میں ایک ریٹائرڈ شخص ہوں اور حکومت پاکستان سے جو پنشن
ملتی ہے وہ نیشنل بنک کے ذریعے وصول کرتا ہوں۔حکومت نے مخصوص بنکوں ہی کو
پنشن کی ادائیگی کی سہولت دی ہوئی ہے عام پنشنروں کوباقی بنکوں کی سروس کے
بارے لوگوں کو کوئی شکایت نہیں مگر جب نیشنل بنک کی بات ہوتی ہے تو پوچھتے
ہیں کہ کیا شکایت نہیں۔پچھلے دنوں نیشنل بنک اپنا کوئی خاص دن منا رہا تھا۔
اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اور نیشنل بنک کی کارکردگی کے حوالے سے بڑے
شاندار مضمون تھے۔ چونکہ سرکاری بنک ہے اس لئے سرمایے کے لحاظ سے تو وہ سب
سے آگے ہو گا۔سرکار کا بہت سا ریونیو وصول کرنا اس کا کام ہے۔ مگر بات
کارکردگی کی ہے جس کے بارے کیا کہوں کہ سنتا جا شرماتا جا۔ میکارکردگی کے
حوالے یہ ایک بد ترین بنک ہے ۔میں نے رقم کی وصولی کے لئے ایک ATM کارڈ بھی
حاصل کیا ہوا ہے۔ دو دن پہلے مجھے کچھ رقم وصول کرنا تھی۔ میں نے قریبی
تمام بنکوں کے ATMs سے رقم نکلوانے کی کوشش کی ، نیشنل بنک کا سرور جواب ہی
نہیں دے رہا تھا اور یہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ کبھی آپ کا مقدر اچھا ہو تو رقم مل
جاتی ہے۔ورنہ ہر حال میں کسی نیشنل بنک کی ATM مشین ہی پر جانا پڑتا
ہے۔کوئی اس بنک والوں کو پوچھتا ہی نہیں۔ میں تین چار بنکوں میں جہد مسلسل
کر رہا تھا۔ دو بنکوں کے گارڈ پوچھنے لگے کہ رقم نہیں نکلی۔ میں نے بتایا
کہ نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا، پیسے نہیں ہونگے۔ میں نے ہنس کر کہا ، بڑے
معقول پیسے اکاؤنٹ میں موجود ہیں مگر یہ نیشنل بنک کا کارڈ ہے جس کی یہ
اضافی خوبی ہے کہ اپنی مرضی کیATM مشین سے ادائیگی کرتا ہے۔ وہ گارڈ بھی
بتانے لگے کہ جب بھی کوئی نیشنل بنک کا کارڈ لے کر آتا ہے ، مایوس ہی لوٹتا
ہے۔میں اتفاق ہے رائے ونڈ روڈ پر رہتا ہوں۔ میرا قریب ترین نیشنل بنک
ویلنشیا ٹاؤن میں ہے ۔ وہاں بہت سے بنک ہیں۔ ہر بنک کے ساتھ ایک ATM مشین
ہے مگر نیشنل بنک کے پاس نہیں۔ دوسرے دو قریب ترین نیشنل بنک بحریہ ٹاؤن
میں ہیں۔ یہ بحریہ ٹاؤن پر کمال مہربانی ہے کہ وہاں دو نیشنل بنک ہیں۔ ہاں
وہاں سے رقم وصولی آسان ہوتی ہے۔ وہATM مایوس نہیں کرتے۔
رائے ونڈ روڈ پر نیشنل بنک کی کوئی شاخ نہ ہونے کے سبب عام شہریوں کو بھی
نقصان کو سامنا ہے ۔ بہت سی سرکاری ادائیگیاں اس بنک کی موجودگی کی محتاج
ہیں۔ رائے ونڈ روڈ پر موضع ارائیاں میں پاسپورٹ آفس بھی ہے۔ رش نسبتاً کم
ہوتا ہے ۔ لوگ وہاں جانا بہتر سمجھتے ہیں۔ مگر پاسپورٹ کی فیس جمع کرانے کے
لئے آپ کو پورے شہر میں مارے مارے پھرنا اور نیشنل بنک ڈھونڈھنا ہوتا
ہے۔کوئی اور بنک ہوتا تو پاسپورٹ آفس کے قریب اس کی برانچ پورے انداز میں
کام کر رہی ہوتی بلکہ بنک کا ایک کائنٹر لوگوں کی سہولت کے لئے وہاں آفس
میں موجود ہوتا۔ مگر میرا یہ چہیتا بنک چونکہ سرکاری ہے اور سرکار کی اپنی
ترجیحات ہوتی ہیں۔ اس لئے نیشنل بنک بھی لوگوں کے بارے نہیں سوچتا۔اسے
عوامی بنک بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
جب سے بنکوں کے اوقات صبح 9 بجے سے 5 بجے شام تک ہوئے ہیں ، تمام بنک بغیر
وقفے کے اپنے صارفین کو سارا وقت اپنی سروسز پیش کرتے ہیں۔ لیکن نیشنل بنک
وہ واحد بنک ہے جو ایک بجے سے ڈھائی بجے تک وقفہ کرتا ہے۔ بنک کا تمام سٹاف
ایک بجے بنک سے نکل جاتا ہے ۔ گیٹ پر تالا لگ جاتا ہے۔ ڈھائی بجے تالا تو
