زندگی کا سفر

زندگی کے سفر میں، وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ یہ تبدیلیاں نہ صرف ہمارے ارد گرد کی دنیا کو متاثر کرتی ہیں بلکہ ہمارے اندر کی دنیا کو بھی تبدیل کر دیتی ہیں۔ آپ نے جس گہرائی اور حساسیت کے ساتھ ان تبدیلیوں کو بیان کیا ہے، وہ کسی بھی دل کو چھو لینے کے لیے کافی ہے۔ ان الفاظ میں ایک اداسی ہے، ایک کھوئے ہوئے وقت کا نوحہ، جو ہمارے ماضی کے سادہ دنوں کی یاد دلاتا ہے۔

روڈ بدل گئے، یہ جملہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح جدید ترقی نے پرانے راستوں کو نگل لیا ہے۔ وہ راستے، جو کبھی ہمارے لیے یادوں کا خزانہ تھے، اب بڑے شاہراہوں میں بدل چکے ہیں۔ ان راستوں پر چلنے والے لوگ بھی بدل گئے ہیں۔ پہلے جہاں لوگوں کے دلوں میں اپنائیت تھی، اب وہاں خود غرضی اور مصروفیت نے جگہ لے لی ہے۔

محبتیں بھی بدل گئی ہیں۔ ایک وقت تھا جب محبت خالص اور بے غرض ہوا کرتی تھی۔ آج کل یہ اکثر مطلب پرستی یا وقتی جذبات کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان رشتوں میں وہ گہرائی کم ہو گئی ہے جو کبھی ہمارے معاشرتی تانے بانے کو مضبوط رکھتی تھی۔

بسیں بدل گئیں، سائیکلیں ٹھکانے لگ گئیں، یہ تبدیلیاں ہمارے طرزِ زندگی میں جدت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ پہلے لوگ سادہ زندگی گزارنے پر یقین رکھتے تھے۔ سائیکلوں کی گھنٹیوں کی آواز اور بسوں میں سفر کرتے لوگ ہماری ثقافت کی ایک اہم پہچان تھے۔ آج، گاڑیاں اور جدید ٹرانسپورٹ کے ذریعے یہ سب ماضی کی بات بن چکی ہیں۔

درخت کٹ گئے، چڑیاں اڑ گئیں، یہ جملے ہماری زمین کے بدلتے ہوئے قدرتی ماحول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جہاں کبھی درختوں کی چھاؤں ہوتی تھی، وہاں اب کنکریٹ کے جنگل نظر آتے ہیں۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ، جو کبھی صبح کی پہچان ہوا کرتی تھی، اب ناپید ہو چکی ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف ہمارے ماحول کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ہماری روحانی خوشی کو بھی کم کرتی ہے۔

پیدل چلنے والے راستوں پر گھاس ہو گئی، یہ جملہ اس بات کا عکاس ہے کہ ہماری زندگی کتنی مصروف ہو چکی ہے۔ پہلے لوگ پیدل چلنے کو ایک معمولی عمل نہیں، بلکہ ایک تجربہ سمجھتے تھے۔ آج کل گاڑیوں اور ٹیکنالوجی نے ہماری سادگی کو پیچیدگی میں بدل دیا ہے۔

یہ تمام تبدیلیاں ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ آیا ہم ترقی کے نام پر اپنی انسانیت، محبت، اور فطرت سے دور ہو رہے ہیں؟ ترقی ضروری ہے، لیکن اگر یہ ہمارے جذبات، تعلقات، اور ماحول کو متاثر کرے، تو ہمیں رک کر یہ سوچنا ہوگا کہ ہم نے کیا کھو دیا ہے۔

اس ماضی کی یادوں میں ایک درد چھپا ہوا ہے، لیکن یہ ہمیں ایک سبق بھی دیتی ہیں۔ اگر ہم اپنی اقدار اور تعلقات کو دوبارہ زندہ کریں، تو شاید ہم ان پرانے دنوں کی کچھ خوشبو دوبارہ محسوس کر سکیں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ان تبدیلیوں کو سمجھیں اور اپنے ماضی کی خوبصورتی کو حال میں شامل کریں۔

