اردو طنزیہ و مزاحیہ ادب میں ایک خوش گوار اضافہ
رفیع عباسی کی مزاحیہ مضامین کی تصنیف "نام میں کیا رکھا ہے" کا محققانہ
جائزہ
تحریر: بلال احمد، لاہور
کچھ عرصہ قبل روزنامہ جنگ کے سابق سب ایڈیٹر، معروف کالم نگار، فیچر رائٹر
اور طنز و مزاح نگار رفیع عباسی سے میری پہلی ملاقات ایک آن لائن پلیٹ فارم،
فیس بک پر ہوئی تھی اور انہوں نے اپنی شاہ کار کتاب " نام میں کیا رکھا ہے
" مجھے تحفہ کے طور ارسال کی۔"*نام میں کیا رکھا ہے*؟" رفیع عباسی کے
فکاہیہ مضامین کا ایک منفرد مجموعہ ہے جو قارئین کو زندگی کے مختلف پہلوؤں
پر نہایت دلچسپ اور خوشگوار انداز میں غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ
کتاب مزاح، طنز اور گہری فکری جھلکیوں کا حسین امتزاج ہے، جو عام زندگی کے
تجربات کو ایک منفرد اور تخلیقی زاویے سے دیکھنے کی دعوت دیتی ہے۔
رفیع عباسی نے اپنی تحریروں میں روزمرہ کے معاملات، انسانی کمزوریوں، اور
معاشرتی رویوں کو اجاگر کیا ہے۔ وہ معمول کی گفتگو میں بھی ایسی شگفتگی اور
مزاح کا انداز پیدا کرتے ہیں کہ قاری ان کے اندازِ سخن سے محظوظ ہوئے بغیر
نہیں رہ سکتا۔ ان کے مضامین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہنسی مذاق کے
پہلو میں تلخ حقائق اور گہرے مشاہدات کو اس خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ
قاری نہ صرف محظوظ ہوتا ہے بلکہ ان مسائل پر سوچنے پر بھی مجبور ہو جاتا
ہے۔
کتاب کے ہر مضمون میں زندگی کے کسی نہ کسی پہلو کو موضوع بنایا گیا ہے۔
رفیع عباسی کی مہارت یہ ہے کہ وہ عام سے موضوعات کو بھی غیر معمولی بنادیتے
ہیں۔ وہ معاشرتی روایات، انسانی رویوں اور ہماری روزمرہ کی حرکات و سکنات
کو ایک ایسے زاویے سے دیکھتے ہیں، جو منفرد ہے۔ ان کی طنز و مزاح کی چاشنی
مضامین کو مزید دلچسپ بناتی ہے، جبکہ ان کی تحریر کی گیرائی قاری کو اس پر
غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
مصنف کا الفاظ کا چناؤ اور جملوں کی ترتیب بے مثال ہے۔ وہ اپنی زبان کی
سادگی کے باوجود ایسے فقرے تخلیق کرتے ہیں، جو براہ راست قاری کے دل و دماغ
پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک مضمون میں وہ معاشرتی رویوں کی
ناہمواری کو نہایت ہلکے پھلکے انداز میں اجاگر کرتے ہیں اور قارئین کو یہ
احساس دلاتے ہیں کہ کیسے ہماری معمولی سی عادات بھی بڑی تبدیلیوں کا پیش
خیمہ بن سکتی ہیں۔
رفیع عباسی کے مزاح میں کہیں شوخی اور شگفتگی ہے، تو کہیں تلخی اور طنز کی
جھلک۔ ان کے مضامین میں مزاح اور حقیقت کا یہ امتزاج کتاب کو دلچسپ اور پر
اثر بناتا ہے۔ وہ ایک لمحے میں قاری کو قہقہے لگانے پر مجبور کرتے ہیں اور
اگلے ہی لمحے زندگی کی تلخ حقیقتیں بیان کرکے گہری سوچ کی طرف لے جاتے ہیں۔
ان کے مشاہدات کی باریک بینی اور معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتی ان کی تحریر
