جب سورج کی کرنیں صحرائی ریت پر گرتی ہیں تو منظر میں
دلہن کا عکس ابھرتا ہے۔ یہ عکس گویا تہذیب، روایت اور حُسن کے امتزاج کا
مجسمہ ہے۔ مشرق کی دلہن اُس مجروح تاریخ کی علامت ہے جہاں ایک عورت محبت کے
ہار میں بندھی ہوئی، اپنی خاموشی کے پیچھے ہزاروں راز چھپاتی ہے۔ مگر آج
وہی دلہن بیباک ہو کر آزادی اور خواب کی بات کرتی ہے۔
رنگوں کے جھرمٹ میں سجی ہوئی،
چوڑیوں کی چھنکار میں چھپے ہوئے سوال لیے،
یہ دلہن محض ایک خوبصورتی نہیں بلکہ ایک فلسفہ ہے۔
اُس کی ساڑھی کا سنہری کنارہ گویا زندگی کی روشنی ہے،
وہ روشنی جو صدیوں سے مٹی میں دفن خوابوں کو جگاتی ہے۔
مہندی سے رچے ہوئے ہاتھ، اُس کے وجود کا اعلان ہیں:
"محبت میری زینت ہے مگر میرا اختیار میرا فیصلہ ہے۔"
لہن کی آنکھوں میں وہ گہرا کرب چھپا ہے جو ایک تاریخ کا حصہ ہے۔
کہیں وہ سیتا کی مانند امتحان کی آگ میں جلتی رہی،
کہیں رادھا کی صورت انتظار کی لمبی راتوں کو سجاتی رہی۔
مگر آج اُس کی آنکھیں ایک نئے دَور کا آئینہ ہیں۔
اُس کی پیشانی پر بندیا نہیں بلکہ خود اعتمادی کا ستارہ ہے۔
وہ بندیا جو اعلان کرتی ہے:
"اب میری زندگی میرا انتخاب ہوگی، میرا راستہ میرا ہوگا۔"
یہ دلہن فارسی ادب کے اُن اشعار کی مجسم صورت ہے جہاں محبت کے ساتھ بغاوت
کا رقص ہوتا ہے۔
رومی کی زبان میں وہ کہتی ہے:
"عشق تو ہونا چاہیے، مگر زنجیر نہ بنے۔"
اُس کا ہر زیور اُس کی طاقت کا عَلم ہے،
چوڑیوں کی چھنکار اُس کی خاموش آواز ہے جو معاشرے کو چیلنج کرتی ہے۔
یہ دلہن اُس روایت کو توڑنے آئی ہے
جو عورت کو محض خوبصورتی کا مجسمہ سمجھتی ہے۔
ایسا نہیں کہ وہ محبت کو ٹھکرا رہی ہے،
بلکہ وہ محبت میں خود کو کھونے کے بجائے خود کو پانے کا فلسفہ بیان کر رہی
ہے۔
اُس کا یہ وجود کہتا ہے:
"محبت میں مکمل ہونا چاہیے، مگر اپنا وجود مٹانا نہیں چاہیے۔"
یہ مشرقی دلہن آج کی عورت کا عکس ہے۔
اُس کی مسکان میں نرمی ہے، مگر اُس کی آنکھوں میں آگ بھی ہے۔
یہ وہ آگ ہے جو صدیوں کے کرب کو جلا کر روشنی میں بدل دے گی۔
اُس کا جھومر، اُس کے بالوں میں سجی گجرا،
گویا پھولوں کا وہ تاج ہیں جو کائنات نے اُس کے سر پر رکھ دیا ہے۔
اُس کا بدن ساحل پر بکھرے نغمے کی طرح ہے،
جہاں سمندر کی لہریں اُس کی آزادی کو چھو کر واپس لوٹ جاتی ہیں۔
یہ دلہن اُس آزاد دنیاکی علامت ہے
جہاں عورت اپنے وجود کی پہچان کرتی ہے۔
اُس کی محبت میں بھی خودداری ہے،
اور اُس کی چپ میں بھی ایک فلسفیانہ چیخ ہے۔
آج کی دلہن فقط رسموں کی پابند نہیں،
بلکہ اُس نے رسموں کو اپنے خوابوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔
یہ فلسفہ اُس کی طاقت ہے۔
وہ کہتی ہے:
"میں دلہن ہوں، مگر میں عورت بھی ہوں۔
میرا حسن، میری عقل اور میرا وجود،
یہ سب میرا فخر ہیں، میری آزادی ہیں۔"
یہ دلہن آج کی کائنات کا وہ خواب ہے
جس میں روایت کے ساتھ بیباکی کی خوشبو ہے۔
یہ دلہن محبت کا نور بھی ہے
اور بغاوت کی روشنی بھی۔
"یہ میری ساڑھی کی سلوٹوں میں چھپی ہوئی کہانی ہے،
جو آج میں نے کائنات کے سامنے بیان کر دی ہے۔"
|