دنیا میں پیٹنٹ کی سب سے زیادہ تعداد کے ساتھ، چین اپنے
پیٹنٹ درخواست کے معائنے کے عمل کو مسلسل تیز کر رہا ہے.چائنا انٹلیکچوئل
پراپرٹی ایڈمنسٹریشن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ایجادات کے پیٹنٹ
کے لئے ملک کا اوسط معائنے کا دورانیہ اکتوبر تک کم ہو کر 15.6 ماہ رہ گیا
ہے ۔کارکردگی کی یہ سطح ملک کے 2025 کے ہدف کے قریب پہنچ گئی ہے ، جس کا
مقصد معائنہ عمل کو 15 ماہ تک تیز کرنا ہے۔ گزشتہ سال، نظر ثانی کی مدت کو
کم کرکے 16 ماہ کر دیا گیا تھا، جو پہلے ہی امریکہ، یورپ، جاپان اور
جمہوریہ کوریا جیسی بڑی آئی پی طاقتوں کے مقابلے میں کم ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین میں 4.66 ملین مستند ایجادات کے پیٹنٹ موجود
ہیں۔ 2023 کے اواخر میں چین دنیا کا پہلا ملک بن گیا جس کے پاس 40 لاکھ سے
زائد مستند ایجادات کے پیٹنٹ ہیں۔ 2019 کے بعد سے ، یہ بین الاقوامی پیٹنٹ
درخواستوں کا معروف عالمی ذریعہ رہا ہے۔پیٹنٹ کی اجازت کے تیز رفتار عمل
ذریعے ، کاروباری ادارے فوری طور پر اپنی اختراعات کی حفاظت کرسکتے ہیں اور
حریفوں کی طرف سے نقل یا خلاف ورزی کو روک سکتے ہیں۔
چینی حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نئے تکنیکی انقلاب اور صنعتی تبدیلی
کی لہر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ، چین مصنوعی ذہانت ، جین ٹیکنالوجی
، کوانٹم انفارمیشن اور بائیومیڈیکل سائنسز جیسے جدید شعبوں میں پیٹنٹ
معائنہ کی پالیسیوں میں اضافہ جاری رکھے گا۔چین کی موثر پیٹنٹ جانچ کی
جستجو کو اس کے بین الاقوامی تعاون میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ چین نے
امریکہ، جرمنی، فرانس اور جاپان سمیت 33 ممالک اور خطوں کے ساتھ فاسٹ ٹریک
پیٹنٹ گرانٹ پروگرام قائم کیے ہیں۔ یہ پروگرام پیٹنٹ معائنہ حکام کو اپنے
کام کا اشتراک کرنے اور پیٹنٹ معائنہ کے عمل کو تیز کرنے کی اجازت دیتے
ہیں۔
چین نے ملک بھر میں جدت طرازوں کے لئے فوری تحفظ کی خدمات فراہم کرنے کے
لئے 123 قومی آئی پی مراکز بھی قائم کیے ہیں۔ .چائنا انٹلیکچوئل پراپرٹی
ایڈمنسٹریشن کے مطابق، ان مراکز کو سال 2024 کی پہلی تین سہ ماہیوں میں 98
ہزار کیسز موصول ہوئے، اور اوسط پروسیسنگ کا وقت دو ہفتوں سے کم تھا، جس سے
کاروباری اداروں کو ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک آسان، موثر اور کم خرچ
چینل میسر آیا ہے۔
چین کے نزدیک ملک کی آئندہ ترقی کے لیے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا فروغ ،
انوویشن کی بنیادی قوت محرکہ ہے اور پالیسی سازی میں جدت طرازی کو قومی
ترقیاتی حکمت عملی کے مرکز میں رکھنا ہوگا۔چین کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کا
اعادہ بھی کیا ہے کہ ملک کو تکنیکی خود انحصاری کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے
اور سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں کو پیداواری صلاحیت میں تبدیل کرنے میں
تیزی لانی چاہئے۔ اس کی عکاسی چینی حکومت کی جانب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ
میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ملک کے آر اینڈ ڈی نظام کی
کارکردگی کو بڑھانے کی کوششوں سے ہوتی ہے۔
اس وقت ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی سے جڑے نئے موضوعات بشمول مصنوعی ذہانت
(اے آئی)، نئی توانائی، اعلیٰ کارکردگی کے مواد اور لائف سائنسز جیسے شعبوں
پر مسلسل توجہ مرکوز کی جا رہی ہے ۔ چینی ماہرین کی جانب سے بنیادی سائنس،
ارضیاتی سائنس، ماحولیات، مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی،
جدید مواد، وسائل اور توانائی، زرعی سائنس اور ٹیکنالوجی، لائف ہیلتھ اور
ایرو اسپیس سائنس میں مسلسل پیش رفت دکھائی گئی ہے ۔
چین نے خود کو دنیا میں انوویشن اور جدت کے ایک مرکز میں ڈھالنے کے لیے
دوررس اہمیت کا حامل منصوبہ بھی ترتیب دیا ہے جس کے تحت 2035 تک چین ایک
عالمی اختراعی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکے گا۔اس دوران اہم
ٹیکنالوجیز کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے پیش قدمی کی جائے گی ، جس سے نہ صرف
چینی عوام بلکہ دنیا بھر کے عوام کے لیے بھی ثمرات کا حصول ممکن ہو گا۔
|