مسائل میں الجھے ذہنوں پر خوش گوار اثرات مرتب کرتی ہے۔
یہ کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم اپنی روزمرہ زندگی کی تصویر دیکھ سکتے
ہیں۔ کتاب کی خوش گوار تحریروں اور مصنف کے شرارتی جملوں نے اسے ایک غیر
معمولی تخلیق بنا دیا ہے۔ "نام میں کیا رکھا ہے؟" ان قارئین کے لیے ایک
انمول تحفہ ہے جو اپنی پریشانیوں اور ذہنی خلفشار سے کچھ دیر کے لئے نجات
پانے کے لئے سکون چاہتے ہیں۔ وہ بھوک، مہنگائی سے بدحال اور خودکش حملوں و
ٹارگٹ کلنگ سے خائف عوام کے لبوں پر اپنی خوش گوار اور شگفتہ تحریروں سے
مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں۔
یہ کتاب محض تفریح کا سامان نہیں بلکہ ایک فکری سفر بھی ہے۔ مصنف نے شگفتہ
پیرائے میں عام معاشرتی زندگی سے وابستہ ایسے موضوعات کو چھیڑا ہے، جو قاری
کے ذہن میں دیرپا اثرات چھوڑتے ہیں۔ اگر آپ مزاح کے ساتھ ساتھ زندگی کی
گہرائیوں کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو یہ کتاب آپ کے لیے بہترین
انتخاب ہے۔
مجھے علم و ادب سے بچپن ہی سے لگائو ہے اور کتب بینی سے گہرا شغف۔ میں نے
پطرس بخاری، مجید لاہوری، مشفق خواجہ سمیت گزشتہ ادوار اور دور حاضر کے
تمام طنز و مزاح نگاروں کی تصنیفات کا بغور مطالعہ کیا ہے لیکن میں یہ
لکھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ پطرس بخاری، مشفق خواجہ اور مجید
لاہوری کے بعد برصغیر پاک و ہند کے اردو ادب کے ایوانوں سے مزاح نگاری رخصت
ہو گئی ہے۔
اخبار جہاں کے سابق ایڈیٹر، شاعر، ادیب و دانشور نعیم ابرار نے "نام میں
کیا رکھا ہے" پر تبصرہ کرتے ہوئے کتاب میں شامل اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ
"طنز و مزاح زندگی کے تضادات کو ابھارنے اور ان پر مسکرانے کا فن ہے۔ ہمارے
معاشرے کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ طنز و مزاح یعنی خود پر ہنسنا
ہے"۔ "یہ ضرورت اس لئے اور بھی زیادہ ہے کیوں کہ معاشرہ طنز و مزاح کا
متحمل نہیں رہا۔ ہمارا دور کامیڈی کا ہے مزاح کا نہیں۔ ہر شعبے میں کامیڈی
ہے نتیجہ یہ کہ ادب کے نام پر مزاح لکھنے والے بھی پرفارم کرکے داد وصول
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بھی کیا کریں، اب ادبی مزاح پڑھنے والے کم رہ
گئے ہیں۔ کامیڈی اور مزاح میں وہی فرق ہوتا ہے جو حقیقی زندگی کی محبت اور
محبت کی اداکاری میں". نعیم ابرار نے مزید لکھا ہے کہ "رفیع عباسی کی
تحریریں اکثر مقامات پر کچھ منکشف کرتی ہیں۔ ان کے جملے چونکاتے ہیں، مثلاً
دکھوں کی ماری، سوگ میں ڈوبی قوم کے لئے یہ کتنی بڑی خوشخبری ہوتی ہے کہ
"خودکش حملہ آور کا سر مل گیا"، "یہ سر اگر نہیں ملتا تو ہم کیا کرلیتے۔ آج
سر ملا، انشاء اللہ کل پیر بھی مل جائے گا، یوں ہمارے معاشرے کے بارے میں
یہ رائے کبھی نہ کبھی غلط ثابت ہو ہی جائے گی کہ "یہاں تو کسی بات کا سر
پیر ہی نہیں ہے".