کھل جاتا ہے مگر سٹاف مزے مزے بمشکل تین بجے تک آتا ہے۔ وہ بنک جسے سرکاری
محصولات بھی وصول کرنا ہوتے ہیں، اس کا عملہ درمیان میں ڈیڑھ دو گھنٹے غائب
رہے ، کوئی یہ بات محسوس نہیں کرتا۔ میں چین کے ایک انڈسٹریل زون میں پھر
رہا تھا ۔ ہفتے کا دن تھا اور شام کے چار بجے تھے۔ میرا ایک چائینیز دوست
میرے ہمراہ تھا۔ میں نے اسے کہا کہ جلدی سے بنک چلیں ۔ مجھے صبح کے لئے کچھ
رقم لینی ہے۔وہ میرا دوست کہنے لگا ، رات کو رقم کہاں سنبھالو گے۔ صبح ہی
لینا۔ مگر صبح اتوار ہے بنک بند ہوں گے۔ وہ ہنسنے لگا کہ بھائی ایک بات یاد
رکھو، یہ انڈسٹریل زون ہے اور چین میں کسی انڈسٹریل زون میں بنکوں کو کوئی
چھٹی نہیں ہوتی۔ بنکوں کا عملہ آپس میں دن بانٹ کر ہفتے میں ایک چھٹی کر
لیتا ہے مگر بنک چھٹی نہیں کرتا۔ہماری ترقی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم
سب کام بڑی سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس علاقے میں ہزاروں غیر ملکی تاجر ہر
وقت موجود ہوتے ہیں جو تجارت کی غرض سے آتے ہیں۔ بنکوں کی ایک چھٹی ان کی
کاروباری سرگرمیاں روک دے گی اورہمیں اربوں کا نقصان دے گی جس کے ہم متحمل
نہیں ہو سکتے۔ یہ چین کی سوچ ہے اور ہم چھٹیوں کے نام سے باغ باغ ہو جاتے
ہیں۔ ترقی سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔اسی سوچ کا فرق ہے جو ہمیں ترقی یافتہ
قوموں میں شامل ہونے میں بڑی رکارٹ ہے۔
ہمارے ملک کی تمام موبائل فون کمپنیوں نے بنکنگ کا کاروبار شروع کردیا ہے۔
بظاہر یہ ایک بہت مثبت قدم ہے، مگر اس پر ان کمپنیوں کا کنٹرول بہت کم
ہے۔FIA کی سائبر کرائم ونگ کا ریکارڈ دیکھ لیں۔ جتنے فراڈ ان کمپنیوں کے
تعاون سے ہو رہے ہیں، ان پر کوئی قابو نہیں پایا جا رہا۔فون کی جو سم جاری
کی جاتی ہے اس کی مطلوبہ تصدیق نہیں کی جاتی ۔ اس سم کو استعمال کرکے لوگوں
سے بڑے پیمانے پر فراڈ کیا جاتا ہے۔ لاکھوں کے حساب سے یہ وارداتیں ریکارڈ
پر ہیں۔ لیکن سم ریکارڈ اس سلسلے میں کوئی مدد کرنے میں ناکام ہے۔ میرا ایک
عدد اکاؤنٹ JAZZ فون کے حوالے سے بھی ہے۔ کوئی پارٹی ہر ماہ میری اجازت کے
بغیر میرے اکاؤنٹ سے چار سو کے لگ بھگ پیسے نکال لیتی ہے۔ سوئے اتفاق میں
کریم بلاک سے گزر رہا تھا۔ وہاں جاز بنک موجود ہے ۔ میں نے انہیں شکایت کی
کہ یہ پیسے کاٹنا غلط ہے۔ براہ کرم یہ کٹوتی ختم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ
یہ کٹوتی فلاں ویب سائٹ کاٹتی ہے آپ اسے لوڈ کریں، اسے کہیں کہ پیسے کاٹیں
یعنی سبسکرائب کریں اور پھر ان سبسکرائب کردیں۔ وہ کون لوگ ہیں جاز والے ان
کا پتہ نہیں جانتے۔ کیسے ممکن ہے کہ ملی بھگت کے بغیر کوئی آپ کے صارف کے
پیسے نکال لے اور آپ اس کا پتہ اس لئے نہ دیں کہ کہیں کوئی قانونی کاروائی
نہ کر لیں۔ وہ ویب سائٹ بھی ڈاؤن لوڈ کر لیں۔ وہاں سبسکرائب کا بٹن ہی
نہیں۔ جاز والے جھوٹ بولتے ہیں اور ایسی پاٹیوں کو انہوں نے خود چھوٹ دی
ہوئی ہے۔ میرا تو وہ ایک ایسا اکاؤنٹ ہے کہ جس میں ،میں وقت ضرورت پیسے
ڈالتا ہوں۔ بڑا اکاؤنٹ ہو تو چار سو روپے کے ڈاکے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ اور
ڈاکہ لگاتار جاری رہتا ہے۔ یہ سٹیٹ بنک کا فرض کہ ایسے غیر قانونی کاموں کو
روکے۔ کسی شخص کے اکاؤنٹ سے کسی غیر فرم کا جاز یا کسی ایسے بنک کے تعاون
سے ایک روپیہ بھی ہیرا پھیری سے نکالنا ایک سنجیدہ جرم ہے، جس پر قابو پانا
بہت ضروری ہے۔
|