خالص غیر روایتی کالم

عرض کرتے چلیں کہ چھٹے سیمسٹر کے امتحانات سر پر ہیں مگر ہمارے ہاں بے فکری ہے اور دل ناتواں اب سیمسٹر کی کورس اسٹڈی ختم ہونے کے بعد کالم لکھنے کی ٹھانے ہوئے ہے۔ ایک بات کی وضاحت کرتے چلیں کہ امتحانات دوسروں کے سروں پر ہونگے اس بندے کے نہیں! ہم جو آنے سے لیکر جانے تک، ابتداء سے انتہاء تک، زوال سے عروج یا عروج سے زوال تک، روتے ہوئے آنے سے رلاتے ہوئے جانے تک یعنی پیدائش سے موت تک کے درمیان جو عرصہ ہوتا ہے جسے زندگی کہتے ہیں' سارے کے سارے کو امتحان ہی سمجھتے ہیں تو پھر یہ پرچے کیا جگہ پائیں گے؟ ہماری بدقسمتی سمجھیں کہ سائینسی مضامین کے طالب علم کی حیثیت سے یونیورسٹیوں میں داخل ہیں مگر آخری سالوں تک پہنچتے پہنچتے ہمارا نقظہ عروج محض یہی ہر کچھ ماہ بعد لئے جانے والے امتحانات ہی تو ہوتے ہیں! ان امتحانات سے ہم کیا حاصل کرتے ہیں؟ دراصل ایک کلاس جو باہر نکلے اور جاکر برطانوی راج کی روایت کو تازگی بخشنے میں مدد کرے۔ سب نوکر بنیں اور پھر ہر طرح کے ناجائز کام کو جائر کریں۔ قابلیت جائے تیل لینے کیونکہ وہ حاصل ہی کب کی گئی تھی اداروں میں سے؟ رشوت، ناجائزی، اقربا پروری، بداخلاقی اور ظلم کا بازار گرم رہے! یہ تعلیم کیا اسطرح کے رویے لوگوں میں پیدا کرتی ہے؟ جی نہیں تعلیم کبھی اسطرح کے لوگوں کی کلاس پیدا نہیں کرتی۔ تعلیم اگر واقعاً ملتی تو اسطرح کی حالت مملکت خدادا میں نہ ہوتی! ہم اپنی صورتحال بتائیں تو شرم آجاتی ہے۔ ادارے ہر سال سائینسی مضامین میں ہی درجنوں کے اعتبار سے لشکر کشی کررہے ہیں مگر حاصل حصول کچھ بھی نہیں۔ ہم بھی تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد کے ریوڑ میں شامل ہو کر داخل ہوئے تھے اور اب کسی قسم کی ساکھ رکھنے والا باہر کا ادارہ ہماری جانچ پڑتال کرے تو دنگ رہ جائے کہ تین تین سال تک کس طرح سے کوئی بغیر قابلیت اور استعداد کے ایسے اداروں میں (Survive) کررہا ہے؟ نہ پوچھئے کہ کیا حالات ہیں؟ ہم جیسے جو کچھ گہری نگاہ کرسکتے ہیں حیران رہ جاتے ہیں کہ آخر یہ کونسے گناہوں کی سزا ہمیں اس تعلیمی نظام سے گزار کر دی جارہی ہے؟ ہمارے دوست یعنی بچے من کے سچے نمبروں کے حصول میں خوش ہیں اور سدا خوش رہنے کی شنید ہے کہ یہ تقلیدی کلچر جو پہلی جماعت سے شروع ہوتا ہے اب فطرت میں سماں چکا۔ ہم جیسے جن کے ہاں دولت کی کوئی ریل پیل بھی نہیں نہ کوئی جائیداد وغیرہ پتہ نہیں کس آسرے پر اس فضول قسم کے تعلیمی نظام سے مستفید ہونے کی توقع لگائے بیٹھے ہیں؟ ہمارے ہم عصر بھی موج میں ہیں کہ فرماتے ہیں کہ چھوڑو یہ بکواس بس کسی طرح سیٹ ہو جائیں باقی ملک کے غم میں نہ مرو کیونکہ دوسرے ممالک وہاں کے ہیومن کیپٹل یعنی سائینسیدان، انٹلیجنشیا اور پروفیشنلز سے چلتے ہیں اور کرہ ارض پر شاید ہمارا واحد ایک ہے جو کسی خلائی مخلوق کی مہربانیوں سے چل رہا ہے۔ سو حمزہ زیادہ سوچا نہ کرو، اتنا نہ پڑھا کرو فضول "کیمسٹری کے علاؤہ"۔ اور ہاں یہ آرٹیکل وغیرہ کیا لکھتے ہو؟ اتنا فضول وقت ہے تمہارے پاس! لکھتے ہو تو ہمیں بھی زد میں لیتے ہو! آؤ کلاس لو، لیب اٹینڈ کرو اور ہاں رٹے سے کام چلے گا۔ ساتھ یہ بھی کہ سموسہ گول کینٹین کا اچھا ہے کیونکہ مصالحہ صحیح سے بھرتے ہیں! باقی مستقبل کی فکر تم بھی مت کیا کرو۔ اچھی جی پی اے ہے اور انگریزی بھی مناسب بول لیتے ہو' کم از کم کمیشن سے لیکچرار تو بن ہی جاؤ گے۔ پھر مزے ہیں مرضی سے آئیں گے جائیں گے روب دبدبہ، موڈ ہوگا تو کلاس لینگے نہیں تو کیا ضرورت؟ اچھی سیلری، گاڑی اور گھر! یہ ہے ہمارے ہاں کے ٹاپرز کی سوچ! کہاں سے آئی گی پھر روشن خیالی اس گلشن میں؟