روزنامہ جنگ کے سینئیر ایڈیٹر اور معروف دانش ور قاضی محمد اختر جونا گڑھی
نے رفیع عباسی کی کتاب میں شامل اپنے مضمون، "رفیع عباسی: اردو طنزیہ و
مزاحیہ ادب میں ایک خوش گوار اضافہ " میں کیا خوب لکھا ہے کہ اردو کے طنزیہ
و مزاحیہ ادب میں قحط الرجال جیسی صورت حال طویل عرصے سے چلی آرہی ہے".
پطرس بخاری، ابن انشا اور مشفق خواجہ جیسے طنز و مزاح نگار اب ڈھونڈے سے
بھی نظر نہیں آتے۔ ویسے تو عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی، شفیق الرحمٰن اور
رشید احمد صدیقی نے بھی طنز ومزاح کو برتا ہے لیکن جو بات پطرس بخاری، ابن
انشا اور مشفق خواجہ کی تحریروں میں تھی، وہ اب کہیں نظر نہیں آتی۔ اس طویل
تمہید کی ضرورت مجھے یوں پیش آئی کہ بعد مدت دراز کے صحیح معنوں میں طنز و
مزاح سے بھر پور تحریریں میری نظروں سے گزری ہیں۔ یہ تحریریں میرے ساتھی
اور اردو کے ابھرتے ہوئے مزاح نگار رفیع عباسی کی ہیں۔ اب ہمیں فکر و تردد
کی ضرورت نہیں ہے ہمارے درمیان رفیع عباسی جیسا طنز و مزاح نگار موجود ہے".
پاکستان کی معروف خاتون دانش ور مہتاب اکبر راشدی نے اسی کتاب میں تحریر
کردہ اپنے مضمون "کڑوا سچ، میٹھے بول" میں قاضی اختر جونا گڑھی کی جانب سے
رفیع عباسی کے لئے "ابھرتے ہوئے مزاح نگار" کے القاب مسترد کرتے ہوئے لکھا
کہ "میں قاضی اختر جونا گڑھی کے الفاظ سے اختلاف کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں
گی کہ یہ "ابھرتا" ہوا ستارہ اب پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا ہے اور
ادب کے ایوانوں میں اپنی جگہ پانے کا منتظر ہے." انہوں نے مزید لکھا کہ
"مجھے رفیع عباسی جیسے پختہ کار لکھاری کی کتاب پڑھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا
مشکل ہورہا تھا کہ ان کی حس مزاح کی داد دی جائے، چبھتے ہوئے جملوں کی یا
اس وسیع مطالعے کو سراہا جائے جو ان کے ہر موضوع کو معتبر بنا دیتا ہے،
درحقیقت ان کی شخصیت میں ایک مستند محقق موجود ہے". اپنے مضمون میں محترمہ
مہتاب اکبر راشدی نے "نام میں کیا رکھا ہے" کے کالموں کے کچھ حوالے بھی درج
کئے ہیں، میں ان میں سے ایک حوالہ پیش کررہا ہوں، "اکثر سنتے ہیں کہ "یہاں
کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے"، یہ آوا کیوں بگڑا ہوا ہے اس کا تو ہمیں
علم نہیں لیکن آج کل کے عاملین اور بابائوں کی بہتات اور ہوشربا کرامات و
خرافات دیکھ کر بے ساختہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ " یہاں کا تو بابے کا باوا
ہی بگڑا ہوا ہے"-
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی جن کا شمار ملک کے بڑے مزاح نگاروں میں ہوتا ہے
اور وہ خود بھی طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی 25 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔
وہ بھی "نام میں کیا رکھا ہے" کے مضامین پڑھ کر رفیع کی ادبی صلاحیتوں کے
معترف ہوگئے۔ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر معین قریشی نے ہی تحریر کیا پے۔ وہ ایک
