اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام فوڈ ویسٹ انڈیکس رپورٹ
2024 کے مطابق 2022 میں دنیا نے 1.05 بلین ٹن خوراک ضائع کی۔ یہ صارفین کو
دستیاب خوراک کا 19 فیصد ہے ، جس میں خوردہ ، فوڈ سروس اور گھریلو سطح پر
خوراک کا ضیاع شامل ہے۔ مزید برآں، اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر
آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ فصل کی کٹائی کے بعد کے مراحل سے لے کر ریٹیل
پوائنٹ تک سپلائی چین میں اضافی 13 فیصد خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔
اس ضمن میں ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کے طور پر چین نے خوراک کے نقصان اور
ضیاع کو کم کرنے کے لئے ایک ایکشن پلان کا اعلان کیا ہے ، جس کا مقصد 2027
کے آخر تک زیادہ مضبوط طویل مدتی میکانزم قائم کرنا ہے۔کمیونسٹ پارٹی آف
چائنا کی مرکزی کمیٹی اور ریاستی کونسل کے جنرل دفاتر کی جانب سے پیش کیے
جانے والے منصوبے کے مطابق خوراک کے نقصان اور ضیاع کے اعداد و شمار کے
نظام، معیارات اور اشاریوں کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔
اناج اور خوراک کی پیداوار، اسٹوریج، نقل و حمل اور پروسیسنگ کے دوران
نقصان کی شرح 2027 کے اختتام تک اوسط بین الاقوامی سطح سے کم ہو جائے
گی۔دریں اثنا، کیٹرنگ انڈسٹری، سرکاری کینٹین، اسکول کینٹین اور انٹرپرائز
کینٹین میں فی کس کھانے کے ضیاع میں نمایاں کمی آئے گی، اور کھانے کے نقصان
کو مؤثر طریقے سے روکا جائے گا۔اس منصوبے میں خوراک کے ضیاع اور نقصان کو
کم کرنے کے اہم کاموں کی فہرست مرتب کی گئی ہے، جن میں خوراک کی بچت کے
بارے میں قومی شعور کو بڑھانا، کیٹرنگ انڈسٹری کے ساتھ ساتھ سرکاری
کینٹینوں میں ضیاع کے خلاف اقدامات، اور خوراک کے نقصان اور ضیاع کے اعداد
و شمار کو مضبوط بنانا شامل ہے۔
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور زرعی مصنوعات کی پیداوار کے لحاظ سے
بھی دنیا میں نمایاں مقام پر فائز ہے لیکن اس کے باوجود ملک کی کوشش ہے کہ
خوراک کے ضیاع اور نقصان کو کم سے کم کیا جائے۔ملک میں اناج کی پیداوار کئی
سالوں سے مسلسل 650 ارب کلو گرام سے زائد چلی آ رہی ہے ، لیکن خوراک میں
خودکفالت کے باوجود چینی صدر شی جن پھنگ نے ہمیشہ ہدایات جاری کیں کہ ملک
بھر میں کھانے کے ضیاع کو روکا جائے اور کفایت شعاری کو فروغ دیا
جائے۔انہوں نے کھانے کے ضیاع کو افسوسناک اور پریشان کن قرار دیا۔صدر شی نے
واضح کیا کہ اگرچہ ملک میں فصلوں کی بہترین پیداوار ہوئی ہے مگر پھر بھی یہ
لازم ہے کہ خوراک کے تحفظ سے وابستہ بحران سے آگاہ رہا جائے۔
یہ بات اہم ہے کہ چینی صدر نے کھانے کے ضیاع کو روکنے کے لیے قانون سازی کی
مضبوطی اور نگرانی پر زور دیا اور ایک ایسے دیرپا لائحہ عمل کی تشکیل کی
ہدایت کی جس سے کھانے کے ضیاع کو روکا جا سکے۔اس ضمن میں خوارک کے تحفظ کے
لیے عوام میں شعور بیدار کرنا، ،کفایت شعاری کو فروغ دینا اور ایک ایسا
کلچر متعارف کروانا جس میں لوگ کھانے کے ضیاع کو باعث شرمندگی اور کھانے کے
تحفظ میں فخر محسوس کریں ،کو اہمیت حاصل رہے گی۔
چینی صدر نے کئی مواقع پر خوراک کے تحفظ پر زور دیا ہے۔2013 میں انہوں نے
چینی سماج پر زور دیا کہ کھانے ضائع کرنے کی عادات کی حوصلہ شکنی کی
جائے۔چینی شہریوں نے بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری نبھائی اور باقاعدہ ایک
مہم "اپنی پلیٹ صاف کریں" شروع کی گئی جسے عوام میں بہت مقبولیت
ملی۔ریستورانوں نے بھی کھانے کے آرڈرز میں اس بات کو لازمی بنایا کہ
صارفین آغاز میں کھانے کی نصف مقدار آرڈر کریں تاکہ کھانا ضائع نہ
ہو۔اعداد و شمار کے مطابق چین میں سالانہ سترہ سے اٹھارہ ملین ٹن کھانا
ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ بڑے شہروں میں تو یہ مقدار تیس سے پچاس ملین ٹن
سالانہ ہے۔سال 2015 میں کیے جانے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ
چین میں ضائع کردہ کھانوں میں سبزیاں ،چاول ،نوڈلز اور گوشت شامل ہیں۔ہر
صارف ایک کھانے میں 93 گرام کھانا ضائع کرتا ہے جبکہ اسکول کیفے ٹیریاز اور
بڑے ریستورانوں میں نسبتاً زیادہ کھانا ضائع ہوتا ہے۔
اگر عالمی سطح پر جائزہ لیا جائے تو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و
زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پیدا ہونے والے اناج کا ایک تہائی ضائع
کر دیا جاتا ہے ۔اگر اس رحجان کو روکا نہ گیا تو 2030 تک ضائع کردہ کھانے
کی مقدار 02 ارب ٹن سے تجاوز کر جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کھانے
کے ضیاع کو روکنے کے لیے باربار اپیل کر رہی ہے تاکہ کروڑوں لوگوں کو غذائی
قلت سے بچایا جا سکے۔
یہ بات قابل تحسین ہے کہ چین کا آئین بھی خوراک کے تحفظ کی ضمانت فراہم
کرتا ہے۔چین کا زرعی قانون شہریوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ کھانے کا تحفظ
کریں جبکہ ماحولیاتی قانون ،صارفی حقوق کے تحفظ کا قانون اور خوراک کے تحفظ
کا قانون بھی اناج کے وسائل کے ضیاع کو روکتا ہےاور ماحولیاتی تحفظ کی
حمایت کرتا ہے۔چین اپنے شہریوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور
اجتماعی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے کھانےکے ضیاع سے اجتناب کریں جس سے
کروڑوں دیگر افراد کا بھلا ہو سکتا ہے۔
|