پھر جب ہم عاقلوں سے سنتے ہیں کہ دنیاوی ترقی کے پیچھے جو راز ہے وہ مادے کو سمجھنے کے قوانین اور اس بارے حقائق اکٹھے کرنا (سائینس) اور ان کو استعمال میں لاتے ہوئے انسان ذات کی بھلائی کے لئے جدید طرز اختیار کرنا (ٹیکنالوجی) میں پنہاں ہے تو دل کرتا ہے کہ کسی کونے میں جاکر منہ چھپا لیا جائے کیونکہ اگر یہ حقیقت ہے اور واقعتاً یہ حقیقت ہے تو ہم پتہ نہیں اپنے جوانی کے قیمتی سالوں میں کس قسم کی ٹامک ٹوئیاں مارے جارہے ہیں اور ارد گرد میں موجود توقعات کا سمندر اور پریشان کردیتا ہے کہ کس راستے پر گامزن ہوچکے ہیں؟ خیال آتا ہے کہ کسی مغربی ملک میں ہوتے تو اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کررہے ہوتے اور ساتھ شاموں کو اکثر جو بے چینی ہوتی ہے اسکا بھی تدارک ہوجاتا۔

یوں تو اکیڈمک سال تیسرا پورا ہونے کو ہے مگر حاصل حصول کوئی خاص نہیں! فرق صرف اتنا آیا ہے کہ جو موٹی باتیں ہمیں کچھ سال پہلے درمیانی جماعتوں میں سمجھ نہیں آتی تھیں وہ کچھ حد تک پتلی ہوچکی ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ابھی بہت کچھ ہے جو پڑھنا باقی ہے اور سب سے اہم تو ہے کڑھنا جو باقی ہے۔ کیمسٹری سبجیکٹ کے علاؤہ ویسے ہمیں کوئی دوسرا ٹھکانا بھی اب تک نظر نہیں آیا۔ اکثر نجی محفلوں میں کہہ چکے کہ کوئی چلتا پھرتا مارٹ، اسٹور یا فیکٹری ہمارے حوالے کر دی جائے اور کنسلٹنسی کی سہولت بھی گویا میسر ہو مگر اسے ہم تیسرے دن ڈیفالٹ کے دہانے پر لیجانے کی پوری صلاحیت و قوت رکھتے ہیں۔ سبجیکٹ جس کے علم کے ہم طالب ہیں وہ مکمل طرح سے خالص سائینسی اور تکنیکی ذہن کے حامل لوگوں کا متمنی ہے اور وہاں کا ہوتے ہوئے اگر کوئی فلسفہ، سیاست، سماج، ادب کے میدانوں میں بھی یکساں طور پر منفرد انداز میں جستجو سے آگے بڑھ رہا ہے تو وہ یقیناً کوئی غیر معمولی اہمیت کا حامل انسان ہی ہوسکتا ہے! اعتراف کریں کہ ہم اس کوشش میں ہیں کیونکہ ہم بغیر دلیل کے کوئی بھی بات ماننے کو انسان کو حاصل عظیم صلاحیتوں کی توہین سمجھتے ہیں اور ساتھ اس رویے کو بھی پسند کرتے ہیں کہ آدمی بیشک سائینس کی وادیوں کا اثیر ہو مگر وہ ترقی پسند، باشعور اور تنقیدی سوچ کا حامل بھی ہونا چاہیے کیونکہ آپ معاشرے اور سماج سے کٹ کر یا اسکے مسائل کو نظر انداز کرکے کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں؟ آسمانوں سے یہی التجا ہوتی ہے کہ تمام معاملات بارے آگاہی رہے اور تضاد جتنا کم محسوس ہو اتنا کرم ہوگا کہ اس سے آگے بڑھنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہوگی۔