جگہ رقم طراز ہیں، " میں سمجھتا ہوں کہ صحافی کا مزاح نگار بننا ایک مجبوری
ہے۔ بطور صحافی اسے اپنی خبروں/ رپورٹوں/ تجزیوں میں Objectivity (معروضیت)
کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ یہ تحریریں "کھانچے بازی" (Angling) کی متحمل نہیں
ہوسکتیں۔ پس، وہ محفوظ طریقے سے پوری آزادی کے ساتھ دل کی بھڑاس نکالنے کی
خاطر طنز و مزاح کے "کانسٹی ٹیوشن ایوینیو" (Constitution Avenue) پر آجاتا
ہے۔ اب وہ قلم بند کرکے رکھ دیتا ہے اور نشتر ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے تاکہ
معاشرے کی دکھتی رگوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہے۔" ڈاکٹر معین قریشی نے
رفیع عباسی کی کتاب میں موضوعات کے چنائو کی بھی دل کھول کر تعریف کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں، " اس کتاب میں جتنے مضامین ہیں، اتنے ہی موضوعات۔ اگر ان کی
درجہ بندی کی جائے تو یوں سمجھئے کہ رفیع عباسی نے سیاسی، سماجی ، معاشی،
معاشرتی، اخلاقی، تعلیمی، تاریخی، ثقافتی، صحافتی ادبی، مذہبی، فلمی، علمی،
حتی کہ طبی موضوعات پر بھی طبع آزمائی کی ہے". انہوں نے اپنے ایک مضمون میں
ایک کینیڈین برانڈ "شیخ الاسلام " سے سوال کیا ہے، "ٹوپی کے نیچے کیا ہے"؟
میں رفیع عباسی سے سوال کرتا ہوں "بھیجے کے اندر کیا ہے"؟ یقیناً وہاں کوئی
ایسی چپ (Chip) ہے جو انہیں بھونرے کی طرح مختلف موضوعات کا رس چوسنے پر
اکساتی ہے". ایک جگہ وہ لکھتے ہیں، مزاح نگار اولا" مسائل کا ادراک پیدا
کرتا ہے اور ثانیاً وہ اپنے قاری کو مسائل کے انبوہ کثیر کے درمیان ہنسی
خوشی جینا سکھاتا ہے جسے رفیع عباسی نے "مک مکا" کا نام دیا ہے۔ اس کی ایک
مثال ان کے مضمون "مچھر ہمارے بھائی" میں دیکھی جا سکتی ہے۔ رفیع عباسی
مچھر کی کمینی حرکات کو یقینی برکات ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں" اگر طبی
نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو پاکستان کے ہر شخص کی رگوں میں اپنے ذاتی خون
کے علاؤہ مچھر کا خون بھی دوڑ رہا ہے جو وہ اکثر و بیشتر بلڈ ٹرانسفیوژن کے
اپنے قدرتی طریقہ کار کے مطابق ہماری رگوں میں منتقل کرتا رہتا ہے۔ مچھر
دنیا بھر کے انسانوں کو انتقال خون کے ذریعے خونی رشتے منسلک کرنے کا فریضہ
رضاکارانہ طور پر انجام دیتا ہے۔ یہ ایک صحت مند شخص کا خون چوس کر دوسرے
کمزور شخص کے بدن میں منتقل کرتا ہے" اس سے مصنف کے تخیل کی بلند پروازی کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے"-
رفیع عباسی کو بقول شاعر "نہ ستائش کی تمنا ہے، نہ صلے کی پروا" وہ اس کتاب
میں اپنی زندگی کے بارے میں اپنے مضمون "بقلم خود" میں رقم طراز ہیں، " زیر
نظر کتاب ہمارے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا وہ مجموعہ ہے جو ملک و بیرون ملک
کے اخبارات و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ ہماری مذکورہ تصنیف "صاحب تصنیف" کی
طرح گم نام یا بے نام ہے۔ ایک مزاح نگار کی خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ اس
