوامی تاریخ میں وہ گُم ہو چکے ہیں۔ دوئم: اُنکی حکومت جنیوا معاہدہ میں افغان مسئلے کا مکمل حل نہیں پیش کر سکی تھی۔ اس معاہدے کے باوجود کچھ جہادی تنظیمیں نہ صرف افغانستان میں سرگرم عمل رہیں بلکہ جینوا معاہدے میں متبادل افغان حکومت کے قیام کو نظر انداز کرنے کے نتائج یوں نکلنا شروع ہوئے کہ روسی افواج کے خلاف مزاحم افغان جنگجو مجاہدین گروہوں کے درمیان پشتون اور شمالی اتحاد کے ازبک، تاجک گروہ متحد نہ ہو سکے۔بالکل: اس نقطہء سے اِنکار نہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے اِن دونوں فریقین پاکستان و افغانستان کے علاوہ دو اور فرقین امریکہ اور روس بھی وہاں بحیثیت گواہان موجود تھے۔ بلکہ معاہدے سے پہلے امریکن نمائندے پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق، فوج کی اہم قیادت اور اس معاہدے سے متعلقہ خارجہ امور کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے تھے۔دوسرا یہ کہ محمد خان جونیجو کی بُلائی ہوئی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے والی سیاسی شخصیات کی طرف سے اس معاہدے کی توثیق ہو نے کے بعد جو نیجو حکومت نے دستخط کیئے تھے تو کیا سب نہیں جانتے تھے کہ معاہدے میں " متبادل افغان حکومت کے قیام "کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ "اپنوں نے ہی جال بچھائے ہوں تو دُشمن کی کیا ضروت ہے"۔ محمد خان جونیجوکی ذاتی زندگی سے سیاسی زندگی کے سفر تک کو دیکھا جائے تو وہ ایک مخلص، دیانتدار، سچے اور باکردار شخصیت کے مالک تھے۔وزیر ِاعظم بننے سے پہلے تک اُنکی سیاسی زندگی اور حکومتی ذمہداریوں کی کوئی ایسی چھاپ نہیں تھی جسکی وجہ سے وہ کوئی صوبائی سطح تک بھی مقبول لیڈر ہوں۔تاہم،اپنے شہر سانگھڑ تک عوامی نوعیت کے چند فلاحی کاموں کی وجہ سے اُنکی ایک خاندانی پہچان تھی اوروہ پہچان بھی سندھ کی نامور شخصیت سیدشاہ مردان شاہ دوئم پیر پگاڑاکے زیر ِسایہ۔ اُنھوں نے ہی صدر جنرل ضیاء الحق کو 1985 ء کے غیر جماعتی عام انتخابات کے نتائج کے بعد وزیر ِاعظم کیلئے محمد خان جونیجو کا نام پیش کیا تھا، جسکا اعلان جب نئی حکومت کی تشکیل کے وقت کیا گیا تو ضیاء الحق کے دور سے ستائے ہوئے سیاسی رہنما ء اور اُن سے وابستگی رکھنے والی عوام کیلئے یہ نام کسی بھی دِلچسپی کا باعث نہیں تھا۔ محمد خان جونیجو کون ہیں؟ پھر وقت نے کیسے ثابت کیا کہ آج تک پاکستان کی تاریخ میں ایسا پارلیمانی وزیر ِاعظم نہیں آیا جس نے اپنی ذمہداری کو ایک آئینی عہدے کے مطابق بھرپور طریقے سے نبھانے کی کوشش کی اور اپنوں کے ہی زخموں سے چُور ہو کر دُنیا چھوڑگیا لیکن لب کُشائی بھی نہ کی۔ آج تک اُنکی حُکمرانی کی کہانی پاکستان کے اُن سیاسی دیوتاؤں کے ناموں کے نیچے دبی ہوئی ہے،جنہوں نے محمد خان جونیجو کو راستے سے ہٹا کر پھرگزشتہ36 سالوں سے پاکستان کو پٹری پر چڑھنے نہیں دیا۔ محمد خان جونیجو کے سامنے بحیثیت وزیر ِاعظم وہ کو نسے چیلنج تھے یا اُنکے دور ِحکومت میں اُنکو پیش آئے جن کے وہ سامنے ڈٹ گئے: آٹھویں ترمیم تا مارشل لاء: صدر جنرل ضیاء الحق ہر بار90 دِن کے اندر عام انتخابات کروانے کا اعلان کر کے منسوخ کر دیتے، لیکن ایم آر ڈی تحریک کے بعد جب اُنھوں نے عام انتخابات کروانے کا فیصلہ کر ہی لیا تو اُس سے پہلے اُنھوں نے اپنے حق میں صدارتی ریفرنڈم کروا کر اور آئین میں 8ویں ترمیم کا عندیہ دیکر واضح کر دیا کہ 1985 ء کے عام انتخابات غیر جماعتی ہوں گے اور انتقال اقتدار کی بجائے شراکت اقتدار کا فارمولا اپنا یا جائے گا۔ اُنھوں نے اسی بُنیا د پر اپنی مرضی سے سندھ سے منتخب قومی اسمبلی کے ایک کامیاب اُمیدوار محمد خان جونیجو کو وزیر ِاعظم منتخب کروا دیا،تاکہ شراکت اقتدار میں اُنکی پگڑی اُونچی رہے۔لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ عام سا دِکھائی دینے والے فرد اندر سے کتنی مضبوط اور اصول پرست شخصیت کا مالک ہے۔وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو نے اپنی ذمہداری سنبھالنے کے ساتھ ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ پہلے صدر جنرل ضیاء الحق کو کچھ دینا پڑے گا پھر ہی ملک کے سیاسی اور عوامی معاملات پر اپنی گرفت مضبوط کر نے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اُنھوں نے صدر کے اختیارات کے حق میں 8ویں ترمیم تو قومی اسمبلی سے منظور کروا لی لیکن اُسکے بدلے وہ اپنے اس موقف پر سخت ہو گئے کہ ملک میں جمہوری نظام کو جاری رکھنے کیلئے مارشل لاء اُٹھا لیا جائے۔جس میں وہ کامیاب ہو گئے اور ساڑھے آٹھ سال بعد ملک سے مارشل لاء اُٹھانے کا اعلان کر دیاگیا۔ معاشی سرگرمیاں اور کفایت شعاری: وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو نے اپنے اس اقدام کے بعد فورا ً معاشی ترقی کیلئے اپنے5 نکاتی پروگرام کا آغاز کردیاجسے عوام کو واقعی نظر آیا کہ ملک میں کچھ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اس دوران حکومتی سطح پر کفایت شعاری کو اپنانے کیلئے ترجیحی بُنیادوں پر وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو کی طرف سے وزیروں، اعلیٰ فوجی افسروں اور سول بیورو کریسی کے افسران کو مقامی طور پر تیار کردہ سوزکی 800 سی سی گاڑیوں کے استعمال کا پابند کردیا گیا۔ اُنھوں نے سرکاری خزانے سے نئی، بڑی اور درآمدی گاڑیوں کی خریداری کی شق ختم کر دی۔ سیاسی شخصیات کو دعوت اور متفقہ کر کے جنیوا معاہدہ: عوام ابھی اُنکے اس عمل کو بھی سراہا ہی رہی تھی کہ اسی دوران اُنھوں نے ملک بھر میں سیاسی سرگرمیوں بحال کر دیں۔ جسکی وجہ سے کچھ نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آگئیں اور ماضی کی پابند جماعتوں کے وہ رہنماء جو جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے پاکستان واپس آنا شروع ہو گئے۔جن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شام تھیں۔بلکہ افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء کیلئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو جینوا معاہدہ ہو نے جارہا تھا،اُس پر اتفاق کے رائے کیلئے وزیر ِاعظم محمدخان جونیجو نے معاہدے سے قبل آل پارٹیز کانفرنس بلا لی۔ تین روز تک وزیر اعظم ہاؤس میں جاری رہنے والی اس کانفرنس میں بے نظیر بھٹو، خان عبدالولی خان، رسول بخش پلیجو، مختلف بلوچ اور پختون قوم پرست جیسے رہنما شریک ہوئے سوائے صدر ِجنرل ضیاء الحق کے۔ ان سب کی رائے اور حمایت حاصل کر کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے اُس سے " قومی اتفاقِ رائے " قرار دیا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد وہ جنیوا روانہ ہوئے اور افغان اَمن معاہدے میں پاکستان کی شرائط شامل کروا کر اس پر دستخط کیے۔ اوجڑی کیمپ: جنیوا معاہدہ سے چار دِن پہلے10ِ اپریل 1988 کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع اوجڑی کیمپ میں بارودی ذخیرے میں دھماکوں اور جانی نقصان نے ساری دُنیا کی توجہ حاصل کر لی۔ اس پرعوامی رد عمل اور بے چینی کے سبب وزیراعظم نے اسلم خٹک کی سربراہی میں اس حادثے کے اسباب جاننے کے لیے پارلیمانی کمیٹی قائم کی۔