مثل مشہور ہے کہ جب کسی کو دعا دینا ہوتی ہے تو کہتے ہیں
کہ " دودھوں نہاؤ پوتوں کھیلو " اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "ددھ پتر دی خیر"۔
جس پر چند ناقدین نے یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ نے دودھ دیا جسےہم نے دکان
پر بیچ دیا۔ اللہ نے تو خدمت کرنے اور بڑھاپے میں سہارا بننے کو پتر دیا وہ
ہم نے کمائی کے لیئے سعودیہ اور یورپ امریکہ بھیج دیا۔اب خیر کہاں سے آۓ گی۔
پتر تو خیر پتر ہی ہوتا ہے پاس رہے یا انگلینڈ۔ البتہ انگلینڈ سے ایک تگڑی
رقم بھیجتا ہے اور ساتھ ایک عدد گوری بھی لاتا ہے۔ جس سے پھر گورے گورے اور
سرخ وسفید پوتے بھی کھیلنے کو ملتے ہیں۔
ہمارے بڑے بوڑھے تو دودھ کو "خدا کا نور" کہتے تھے اور اسے زمین پھر ایک
عطیہ خداوندی اور مقدس نعمت گردانتے تھے۔ مگر کیا کریں کم بھینسوں اور
گائیوں والے زیادہ آبادی والے ملک میں یہ خدا کا نور ہر کسی کے مقدر میں
کہاں ہوتا تھا۔ پھر سرکار نے وائٹ ریوولوشن کا آغاز کیا۔ سرکار نے گرانٹیں
دیں۔ بڑے بڑے ڈیری فارم بنے جس سے زمینداروں اور کسانوں کی کالی بھینسوں
میں اضافہ ہوا اور ساتھ ساتھ نیسلے کی سفید بھینسیں بھی اپنے کالے پیروں
اور ٹائروں کے ساتھ سڑکوں پر دندنانے لگیں۔ یوں سفیدیوں میں سفیدیاں ملنے
لگیں اور مارکیٹ میں ایسا نورِ خدا متعارف ہوا جس پر خدا کی ناراضگی تو
بننا ہی تھی۔ مگر یہ وہ دودھ تھا جس کے ذائقے سے ہمارے بزرگ تو ناآشنا تھے
ہی مگر بچوں کی ہیومین بلڈ کیمسٹری سے بھی اس کا کوئی تال میل نہیں بن
پڑرہا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نئی نئی بیماریاں پیدا ہوئیں ، جس سے تحقیق
اور ریسرچ کی نئی راہیں ہموار ہوئیں اور نئی نئی بیماریوں کا انکشاف ہونے
لگا۔ پھر فارما سیوٹیکل کمپنیوں کی دوڑیں لگیں اور ا ن نئی بیماریوں پر
غلبہ حاصل کرنے کی غرض سے نت نئی ادویات بنانے اور مارکیٹ میں مقابلے کا
رجحان برقرار رکھنے کے لیئے آۓ روز قیمتیں بڑھانے کا رواج بھی بنا۔ اس سفید
انقلاب کی وجہ سے طب کے شعبے میں خاطر خواہ ترقی ہوئی اور ترقی کی اس دوڑ
میں ملکی قرضوں کی مدد میں بھی اچھی خاصی ترقی ہوئی۔
گاؤں کے ایک بزرگ نے مسجد کے مولوی کی تقریر سے متاثر ہو کر فیصلہ کیا کہ
وہ بھی اپنی جمع پونچی اسی سفید انقلاب میں لگا کر شہر کے باسیوں کو
خالصتاً خدا کی رضا کے لیئے سو فیصد خالص دودھ سپلائی کرے گا۔ چنانچہ زیور
بیچ کر زمین رہن رکھ کر چند بھینسیں خریدیں اور ان کوراولپنڈی لے آیا۔ اس
نےعلاقے میں یہ مشہور کیا کہ اللہ کی خالص رضا کے لیئے عمومی ریٹ پر 100
فیصد خالص دودھ دستیاب ہو گا اور یوں گھروں میں دودھ کی سپلائی شروع ہو گئی
۔ا اب چونکہ خالص دود ھ تھا وہ بھی سات ، ساڑھے سات فیٹ کا ۔شہر میں تو
چلتا تھا چار سے ساڑھے چار فیٹ دودھ جسے سرکار اور اس کی لیبارٹری نے فٹ
قرار دے رکھا تھا ۔ شہری بابو اور بابے اس کو ہی خالص دودھ کہتے تھے۔یوں
