کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ آخرکار یہ ملک آزاد ہی کیوں
کروایا گیاوہ لوگ تو بلکل ہی بیوقوف تھے جنہوں نے اس قوم کے لیے اپنا سب
کچھ قربان کر دیاہاں میں انہیں بیوقوف ہی کہوں گی کیونکہ یہ بے حِس قوم تو
حقدار ہی نہیں کہ انہیں آزاد ملک دیا جائے تب ہی بہتر تھا کہ یہ غلام رہتے
آخر کیوں ان جیسوں کہ لیا انہوں نے اپنی زندگیوں تک کہ نظرانےپیش کیے
اِنہوں نے تو کبھی یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ یہ ملک انہیں کیسےملا
ہے یہ لوگ تو جانتے ہی نہیں کہ اس ملک کی خاطر کتنوں نے اپنی آنکھوں کے
سامنے اپنے اپنوں کو تڑپ کر دم توڑتے دیکھا تھا کتنے بچے یتیم ہوئے تھے
کتنی ماؤں نے اپنے لال کھو دیے تھے یہ لوگ تو کچھ بھی یاد نہیں کرتے انہیں
تو یہ لگتا ہے کہ یہ ملک انہیں چائے بسکٹ کی طرح سامنے پیش کیا گیا ہے
ہاں تو جب یہ لوگ اس ملک کے لیے کچھ کرنا تو دور اس کی تاریخ کے بارے میں
بھی نہیں جاننا چاہتے تو پھر ایسے لوگوں کو کیوں آزادی دلوائی گئی اور ویسے
بھی یہ تو اب بھی اس غلامی سے نکل نہیں پا رہے یہ غلام ہی تو ہیں جو ان کے
رسم و رواج کو ان سے زیادہ اپناتے ہیں افسوس کی بات ہے کہ آزادی کے باوجود
بھی اس ملک میں ہر جگہ مغربی تہذیب کے آثار نظر آتے ہیں
جب ہم اس چیز سے نکل ہی نہیں پا رہے تو ہم کیسے ترقی حاصل کرسکتے ہیں بس
ہمارے ملک کے لوگوں کو یہ بولنا آتا ہے کہ پاکستان ایسا ہے تو پاکستان ویسا
ہے یہ لوگ یہ نہیں کہتے کہ ہم ایسے ہیں جس کی وجہ سے یہ ملک بدنام ہےآپ
نےکئی ایسے لوگ بھی دیکھیں ہونگے جو اپنے ملک کو چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ آخر اس ملک میں رکھا ہی کیا ہے اور دوسرے ملکوں میں جا کر ذلالت کی
زندگی گزارتے ہیں جو میری نظر میں غلامی ہی ہے.یہ لوگ بس دولت کے پجاری بن
چکے ہیں جنہیں ہمیشہ زیادہ کی حوس رہتی ہےبس دولت ہی ان کے حواسوں پہ چھائی
ہوئی ہےورنہ جو کام یہ دوسرے ملکوں میں جا کر کرتے ہیں اس سے کئی گنا اچھا
کام یہاں اپنے ملک میں بھی کر سکتے ہیں یہ لوگ اس بات کو بھول گۓ ہیں کہ
عزت کے فاقے ذلت کی روٹی سے کئی گنا بہتر ہیں اور سب سے زیادہ افسوس اس بات
کا ہے کہ یہ لوگ وہاں جا کر اپنے ملک تو کیا اپنے خدا کو بھی بھول جاتے ہیں
انہیں بس یہ لگتا ہے کہ خدا ان کے ملک تک ہی محدود ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اب
وہ دین سے آزاد ہو چکے ہیں وہ جو چاہے کر سکتے ہیں اور وہاں جا کر ایسےکام
کرتے ہیں کہ جس سےاپنےملک کےنام کوبدنام کرتےہیں وہ اس خوش فہمی میں مبتلا
ہو جاتے ہیں کہ اب ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی مگر وہ لوگ نہیں جانتے وہ
کس قدر غفلت میں ہیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کوئی اتنا بےمروت کیسے ہو
سکتا ہے ایک ایسا وطن جس نے اسے پناہ دی ہو جہاں اس نے جینا سیکھا ہو جہاں
اس نے اپنا بچپن گزارا ہو جہاں سے اس کی کئی یادیں ہوں کوئی اس وطن کی مٹی
کو کیسے چھوڑ کے جا سکتا ہےمجھے سمجھ نہیں آتی کہ میرے وطن کے لوگ اپنے وطن
سے کیوں مخلص نہیں ہیں اس وطن نے انہیں سب کچھ تو دیا ہے انہیں سر چھپانے
کے لیے چھت دی ہے،انہیں عزت دی،انہیں ایک مقام دیااور کیا چاہتے ہیں یہ
لوگ۔۔۔۔شاید یہ بھول گئے ہیں کہ برِصغیر میں ان کی کیا حیثیت تھی انہیں یاد
دہانی کروانی ضروری ہےتاکہ جس ملک میں پیدا ہونا گناہ سمجھتےہیں یہ لوگ
جانیں کہ اس ملک کے کتنے احسانات ہیں ان پراور اگر ہم سب کچھ جان کر بھی
انجان بنیں اور اپنےملک کےاحسانات کابدلہ نہ اتاریں تو تُف ہے ہم سب پرہاں
کچھ لوگ ہونگے جو اپنےملک کےبارےمیں اچھاسوچتے ہونگےپر انہیں یہ بات جان
لینی چاہیےکہ صرف سوچنے سے کچھ نہیں ہوتا ان کےعمل کو بھی ان کی سوچ کا
ساتھ دینا ضروری ہےمیں مانتی ہوں کہ یہ ہمارےاختیار میں نہیں کہ ہم پورےملک
کا نظام بدل سکیں پر ہمیں اس چیز پر تو غور کرنا چاہئے جو ہمارے اختیار میں
ہے جسے ہم بدل سکتےہیں اور اگر آپ بدل نہیں بھی سکتے تو بس آپ اتنا کر دیں
کہ آپ جہاں ہیں بس وہاں اپنا کام ایمانداری سےکریں جس طرح آپ اپنے گھر کی
حفاظت کرتےہیں اس طرح اپنےوطن کو بھی اپنا گھر سمجھ کر اس کی حفاظت کریں
کیونکہ یہ صرف میرایاآپ کانہیں ہم سب کاوطن ہے
(بقلم:اُمِ غفاریہ)
|