مجرا کلچر کے چقندر

آپ یقین کریں یا نہ کریں مگر ایک ہفتہ پہلے تک ہم نے رجب بٹ نامی شخص کا کبھی نام سنا تھا اور نہ ہی اس کی شکل دیکھی تھی ، کبھی کوئی وڈیو نظر سے نہیں گزری تھی ۔ ہفتہ پہلے اچانک فیس بک اور یوٹیوب پر اس کی شادی کے سلسلے کی تقریبات ڈھولکی قوالی کے مختصر مختصر وڈیو کلپ اور ریلز نظر آنا شروع ہو گئیں ۔ پہلے تو یہ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کس کی شادی ہے اور وڈیوز میں نظر آنے والے لڑکوں میں سے دولہا کون ہے؟ سبھی بنے ٹھنے بڑھ چڑھ کر ایکدوسرے کو بدھائیاں دے رہے تھے ، اگلے روز جا کے پتہ چلا کہ رجب بٹ نامی ٹک ٹاکر کی شادی ہے ۔ پھر شادی کے اگلے ہی روز نیا نویلا دولہا گرفتار ہو گیا ۔ ایک گن اور ایک شیر کا بچہ بغیر لائسنس کے رکھنے کی فرد جرم کے تحت ۔ اور حسب توقع اس کی ضمانت ہو گئی وہ مکھن میں سے بال کی طرح باہر نکل آیا ۔

مگر گرفتاری اور اس پر عائد کی جانے والی فردات کے بارے میں جان کر بے اختیار خیال آیا کہ شادی کی تقریبات میں جو کرنسی نوٹوں کی برسات کی گئی فرش کے اوپر ان کا فرش بچھا دیا گیا اور پھر اسے جوتوں سے روندا گیا تو کیا یہ جہالت کسی جرم کے زمرے میں نہیں آتی؟ یہ دولہا خود جا بجا جوتوں سمیت نوٹوں کے ڈھیر پر چڑھا کھڑا تھا ۔ بیچارے قائد اعظم ان سارے جاہلوں کے قدموں میں بکھرے ہوئے اپنے دل میں کیا سوچ رہے ہوں گے کہ کن بےغیرتوں کے لئے پاکستان بنا دیا؟

ابھی چند ہی روز پہلے ایک بہت ہی عجیب و غریب منظر دیکھا تھا ۔ ہمیشہ تو نظر آتا تھا کہ محفل رقص و موسیقی میں نچھاور کیے جانے والے کرنسی نوٹوں کو ملازمین اکٹھا کر کے شاپروں اور تکیے کے غلافوں میں بھر رہے ہیں ۔ مگر حال ہی میں ایک وڈیو میں دیکھا کہ ایک نوکر چاکر نوٹوں کو وائپر سے گھسیٹ رہا تھا ۔ بلاشبہ یہ ایک نہایت ہی دلخراش و جگر پاش منظر تھا ہم تو ابھی اسی صدمے سے سنبھل نہیں پائے تھے بار بار وہ منظر ذہن میں تازہ ہو جاتا تھا تو اب پھر یہ بھی دن دیکھنا پڑ گیا کہ بانیء پاکستان تو کیا امریکی صدور تک کو نہیں بخشا گیا ۔

کرنسی نوٹ ایک ایسا کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے جو کثرت استعمال سے چاہے کتنا ہی خستہ حال ہو جائے کٹنے پھٹنے کے بعد مزید مرمت کے قابل نہ رہے تو بھی کچرے کی ٹوکری میں نہیں ڈالا جاتا اور نہ ہی کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا جاتا ہے بلکہ بینک میں پہنچایا جاتا ہے ۔ مگر یہی نوٹ جب نواں نکور و کلف زدہ سا کڑکڑاتا اور مہکتا ہوا بینک سے باہر آیا ہوتا ہے تو اس کی ایک اوقات یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ گانے بجانے اور ناچنے والوں پر نچھاور کیا جاتا ہے مجرا مراسیوں کے قدموں تلے کرنسی نوٹوں کا فرش بچھ جاتا ہے انہیں اپنے پیروں اور جوتوں تلے روندتے ہوئے کوئی بھی ان پر رحم کھاتا ہے نہ خدا کا خوف ۔ ہمارے دیس کی کرنسی جس پر بانیء پاکستان اور اب چند دیگر مشاہیر کی بھی تصویر ہوتی ہے ملک کا نام تحریر ہوتا ہے پشت پر اہم مقامات اور عمارات مقدسہ کا عکس ۔ اور پہلے کبھی قرآنی تعلیمات اور احادیث نبوی سے اخذ کردہ ایک فقرہ بھی درج ہوا کرتا تھا “ حصول رزق حلال عین عبادت ہے “ پھر شاید قوم کے انہی کرتوتوں کے کارن اس کی مزید اشاعت کو ترک کر دیا گیا ۔

چاہے کوئی مانے یا نہ مانے مگر کرنسی نوٹوں کا اس طرح کا اصراف اور بیحرمتی ان کے حرام ذرائع سے حصول کی دلیل ہے ۔ حرام کا مال ہوتا ہے اسی لئے بے دردی سے خرافات و فواحشات پر لٹایا جاتا ہے ۔ حلال کی کمائی کبھی ایسے ذلیل و خوار نہیں ہوتی ۔
 

رعنا تبسم پاشا
About the Author: رعنا تبسم پاشا Read More Articles by رعنا تبسم پاشا: 235 Articles with 1877294 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.