کوشش کریں کہ اپنی سب سے بڑی بیٹی یا بہن کا رشتہ کسی
ایسے لڑکے کے ساتھ طے نہ کریں جو گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہو یا کئی بہنوں کا
اکلوتا بھائی ہو ۔ ایسا لڑکا اپنے گھر والوں کی امیدوں کا واحد مرکز ہوتا
ہے ۔ اس پر عائد ذمہ داریوں کے ساتھ یہ بھی اس کا اخلاقی فرض ہوتا ہے کہ
بہنوں سے پہلے خود اپنی شادی کے بارے میں خواب میں بھی نہ سوچے ۔ پھر جب
بالآخر اس کی باری آ جاتی ہے تو اس کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی ایک امتحان
سے گزرنا پڑتا ہے ۔ عام طور پر حسد جلن لگائی بجھائی سازشوں تلخیوں اور
کشیدگیوں کا ایک بازار گرم ہو جاتا ہے ۔ بیاہتا بیٹیاں نئے نویلے جوڑے پر
چیل کی سی نظر رکھتی ہیں اور ماں کے کان بھرتی ہیں ۔ لڑکی کا بیک گراؤنڈ
اگر مضبوط ہے اور وہ خود بھی دلیر و پُر اعتماد ہے تو ساس نندوں کی نکتہ
چینیوں اور طعن و تشنیع کو زیادہ خاطر میں نہیں لاتی اور بوقت ضرورت ان کا
ڈٹ کے مقابلہ کرتی ہے وہ کسی بڑے تصادم یا شادی ٹوٹنے سے نہیں ڈرتی ۔
لیکن لڑکی اگر کم حیثیت گھرانے کی ہے اور اوپر سے سب سے بڑی بیٹی ہے تو
اپنے والدین کی عزت اور چھوٹے بہن بھائیوں کے مستقبل کی خاطر سسرال کی طرف
سے ہونے والی ہر زیادتی ناانصافی کو صبر و شکر کے ساتھ سہتی ہے ۔ وہ اس کی
مجبوریوں کمزوریوں کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں ہر سطح پر اس کا استحصال کرتے
ہیں ۔ لڑکی طلاق کے خوف سے اپنی زندگی کا بہترین دور بلیک میل ہوتے ہوئے
گزارتی ہے وہ قربانی دیتی ہے تاکہ اس کی ناکام شادی اس کے باقی کے بھائی
بہنوں کی ساکھ پر اثر انداز نہ ہو انہیں سماجی طور سے رسوائی اور ہزیمت کا
سامنا نہ کرنا پڑے ۔ اور لڑکیوں کے ساتھ سسرال میں مسلسل منفی، غیر منصفانہ
اور جارحانہ برتاؤ اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ شوہر انہیں سپورٹ نہیں کرتا ان کے
لئے سٹینڈ نہیں لیتا اُس میں اتنی ہمت اور بصیرت ہوتی ہی نہیں ۔ وہ
تعلیمیافتہ ذہین اور ذمہ دار ہونے کے باوجود گھریلو سیاست کے داؤ پیچ
سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے ۔ ماں کے بارے میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ
کہیں غلط بھی ہو سکتی ہے ۔ بیاہتا بہنوں کی سازشیں اور سیان پتیاں اس کے سر
پر سے گزر جاتی ہیں ۔ اُنہی کے جھرمٹ میں وہ پلا بڑھا ہوتا ہے محبت کے ساتھ
ساتھ عقیدت سے بھی چُور ہوتا ہے ۔ وہ کب اُن کی ملکیت کا درجہ اختیار کر
گیا اس کا پتہ تب چلتا ہے جب کوئی لڑکی اس کے نکاح میں آتی ہے اس کے وقت
اور وسائل میں حصہ دار بنتی ہے ۔ اور سب کو لگنے لگتا ہے کہ ہمارا بچہ ہم
سے چھن گیا ایک محاذ آرائی کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ جس میں ایک دبنگ بہو تو
پھر بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑ لیتی ہے سسرالی چیلنجوں سے نمٹ لیتی ہے مگر
کمزور بیک گراؤنڈ رکھنے والی اور اوپر سے شوہر کی سپورٹ سے محروم لڑکی لڑے
بغیر ہی ہتھیار ڈال دیتی ہے ۔ اور اپنی زندگی اُن لوگوں سے ڈرنے میں گزار
دیتی ہے جو خود خدا سے بھی نہیں ڈرتے ۔
چلتے چلتے ایک قصہ سن لیں ۔ نو عمری میں ہی یتیم ہو جانے والا ایک اوور سیز
شخص چھ بہنوں کا اکلوتا اور سب سے بڑا بھائی تھا ۔ دو بہنوں کی شادی کے بعد
اس کی بھی شادی ہوئی ۔ اس لئے نہیں کہ اُسے بیوی کی ضرورت تھی بلکہ اس لئے
کہ اس کی ماں بہنوں کو اپنی خدمت کے لئے ایک باندی کی ضرورت تھی ۔ اور کوئی
ٹکر کی لڑکی تو ان کے قابو میں آتی نہیں ، لہٰذا ایک بہت غریب مسکین گھرانے
کی آٹھ بہنوں میں سے سب سے بڑی لڑکی کا انتخاب کیا گیا ۔ اور پھر شادی کے
بعد اس کا مجازی خدا تیس سالوں میں تیس مہینے بھی اپنی منکوحہ کے ساتھ نہیں
رہا کبھی پاس نہیں بلایا ۔ بس دو تین سال بعد ایک ڈیڑھ مہینے کے لئے آتا
تھا ۔ پھر عمر اور صحت کی پونجی گنوا کر مستقل واپس آ گیا اور ایک روز دنیا
سے چل بسا ۔
جنازے پر اس کی ماں اپنا سینہ پیٹ کر کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ میں چالیس سال پہلے
بیوہ نہیں ہوئی تھی میں آج بیوہ ہوئی ہوں ۔
بھائی بھابھی کا خون چوس لینے والی بہنیں کہہ رہی تھیں آج ہم یتیم ہو گئے
آج ہمارا باپ چلا گیا ۔
اور رہی اس کی بے اولاد بیوی تو اُسے بھلا کیا فرق پڑنا تھا ۔ تیس سال میں
تیس مہینے بھی اپنے مجازی خدا کے ساتھ نہ گزارنے والی نام نہاد سہاگن ۔
تو بس اپنی بچی کو اپنے سے اونچے کسی ایسے گھر میں نہ بیاہیں جہاں اس کا
خاوند یا تو بڑا بیٹا ہے یا اکلوتا ہے اور پورے پریوار کا واحد کفیل ہے ۔
ایسا شخص خود تو قربانی کا بکرا ہوتا ہی ہے مگر بعد میں بیوی کو بھی اس کار
خیر میں شریک کر لیتا ہے اور پوری جوانی اپنے خونی رشتوں کو اپنی فیملی
لائف کی قیمت پر خوش کرنے کی کوششوں میں گزار دیتا ہے ۔
|