انسان بھی کمال چیز ہے۔ کبھی کبھی ڈرپوک اتنا کہ ایک مچھر
سے ڈر جائے اور دلیر اتنا کہ خدا سے لڑائی لینے سے بھی باز نہیں آتا۔ ساری
زندگی کی جمع پونجی لگا کے یورپ میں گوریاں دیکھنے جاتا ہے اور مذہبی اتنا
کہ یورپ کے ساحلوں پر نماز پڑھنے کیلئے جگہ تلاش کر رہا ہوتا۔ غصیلہ اتنا
ہے کہ سگی بیوی کو بیٹھے بٹھائے تین نہیں آٹھ دس طلاقیں دے دیتا ہے اور پھر
اللہ رسول کی قسمیں کھا کھا کے کہتا پھرتا ہے کہ میں نے ایک دی تھی۔ مذہبی
اتنا کہ دوسرے فرقہ کی مسجد میں قدم رکھنے کو تیار نہیں لیکن اپنی ذات کو
بچانے کیلئے ہر کسی سے شرعی رہنمائی لینا کوئی حرج ہی نہیں لگتا۔
مسجد خدا کا گھر ہے یہ ہم سب کا ماننا ہے لیکن چند لاکھ روپے چندہ دینے کے
بعد ساری دنیا کو بتا رہے ہوتے کہ ایہہ مسجد میں بنائی اے۔ مایوں،مہندی،منہ
دکھائی،جوتاچھپائی،ڈھولک،بینڈ باجے،میوزیکل نائٹ،مہنگے لباس، میک اپ اور
ڈانسروں پر لاکھوں روپے لٹانے کے بعد بوقت حق مہر مولوی صاحب کو بول رہے
ہوتے جو شرعی ہے وہ لکھ لیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ تو جمہوریت تندرست ملتی ہے نہ اسلام۔ ہر کسی
کی اپنی تحقیق اوراپنی ڈگر ہے کل تک راگ الاپتے تھے کہ جس گھر میں ٹی وی
ہوگا وہاں ہم نہیں جائیں گے اور اب کٹر مولانا بھی فرما رہے ہوتے میرے چینل
کو سبسکرائب کریں اور گھنٹی کا بٹن دبانا نہ بھولیں۔ قوم کو دینی تعلیم
حاصل کرنے کیلئے رات بھر درس دینے والے مولانا سے پوچھیں کہ آپ کا بیٹا کیا
کرتا ہے تو جواب ملتا ہے فلاں ادارہ میں کمپیوٹرسائنسز۔ پانی ملا دودھ
بیچنے والا گوالا بھی دن کا آغاز اونچی آواز میں دکان پر تلاوت لگا کے کرتا
ہے ۔
عجیب آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والا محاورہ بنے ہوئے ہیں۔ کبھی ایک شخص کے
قتل پر پورے ملک میں ہنگامے اور کبھی سو سو بندہ مارا جاتا کسی کے کان پر
جوں تک نہیں رینگتی۔ کبھی فلسطینیوں سے محبت اتنی دماغ کو چڑھتی ہے کہ پورا
پورا ہفتہ تقریبات ختم نہیں ہوتیں اور کبھی ایسا منہ موڑتے ہیں کہ جو نام
لے اس کو بھی دھر لیا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ بارات لیکر جاتے وقت دلہا کو
سب سے پہلے سجدہ شکر ادا کرنے کیلئے مسجد میں لایا جاتا تھا اب پارلر سے
سیدھا لڑکی والوں کے گھر پہنچایاجاتا ہے تاکہ چہرے پر ٨٠ ہزار سے جو نور
پیدا ہوا ہے وہ کہیں مدھم نہ ہوجائے۔
ہر گلی میں مسجد بلکہ کچھ مقامات پر ایک گلی میں دو دو مسجدیں موجود ہیں
لیکن نمازی ندارد۔ شاید اسی لیے اب ڈیکوریشن والی مسجدوں میں دلہا دلہن کا
فوٹؤشوٹ کروایا جاتا ہے تاکہ مسجد کے خرچے پورے کیے جائیں۔ قرآن رب کا کلام
ہے اور ہم کو اتنا ادب ہے کہ عدالت میں جج صاحب نے رکھا ہوتا کہ اس پر ہاتھ
رکھ کے حلف دو کہ سچ بولو گے، کاش کوئی جج صاحب کے سامنے بھی ان کی مقدس
کتاب رکھ دے کہ آپ بھی حلف دو کہ انصاف کرو گے۔
تعلیمی اداروں میں ڈانس، میوزک اور ڈرامہ کی تربیت تو دی جاتی ہے کیا انسان
بننے کی تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے گا؟ جواب ملا تعلیمی اداروں میں بچے
آتے ہی کتنے دن ہیں؟ سموگ آجائے تو چھٹی، گرمی بڑھ جائے تو چھٹی، بارش
آجائے تو چھٹی، سردی آجائے تو چھٹی، الیکشن آجائے تو چھٹی، احتجاج ہوجائے
تو چھٹی، دھند پڑ جائے تو چھٹی، وزیر اعظم کا موڈ اچھا ہوتو پھر چھٹی، موڈ
خراب ہوجائے تو پھر چھٹی، مردم شماری آجائے تو چھٹی، کبھی اساتذہ پولیو کے
قطرے پلانے گئے تو چھٹی، کبھی بیلٹ باکس لینے گئے تو چھٹی، کبھی سیاسی جلسہ
میں حاضری دینے گئے تو چھٹی، اب پڑھائی کیلئے کب وقت ملتا ہے اس لیے ڈانس،
ڈرامہ سکھایا جاتا ہے کہ تمہارے حکمران بھی دن رات ڈرامے کرنے میں لگے ہیں
تم بھی ابھی سیکھ لو تاکہ وقت آنے پر دیکھ سکو کہ سب سے بڑا ڈرامہ باز کون
ہے ؟ اورڈانس اس لیے سکھا رہے کہ لیڈروں کے آگے ناچنے کاموقع ملے تو
شرمندگی نہ اٹھانی پڑے اور اگر خود بڑے افسر لگ گئے تو عوام کو تگنی کا ناچ
نچوانے میں دقت نہ ہو۔
|