کے مضمون کا ہر لفظ، ہر جملہ، پڑھنے والے کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دے، یہی
مسکراہٹ ایک تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیتوں کے اعتراف میں "پرائیڈ آف
پرفارمنس " کا عوامی ایوارڈ ہوتا ہے۔ اسی لئے "نام میں کیا رکھا ہے"۔ انہیں
قارئین کی جانب سے دل کھول کر پذیرائی ملی ہے۔ ان کے پرستار انہیں نام سے
کم اور "نام میں کیا رکھا ہے" کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں۔ موبائل اور
کمپیوٹر کے اس دور میں جہاں بچوں اور بڑوں میں مطالعے کا رجحان ختم ہوتا
جارہا ہے، رفیع عباسی کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین نے بچوں میں کتب بینی کا
شوق پیدا کیا ہے۔ رفیع عباسی کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین نسل نو کے علاؤہ
بزرگوں میں بھی مقبول ہیں۔
رفیع عباسی نے "نام میں کیا رکھا ہے" کی اشاعت کے بعد اس کی تقریب رونمائی
سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ "یہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی ان کی
پہلی اور آخری کتاب ہے"- یہ اعلان انہیں کیوں کرنا پڑا، اس کی وجہ ہمیں جو
معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ اس کتاب کی اشاعت میں انہیں بے پناہ مسائل کا
سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان میں سے سب سے بڑی وجہ مالی تنگدستی تھی۔ انہوں نے
یہ کتاب دس سال قبل مکمل کرلی تھی اور وہ ان کے کمپیوٹر میں محفوظ تھی لیکن
پیسے نہ ہونے کی وجہ سے شائع کرانے کی نوبت نہیں آسکی تھی- ان کا یہ اعلان
سن کر ملک کے نامور صحافی و دانش ور جناب محمود شام اور اختر سعیدی نے
انہیں اپنا بیان واپس لینے پر مجبور کیا- اپنے مخلص ساتھیوں کی حوصلہ
افزائی کے باعث ان کی مزاح نگاری کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے تقریباً ڈیڑھ
درجن مضامین جن میں "دال کا احترام کرو"، "ح سے حلوہ"، "الو بریانی"، "ساس
بھی کبھی بہو تھی"، " جیبی اگالدان"، مختلف اخبارات کے علاوہ پاکستان کی
معروف عالمی ویب سائٹ، "ہماری ویب" پر بھی شائع ہوچکے ہیں۔ "ہماری ویب" کے
توسط سے ان کے مضامین دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے اردو داں طبقے میں
خاصے مقبول ہورہے ہیں-
میں رفیع عباسی کی طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی کتاب کا دیگر مزاح نگاروں کی
تحریروں کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ مذکورہ مزاح
نگاروں کی تحریروں میں نہ تو طنز نظر آتا ہے نہ ہی مزاح، ان کی تحریروں میں
اس اسلوب کا فقدان ہے۔ ان کے مضامین میں سوائے "پھکڑ پن" کے کچھ نہیں ہوتا۔
طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے نام پر ان کی تحریر کردہ کتابیں قارئین کے ذہنوں
پر بوجھ بن جاتی ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں "بقلم خود" کے عنوان سے "نام میں کیا رکھا ہے" کا
تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ "زیر نظر کتاب ہمارے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا
وہ مجموعہ ہے جو ملک و بیرون ملک کے اخبارات میں چھپتے رہے ہیں". "میری
مذکورہ تصنیف، صاحب تصنیف کی طرح گمنام یا بے نام ہے۔ ایک مزاح نگار کی
خواہش صرف اتنی ہوتی ہے کہ اس کے مضمون کا ہر لفظ، ہر جملہ پڑھنے والے کے
ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دے، قاری کی یہی مسکراہٹ ایک تخلیق کار کی تخلیقی
صلاحیتوں کے اعتراف میں "پرائیڈ آف پرفارمنس" کا عوامی ایوارڈ ہوتا ہے، اس
لئے "نام میں کیا رکھا ہے"- انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا عوامی ایوارڈ اپنے
ہر پڑھنے والے سے ملتا ہے۔ لوگ ان کے مضامین پڑھ کر نہ صرف مسکراتے ہیں
بلکہ بعض جملوں سے محظوظ ہوکر قہقہے لگاتے ہیں- رفیع عباسی کو کسی بھی
سرکاری یا ادبی اور سماجی تنظیم کے "ستائشی ایوارڈ" کی ضرورت نہیں ویسے بھی
مذکورہ ایوارڈز زیادہ تر ان صاحب ثروت شخصیات کی نذر کئے جاتے ہیں جو اعلیٰ
حکومتی افسران اور ادبی و سماجی تنظیموں پر ان کے حصول کی خاطر زر کثیر صرف
کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی زمینی حقائق پر مبنی ہے کہ انہیں اپنے اثر رسوخ
اور دھن دولت کے بل بوتے پر حکومتی اور اشرافیہ کی پذیرائی تو مل جاتی ہے
لیکن عوامی پذیرائی سے محروم رہتے ہیں۔ ادبی کارکردگی کا اعلیٰ ترین عوامی
ایوارڈ رفیع عباسی کے حصے میں آتا ہے۔ اختر سعیدی سمیت متعدد ادبی شخصیات
نے رفیع عباسی کو عصر حاضر کا منفرد مزاح نگار قرار دیتے ہوئے ان کی مزاح
نگاری کی مزید تصنیفات شائع ہونے کی پیش گوئیاں کی ہیں جب کہ ان کے شائع
ہونے والے حالیہ مضامین پڑھ کر ہماری بھی ان کے متعلق یہی پیش گوئی ہے-
لیکن رفیع عباسی نے مزاح نگاری کے علاؤہ دیگر سنجیدہ موضوعات پر بھی لکھا
ہے اور روزنامہ جنگ کراچی اور لندن میں ان کے سیر و سیاحت، ایک گائوں ایک
کہانی، وادی مہران سمیت تقریباً دس صفحات جن کے وہ ایڈیٹر تھے، ان میں ان
کے تقریباً 350 آرٹیکلز شائع ہوئے، جن کی مدد سے وہ مزید کئی کتابیں شائع
کرا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے قبل تک وہ سندھ کی تاریخ، ثقافت اور شخصیات پر
مبنی کتاب مرتب کررہے تھے اور اس ضمن میں انہوں نے تقریباً 65 مضامین مکمل
کرلئے تھے لیکن لیپ ٹاپ میں خرابی ہونے کی وجہ سے ان کا کام ادھورا رہ گیا۔
ان آرٹیکلز کے علاؤہ ان کے 550 سے زائد مضامین ، فیچرز، کالمز، انٹرویوز
جنگ کراچی و لندن کے علاؤہ، روزنامہ جسارت، فرائیڈے اسپیشل میگزین، روزنامہ
نوائے وقت، ہفت روزہ رابطہ، اردو نیوز جدہ سعودی عربیہ، روزنامہ الشرق
دوبئی، سہ روزہ دعوت دہلی، ہفت روزہ اخبار خواتین، ماہنامہ اسپورٹس ایونٹس
سمیت ایک درجن سے زائد ملکی و غیر ملکی اخبارات و میگزین میں شائع ہوچکے
ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین جلد ہی ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی دوسری
کتاب کے علاؤہ سیر و سیاحت، افریقہ و جنوبی امریکا سمیت دنیا کے قدیم قبائل
کے بارے میں ان کی شائع ہونے والی کتابیں ملاحظہ فرمائیں گے جن میں تاریخی
معلومات کا خزانہ مخفی ہوگا۔
|