میرے عزیز و معزز قارئین،
زندگی کی رہگزر پر قدم بہ قدم چلتے ہوئے، کبھی خار نصیب ہوئے تو کبھی گلوں
کی خوشبو نے راہوں کو مہکایا۔ مگر ان گزرگاہوں پر جو داستان لکھی گئی، وہ
محض میری کہانی نہیں بلکہ ہر اُس دل کی نمائندہ ہے جو کائنات کی بے کنار
وسعتوں میں اپنی شناخت ڈھونڈتا ہے۔ آج، اس خط کے ذریعے میں اپنے دل کا حال
آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں۔
میرا تعلق اُن ثقافتی سرزمینوں سے ہے جہاں رنگ، زبان، اور عقائد کے امتزاج
نے ہمیشہ زندگی کو ایک منفرد معنویت عطا کی۔ میرے والد بنگلور کے مکین تھے،
جو ہجرت کے بعد لاہور میں بس گئے، اور میری والدہ کا تعلق ڈھاکہ سے تھا۔ یہ
دو تہذیبوں کا حسین ملاپ میرے وجود کا حصہ بنا اور میرے بچپن میں ہی میرے
ذہن و دل میں محبت و ہم آہنگی کے بیج بو دیے۔ لیکن تقدیر کا پہیہ مجھے روس
کی برفانی زمین پر لے گیا، جہاں میری سوچ نے مزید وسعت اختیار کی اور میری
روح نے اپنی گہرائیوں کو کھوجنا سیکھا۔
بارہ برس کی عمر میں والدین کی علیحدگی نے زندگی کی راہ کو ایک نیا موڑ
دیا۔ میں اپنی والدہ کے ہمراہ فلپائن چلی گئی، جہاں تعلیم کے دامن میں پناہ
لی اور اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا موقع ملا۔ پھر سنگاپور کی گلیوں
میں قدم رکھا اور ماڈلنگ کی دنیا کو اپنی زبان بنا لیا۔ دیکھنے والوں کو یہ
پیشہ شاید محض کیمروں کی چکاچوند معلوم ہوتا ہے، لیکن میرے لیے یہ خود کو
اور دوسروں کو سمجھنے کا ایک ذریعہ تھا۔ ہر تصویر، ہر زاویہ، ایک نئی کہانی
کہتا ہے، ایک نیا جذبہ بیدار کرتا ہے۔
آج، میں "بوم ماڈلنگ ایجنسی" کی سینیئر ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوں اور
نوجوانوں کی تربیت و رہنمائی کر رہی ہوں۔ یہ صرف میری کامیابی کا قصہ نہیں
بلکہ ان لمحات کی یادگار ہے جب زندگی نے مجھے مایوسی کے اندھیروں میں روشنی
کی کرن تھمائی۔ میرا یقین ہے کہ فن اور زندگی دونوں حدود و قیود سے آزاد
ہیں، اور انسان کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ وہ ان دونوں کو اپنی روح کی
روشنی سے منور کرے۔
دوستو،
یہ چند سطریں محض اظہارِ خیال نہیں، بلکہ اُن دلوں کے لیے ایک پیغام ہیں جو
زندگی کی کٹھنائیوں سے تھک کر رک گئے ہیں۔ میری تحریر اگر آپ کے دل کی
اُداسیوں کو مٹا سکے تو سمجھوں گی کہ میرا قلم کامیاب ہوا۔ میں ممنون ہوں
"ہماری ویب" کی انتظامیہ کی، جنہوں نے میری کچی پکی تحریروں کو آپ تک
پہنچانے کا ذریعہ بنایا۔ آپ سب سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ اگر یہ چند الفاظ
آپ کو بھا جائیں تو اپنی محبت سے نوازیں اور اگر کسی سطر میں کجی محسوس ہو
تو تنقید کا تحفہ دے کر میری اصلاح فرمائیں۔ یاد رکھیے، تنقید وہ آئینہ ہے
جس میں انسان اپنی خامیوں کو دیکھ کر خود کو سنوارتا ہے۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہتی ہوں:
خوش رہیں، خوشیاں بانٹیں، اور آسانیاں پیدا کریں۔ یقین جانیے کہ جب آپ کسی
کے لیے زندگی کو آسان بناتے ہیں تو کائنات آپ کے لیے بھی وہی پل لوٹا دیتی
ہے۔
|