اپنے مضمون سے ہٹ کر جب باہر کی طرف صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو سب سے زیادہ غور اپنے ملک کی حالت و زار کا ہوتا ہے اور سوچتے ہیں کہ کہاں سے چلے تھے اور کیوں بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں؟ سن سینتالیس سے آج تک کی "اصل تاریخ" کو مختلف ذریعوں سے سمجھ چکے اور باوصف لوگوں کا جو لوگ اس ملک کے ساتھ ساتھ بڑے ہوئے ہیں نقطہ نظر سن اور پڑھ چکے ہیں۔ عجیب سی کیفیت اب تو محسوس ہوتی ہے کہ کس حالت میں آچکے ہیں اور آگے کا اب کیا بنے گا؟ ایسی صورتحال میں اگر کوئی باشعور شخص سب سے الگ تھلگ رہ کر محض ایک ڈگری اور ایک نوکری کی جستجو میں ہے تو یا تو وہ بیزار ہے یا معاشی اعتبار سے پریشان! یہ قطعاً خیال نہیں ہے کہ ڈگری اور نوکری کا حصول کوئی عیب ہیں مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ اگر ان دونوں کے حصول میں یہ فکر اور خیال بھی شامل ہو کہ مملکت کو بہتر بنانے کے لئے جو کچھ ہم سے ہوسکتا ہے ہم کریں تو ہم آہستہ آہستہ ہی سہی اپنی راہ ہموار کریں گے اور خوب صورت مستقبل اپنی آنے والی نسلوں کو دے سکیں گے۔ اس سے الٹ اگر ہم محض اپنے آپ کا پیٹ بڑھنے، اپنے بچوں کو تعلیم دلانے، اور سکون کی زندگی کے لئے کوشش کریں گے تو وہ تو ہم غیر قانونی اور غیر منطقی راستوں سے ہی سہی کئے ہی چلے جارہے ہیں۔

دوسری مرتبہ لکھنے کی غرض سے کرسی پر بیٹھا تھا۔ لکھنا اور ذمہ داری سے لکھنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے اسکا اندازہ مجھے اپنے اس قلیل سفر میں ہوچکا ہے۔ یہاں تک آتے آتے ہم بہت کچھ دیکھ چکے ہیں مگر اب مشکل کام کرنے اور مشکل فیصلے لینے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اب یا تو ہم وقت کا صحیح استعمال کریں یا وقت کے رحم و کرم پر رہ کر تباہی کی داستاں بن جائیں! مشکل فیصلے کس طرح لئے جاسکتے ہیں؟ سوچنا کتنا ضروری ہے اور عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ خود کو کس طرح لایعنی چیزوں سے دور رکھیں؟ یہی سوالات ذہن میں ہیں اور تلاش ہے انکے جوابات کی! جوابوں کا ملنا ہی اب اندھیری رات کے خاتمے اور روشن صبح کی شروعات کا ضامن ہوگا۔
 

Muhammad Hamza Talpur
About the Author: Muhammad Hamza Talpur Read More Articles by Muhammad Hamza Talpur: 3 Articles with 457 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.