نئے اس ہیوی ڈوز دودھ سے گاہکوں کے بچے بیمار پڑ گئے اور انہوں نے شکوہ کیا
کہ پتہ نہیں دودھ میں کیا کیازہریلے کیمیکلز ملا رہے ہو، ہمارے تو بچے
بیمار ہو گئے۔کل سے دودھ بند کر دو ہم نہیں لیتے۔ وہ پہلے والا گوالا ہی
ٹھیک تھا۔ اب یہ بیچارہ پریشان کہ سارا کاروبار ڈوبنے لگا ہے۔ اپنی اس خالص
نیت پر خوب نادم ہوا۔ ہر گھر سے ہی چار باتیں سننا پڑیں۔ مجبورا ً اللہ
توبہ کی اورپچھلے تجارتی خسارے کو پورا کرنے اور ڈانواں ڈول کاروبار کو
سہارا دینے کےلیئے قبل از وقت توبہ اور استغفار کی کہ یا اللہ تو دلوں کے
حال خوب جانتا ہے میں تو تیری رضا کی خاطر ان بےچاروں کو خالص دودھ دینا
چاہتا تھا مگر یہ لینا ہی نہیں چاہتے۔ اب مجبوری ہے مجھے ان کی ڈیمانڈ پر
پورا اترنے کے لیئے اس دودھ کو شہری بچوں کی صحت کے حسب حال بنانا ہو گا۔
پروردگار میں یہ سب اب جذبہ خیر سگالی اور نیک نیتی کے تحت کروں گا۔ پھر
یوں ہوا کہ دودھ اپنی اوقات پر آیا۔ ریٹ میں دس روپے کمی کردی گئی ۔ایک تو
دودھ کی فروانی ہو گئی تھی جہاں کالی بھینسوں کا تین من دودھ ہوتا تھا وہاں
سفید بھینس کے پیٹ میں یہ پانچ سے چھ من ہو جاتا تھا جس سے من کی مراد بھی
پوری ہو رہی تھی اور اب محلے میں بھی خوب جی حضوری ہو رہی تھی ۔ البتہ دیگر
کاروباری دوستوں کے لیئے اچھی خاصی پسوڑی ہو رہی تھی۔ کیونکہ ریٹ کم تھا
اور بزنس میں خوب دم تھا۔
پھر اس میدان میں بڑے بڑے تجربات ہونے لگے۔وہ لوئی پاچسر کے نظریہ حیات از
حیات اور حیات غیر از حیات کی طرح دودھ از دودھ ساتھ دودھ غیر از دودھ بھی
بننے لگا۔ اب یہ دودھ رنگ برنگے ڈبوں اور مختلف برانڈ نام کے ساتھ مارکیٹ
میں آرہا تھا۔ ڈھیر سارے پوڈروں کو آپس میں پوڈر گردی کروا کر نئے نئے
ناموں سے ملک پوڈر بناۓ گئے جو اب شہروں اور قصبوں حتیٰ کہ دیہات کی ہٹیوں
پر بھی دستیاب ہونے لگے۔ ملک پوڈر اور مکئی کا آٹا ایک ہی ریٹ پر اپنے اپنے
تناسب کے ساتھ ایک ساتھ بک رہا تھا۔اس پوڈر گردی اور فیٹ فیٹ کے کھیل کا
نقصان یہ ہوا ہے کہ وہ بدنی طہارت اور پاکیزگی والے عام سے ساشے پوڈر جو
گاؤں کی کریانے والی دکانوں پر پانچ روپے میں باآسانی دستیاب تھے وہ بھی
تیس پینتیس پر پہنچ گئے اور عام کھلا سستا ساتھرڈ گریڈ کوکنگ آئیل بھی اب
مانگ بڑھنے پر اچھا خاصا مہنگا ہو گیا ۔ اب اس کوکنگ آئیل کی کشید میں
استعمال ہونے والی جانوروں کی آلائیشیں بھی مہنگے داموں بک رہی ہیں۔کہنہ
مشق دودھ کے تاجروں کا کہنا ہے کہ پہلے ہم ایک ہی نل یا نہر سے پانی لیتے
تھے جس سے دودھ میں ٹیسٹ نہیں بنتا تھا۔ مگر اب تجربے کے بعد اس نتیجے پر
پہنچے ہیں کہ اگر راستے میں تین چار اضلاع کا میٹھا ، کھارا ،پہاڑی چشمے
اور میدانی ندی نالے کا تھوڑا تھوڑا صاف اور گدلا پانی ایک خاص تناسب سے
مکس کر لیا جاۓ تو " شرابوں میں شرابوں "کے مصداق دودھ کا ٹیسٹ بڑا یونیک
ہو جاتا ہے۔
|