شامِ اساس عبد المجید راجپوت(مجید امبرؔ) کے ساتھ

شامِ اساس عبد المجید راجپوت(مجید امبرؔ) کے ساتھ
٭
پروفیسر ڈاکٹر رئیس صمدانی
عبدا لمجید راجپوت (مجیدامبرؔ) صاحب، صدرِ محفل محترمہ گلنار آفرین، اساس کی چیئر پرسن گلناز محمود صاحبہ، صدر اساجناب میر حسین علی امام، مجید رحمانی صاحب اساس کے جملہ احباب، خواتین و حضرات!
اساس‘ اردو سندھی ادبی سنگت کی جانب سے آج کی سہانی شام سندھ دھرتی کے ایک معروف شاعر، ادیب اور ماہر تعلیم عبد المجید راجپوت جومجید امبرؔ کے نام سے معروف ہیں کے ساتھ اہتمام کر کے اساس کے مقاصد کے حصول کی جانب ایک اور قدم بڑھایاہے۔ مقرر رین نے مجید امبرؔ صاحب کی علمی و ادبی خدمات پر سیر حاصل گفتگو کی جو قابل تحسین ہے۔ مجید امبرؔ صاحب راجپوت ہیں اور سندھ کا شہر حیدر آباد ان کا مسکن ہے، حسن اتفاق ہے کہ میں بھی راجپوت ہوں، راجستھان کا شہر بیکانیر میرے پرکھوں کی سرزمین تھی۔مجید امجد سے میرادوسرا تعلق وہ یہ ہے کہ وہ حیدر آباد کے باسی ہیں اور میری سسرال حیدر آباد ہے۔ تیسرا تعلق ہم دونوں کا ادیب ہونے کا ہے جو اب سب سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہے۔ تما م شاعر اور ادیب جن کے ہاتھ میں قلم ہے ایک دوسرے سے قلمی تعلق میں اٹوٹ انگ کی مانند جڑے ہوئے ہیں۔
سامعین محترم!
مقررین نے مجید امبرؔ صاحب کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات گنوائی ہیں میری نظر میں راجستھان کی وہ ذرخیز مٹی ہے جس سے مجید امبرؔ کے پرکھوں کا تعلق تھا۔ تاریخی شواہد اس پر دلالت کرتے ہیں کہ راجستھان نے بڑی بڑی سیاسی، علمی اور ادبی شخصیات کو جنم دیا۔ایسی شخصیات جنہونے راجستھانی معاشرے میں بہت اہم کردار ادا کیااور یوں تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئیں۔ پاکستان کی بعض راجپوت شخصیات میں میرابائی، مہدی حسن، ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی نے راجستھان کے تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں حالانکہ وہ خود بھی راجپو ت ہی تھے۔ معروف افسانہ نگار کرشن چندر، اختر شیرانی، ببیخودؔ دہلوی، رساؔ چغتائی، الیاس عشقی، سید محمد جعفری، کرار حسین، شاہد احمد جمالی اور دیگر بے شمار کے آباؤ اجداد کا تعلق راجستھان سے تھا۔ان شخصیات کا تذکرہ ڈاکٹر شاہد احمد جمالی کی تصنیف ”مارواڑ کا دبستان شاعری میں بھی ملتا ہے۔ آزادی سے قبل اور بعد“ میں ملتا ہے۔اس کے علاوہ ”تذکرہ شعرائے رجپوتانہ“ اور”راجستھان کے چند مشاہیر ادب“ملتا ہے۔راجستھان کی سرزمین اس لیے نہیں کہ میرا بھی اس سرزمین سے تعلق ہے بلکہ یہ بات حق اور سچ ہے کہ یہ سرزمین اس قدرمردم خیز ہے کہ یہاں نہ صرف اولیا ء کاملین نے اشاعت اسلام کا بیڑہ اٹھایا بلکہ دیگر شخصیات کے ساتھ ساتھ خواتین بھی شہرت میں پیچھے نہ رہیں۔ اس حوالہ سے راجستھان کی قومی صاحبِ دیوان شاعرہ شہزادی کلثوم کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ راجستھان کی علمی و ادبی تاریخ بہت طویل اس کی تفصیل میں جانا یہاں مناسب نہیں۔
مجید امبرؔ صاحب کی علمی و ادبی خدمات کی تفصیل جو مجھے مل سکی، اس کے مطابق مجید امبرؔ صاحب میں ادبی ذوق بچپن ہی سے تھا چنانچہ انہوں نے بچپن میں ہی بچوں کے رسائل و اخبارات میں لکھنا شروع کیا، جیسے جیسے ان کی عمر عزیز بڑھتی گئی ان میں لکھنے کی امنگ بڑھتی گئی۔ مختلف ادبی انجمنوں سے وابسطہ رہے، شمس ادب و آگہی کے نام سے اپنی ایک بزم بھی تشکیل دی، سندھی اخبار”روزانی آس“، اردو میں شمش نو اور رسائل میں ماہنامہ ”خورشید کرن“، بچوں کا رسالہ ”سیؤن ٹائمز بھی جاری کیا۔ افسانہ نگاری بھی کی، شاعری کا شغف بھی رکھتے ہیں۔
تعلیم کے میدان میں انہوں نے حیدر آباد میں تعلیم بالغان، تعلیم نسوان اور بطور خاص تعلیم سے محروم بچوں جو کسی بھی وجہ سے ملازمت کرتے تھے ان کے لیے ان کی فرصت کے مطابق خصوصی طور پر تعلیم کا اس طرح بندوبست۔ مجید امبرؔ صاحب اپنے ادبی ادارہ کے تحت ماہانہ مشاعروں کا اہتمام بھی کیا کرتے ہیں۔ ان کی سماجی و ادبی خدمات اور کارناموں پر انہیں سندھی لینگویج اتھارٹی کی جانب سے ”منجتا ایوارڈ“ اور سندھی زبان کے پہلے انسائیکلو پیڈیا میں ان کی کارکردگی کا تذکرہ موجود ہے۔
ملازمت کے حوالہ سے مجید امبرؔ صاحب نے کئی محکموں میں خدمات انجام دیں شعبہ تعلیم میں استاد کی حیثیت سے ان کی خدمات قابل تعریف ہیں، وہ شعبہ تعلیم میں سپر وائیزر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی رہے، محکمہ بلدیات میں بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
اردو سندھی ادبی سنگت (اساس) کی جانب سے مجید امبرؔ راجپوت صاحب کی خدمات پر خراج تحسین، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔



Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 868 Articles with 1446689 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More