پھر گاؤں کے لوگ آپس میں بیگانے ہو گئے، یہ جملہ اس المیے کو بیان کرتا ہے جو وقت اور ترقی کے ساتھ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں در آیا ہے۔ گاؤں، جو کبھی اپنائیت اور محبت کا گہوارہ ہوا کرتے تھے، اب خودغرضی اور اجنبیت کی نذر ہو چکے ہیں۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی ہوا کرتے تھے۔ ہر خوشی اور ہر غم اجتماعی ہوتا تھا۔ لیکن اب، یہ جذبہ رفتہ رفتہ ختم ہو گیا ہے۔

پہلے گاؤں کے ہر گھر کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ کوئی بھی کسی وقت آ سکتا تھا، چائے کا کپ، چند باتیں اور خالص اپنائیت ملتی تھی۔ لیکن آج کل، ہر دروازہ بند، ہر دل بند، اور ہر رشتہ ایک حد میں قید ہو گیا ہے۔ وہ محبت جو گاؤں کے ہر کونے میں محسوس ہوتی تھی، اب صرف یادوں میں زندہ ہے۔

ایک دوسرے کی پرواہ ختم ہو گئی، یہ جملہ اس خلا کو بیان کرتا ہے جو آج کے معاشرتی رویوں میں نمایاں ہے۔ پہلے ایک گاؤں کے لوگ ایک خاندان کی طرح تھے۔ اگر کسی کے گھر کوئی مسئلہ ہوتا تھا، تو پورا گاؤں اس مسئلے کا حل نکالنے میں شریک ہوتا تھا۔ لیکن آج، ایک دوسرے کے مسائل سے بے خبری اور لاتعلقی عام ہو گئی ہے۔ لوگ اپنی دنیا میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ دوسروں کی تکلیف ان کے لیے اہمیت کھو چکی ہے۔

اور یوں ایک حسین زمانے کا اختتام ہو گیا۔ یہ الفاظ اس بات کا اعتراف ہیں کہ وہ دن، جو کبھی ہماری زندگی کا سب سے خوبصورت حصہ تھے، اب ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔ وہ دن جب محبت خالص تھی، تعلقات بے غرض تھے، اور زندگی سادہ مگر پرسکون تھی، اب ترقی اور جدیدیت کی چکاچوند میں کہیں گم ہو گئے ہیں۔

یہ سب کچھ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی ترقی کر رہے ہیں، یا ہم نے اپنی اصلی خوشیوں اور انسانی تعلقات کو ترقی کی قیمت پر قربان کر دیا ہے؟ ہمیں اپنے ماضی سے سبق لینا ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی کا مطلب صرف عمارتیں، سڑکیں، اور ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ وہ محبت، تعلقات اور اپنائیت بھی ہیں جو ایک معاشرے کو مضبوط اور خوبصورت بناتی ہیں۔

شاید یہ وقت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں ان گمشدہ اقدار کو دوبارہ جگہ دیں۔ اگر ہم اپنے دلوں کو کھولیں، اپنے رویوں کو بہتر بنائیں، اور دوسروں کی پرواہ کرنے کی عادت اپنائیں، تو شاید ہم وہ حسین زمانہ دوبارہ نہ سہی، مگر اس کا عکس اپنی زندگیوں میں واپس لا سکیں۔ یہ یادیں ہمیں ماضی کی خوبصورتی کو زندہ رکھنے کی ترغیب دیتی ہیں، تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان خوبصورت اقدار کا حصہ بن سکیں۔
SALMA RANI
About the Author: SALMA RANI Read More Articles by SALMA RANI: 30 Articles with 16850 views I am SALMA RANI . I have a M.PHILL degree in the Urdu Language from the well-reputed university of Sargodha. you will be able to speak reading and .. View More