اپنے وقت کے مشہور سابقہ وزیر و مشیر اور ضیاء الحق کے اہم ساتھی سرتاج عزیز کے مطابق کمیٹی کی رپورٹ کے حوالے سے مختلف افواہوں نے جنم لیا جن میں ضیاء الحق کے کچھ قریبی مصاحبین کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ صدر جنرل ضیاء الحق گزشتہ ساڑھے تین سال سے اپنے ہی لائے ہوئے کمزور سی سیاسی شخصیت کے مالک کومختلف داخلی و خارجی معاملات اپنے فیصلوں کے بر خلاف جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔جن میں فوجی افسران کی سول انتظامیہ سے واپسی، جنرل اسلم بیگ کو وائس چیف آف اَرمی اسٹاف مقرر کرنا اور جنیوا معاہدے سے کچھ ماہ پہلے وزیر ِخارجہ صاحب زادہ یعقوب خان سے اُنکا قلمدان واپس لینا شامل تھے۔دوسری طرف پنجاب کے المعروف " اتفاق فاونڈرئیز" کے مالک اور وزیر ِاعلیٰ پنجاب میاں نوز شریف سے صدر جنرل ضیاء الحق کے قریبی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے ہوئے نہیں تھے اور نواز شریف کے محمد خان جونیجو سے اختلافات عیاں تھے۔لہذا فوجی و سویلین محلاتی سازشوں کا ایک مکمل گروہ کسی بھی ایسے موقعہ کی تلاش میں تھا جسکا وار محمد خان جونیجو پر پڑ سکے اور پھر اوجڑی کیمپ کی رپورٹ اور جنیوا معاہدے سے صدر جنرل ضیاء الحق کا اختلاف اُنکو اُس موڑ پر لے آیا جہاں اُنھوں نے 8ویں ترمیم کے تحت اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہو ئے کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی اور وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو،اُنکی کابینہ کو برطرف کر دیا اور قومی و صوبائی اسمبلیاں توڑ کر ملک میں نگران حکومت بنا دی۔دِلچسپ یہ تھا کہ پنجاب کا نگران وزیر ِاعلیٰ میاں نواز شریف کو ہی بنایا گیا جبکہ وفاق میں کوئی نگران وزیر ِاعظم نامزد نہ کیا گیا۔ حیران کُن یہ تھا کہ برطرفی کے وقت محمد خان جونیجو اوراُنکی حکومت پر جو رشوت کی بڑھتی ہوئی گر م بازاری، امن عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور نفاذ ِاسلام میں سست روی اور کوتاہی جیسے الزامات لگائے گئے تھے، وہ کیا ثابت ہونے تھے کیونکہ ہر کوئی محمد خان جونیجو کی دیانتداری کی مثال دیتا تھا۔تاہم، جنہوں اُنکے دور میں کچھ ایسا کرنے کی کوشش کی بھی تو وہ نگران حکومت میں دوبارہ شامل نظر آئے۔لہذا وزیر ِاعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی کی حقیقی وجہ "پارلیمٹ کی بالادستی کو قائم رکھنے کی کوشش تھی"۔ آخر میں یہ کہنے سے کیسا گریز! کہ محمد خان جونیجو کی حکومت سے رخصتی کے بعد مسلم لیگ پر ان کی تنظیمی گرفت ڈھیلی ہو گئی تھی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نواز شریف کے حمایتیوں نے فدا محمد خان کی قیادت میں اپنا علیحدہ گروپ قائم کر لیا تھااورعام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل دونوں گروپوں میں میں اتفاق رائے بھی ہوگیا تھا، مگر محمد خان جونیجو بتدریج پس منظر میں جاتے گئے۔ سنہ 1990ء کے انتخابات کے بعد نواز شریف وزیراعظم بن گئے اور اپریل 1993 میں محمد خان جونیجو کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی صدارت نواز شریف کے حصے میں آ گئی۔ مشرقی پاکستان کی علحیدگی سے کسی نے کچھ نہ سیکھا اوریہی تھا وہ کھیل جس میں مخلصی آڑے آگئی اور "طاقت کا سر چشمہ، پاکستانی عوام " ملکی سیاست سے نِکل کر آج تک مزید صوبائی،علاقائی اور شہری سطح تک محدود رہ گئی۔"اب پیسہ،کرپشن،اور لارڈ اِزم کا ڈنکا عروج پر ہے"۔
|