بعد از انبیاء ؑ بزرگ توئی

سیرت ِصدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اخلاق محمدی اور تعلیمات اسلامی کی جیتی جاگتی تصویر ۔
سیدنا ابوبکر صدیق ؓ ایک جامع کمالات ہستی اور اُسْوَہ رسول ﷺ کا پَرْتَوتھے۔

سیرتِ صدیق اکبر رض ۔ اکرام الحق چوہدری

بعد از انبیاء ؑ بزرگ توئی
سیرت ِصدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اخلاق محمدی اور تعلیمات اسلامی کی جیتی جاگتی تصویر ۔
سیدنا ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی ذات مجموعہ محاسن تھی۔ ان کے اوصاف و محاسن کا اس مختصر تحریر میں احاطہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے
وہ فَنا فی الرَّسُول ﷺ تھے کردار و گفتار میں اُسْوَہ رسول ﷺ کا پَرْتَو، رسو ل اللہ ﷺ کے متعدد اقوال کی روشنی میں امت مسلمہ کے سواد اعظم کا یہ ایمان ہے اور اس کا اعلان گزشتہ چودہ سوسال سے دنیا کے مختلف ممالک کی ہزاروں، لاکھوں مساجد کے منبرو مینار سے ہر خطبہ جمعہ میں ہوتا چلا آیا ہے کہ انبیاء کے بعد بہترین انسان ابوبکر رَضِیَ اللہُ عَنْہُُ ہیں۔ قبول اسلام سے پہلے بھی ان کی زندگی عرب معاشرے میں رائج برائیوں، اخلاقی خرابیوں سے پاک تھی۔ قبول اسلام کے بعد تو گویاسونا کٹھالی میں پڑ کر کندن ہو گیا۔
سیدناابو بکر ؓ کی عظمت و بزرگی اور عظیم الشان کامیابی کا راز ان کی حضوراکرم ﷺ سے بے پناہ محبت و عقیدت اور ان کی اطاعت میں ہے۔ انہوں نے اپنا تَن مَن دَھن اللہ کی رضا جوئی، حضور ﷺ کی خوشنودی اور مسلمانوں کی بہبود کے لئے وقف کر دیا۔
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیق ؓ کے لیے ہے خدا کا رسول بس آزاد بالغ مردوں میں ابو بکر ؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور کڑی سے کڑی مخالفت اور شدید سے شدید خطرات میں بھی ہمیشہ حضور ﷺ کے ساتھ رہے۔ ولیم میور جیسا متعصب مستشرق بھی یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا کہ،ابو بکر ؓ محمد ﷺ کے پیروؤں میں سب سے زیادہ ثابت قدم اور مستقل مزاج رہے۔ حضور ﷺ کے تئیس سالہ عہد رسالت میں کوئی ایسا اہم واقعہ نہیں ہوا جس میں ابوبکر ؓ نے آپ ﷺ کی معیت میں اہم کردار ادا نہ کیا ہو۔ ابتدائی اسلام کی تاریخ کو صدیق اکبر ؓ کی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے مطالعہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اخلاق محمدی ﷺ اور تعلیمات اسلامی کا زندہ پیکر تھے۔
انسائیکلو پیڈیاآف اسلام کے مصنفین نے صدیق اکبر کو یوں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ (خلاصہ)
سیدناابوبکر ؓ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ پیغمبر اسلام ﷺ پر غیر متزلزل ایمان رکھتے تھے۔واقعہ معراج کی جس طرح انہوں نے فی الفور اور بلا ہِچکِچاہَٹ تصدیق کی، اس سے وہ صِدِّیق کے لقب سے نوازے گئے جو ہمیشہ کے لئے ان کے نام حصہ بن گیا۔ وہ نہایت کریم انفس،حلیم الطبع اور بردبار تھے۔ تلاوت قرآن کے وقت ان پر رقت طاری ہو جاتی تھی اور بے اختیار زارو قظار رُوتے تھے۔ احکام اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ہدایات کی روح کو فوراًاپنے اندر سو لیتے تھے اور ان پرلفظًا و معنا ًعمل کرتے تھے۔ اسلام کی خاطر اور پیغمبر اسلام ﷺ کے حکم پر وہ بڑی سے بڑی قربانی سے گریز نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ مشکل اور خطرناک مواقع پر پیغمبر اسلام ﷺ کا ساتھ دیا اور ہر قسم کے مصائب اورمشکلات کا مقابلہ انتہائی صبر و تحمل اور جُرْأَت واستقامت سے کیا۔ ان کی زندگی کا عظیم ترین موقع اور نقطہ عروج اس وقت آیا جب پیغمبر اسلام ﷺ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت انہیں ؓ اپنے واحد رفیق ہجرت کے طور پر منتخب کیا۔ ان کی اس بے غرض اور جا نفر وشانہ خدمت کا انعام یہ ملا کہ قرآن میں انہیں ثَانِیَ اثْنَیْنِ (دو میں سے دوسرا) کے معزز لقب سے پکارا گیا اور وہ تاریخ اسلام میں لافانی ہو گئے۔ چونکہ وہ احکام قرآن اوراُسْوَہ رسول کریم ﷺ سے ایک انچ بھی ہٹنا گوارا نہیں کرتے تھے اور ان کی زندگی اور کردار بے حد متقیانہ تھے۔ اس لئے وہ پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات مقدس کا ایک سچا نمونہ بن گئے تھے اور آپ ﷺ کے کردار کی روح کو پورے طور پر اپنے اندر جذب کر لیا تھا۔،،
سیدناابوبکر ؓ نے کبھی کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالی، نہ کبھی کوئی ایسا فعل ان سے سرزد ہوا جس سے حضور ﷺ کو تکلیف پہنچی ہو۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ واحد شخص تھے جنہوں نے کامل اطمینان کا اظہار کیا اور سیدناعمر ؓ کو مشورہ دیا کہ آنحضرت ﷺ کی رکاب تھام لیں۔
محبت و اطاعت رسول ﷺ کا قدرتی تقاضا یہ تھا کہ ابوبکر ؓ کو حضور ﷺ کے اہل بیت سے گہرا قلبی تعلق تھا۔ باغ فدک کے معاملے میں عام روایت کے مطابق اختلاف کے باوجود سیدناابوبکر ؓ ئے سیدۃ النساء سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہُ عنہا سے لطف و محبت کا سلوک کیا اور ان کی دلداری کی کوشش کی۔ فدک کی آمدن اہل بیت کی ضروریات پر صرف کرتے۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓ کی وفات کے وقت ان سے عفو خواہ ہو کر ان کا آئینہ دل صاف کر دیا۔ پھر ان کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔بارہا ایسا ہوا کہ گھر سے باہر نکلے اور سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓکے صاحب زادے سیدنا حسن ؓیا سیدناحسینؓ کھیلتے نظر آئے تو پیار سے انہیں اپنے کندھے پر اٹھا لیتے۔ ایک دفعہ عراق سے ایک خوبصورت اور قیمتی عبا آئی آپ نے وہ سیدنا حسین ؓکی نذر کر دی۔
امہات المؤمنینؓ کی راحت و آسائش اور حضور ﷺ کے حفظ ناموس کا خاص خیال رکھتے اور انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچنے دیتے تھے۔جن لوگوں کے بارے میں حضور ﷺ نے کوئی وصیت فرمائی تھی یا جن پر آپ ﷺ خاص لطف و کرم فرماتے تھے،ابوبکر ؓ نے بھی ان کے بارے میں وصیت نبوی پر عمل کیا۔ اور ہمیشہ ان کی تعظیم و توقیر کو ملحوظ رکھا اور ان سے حسن سلوک سے پیش آتے رہے۔ حضور ﷺ اپنی کِھلائی ام ایمن ؓ کا خاص خیال رکھتے تھے اور اکثر ان سے ملنے جایا کرتے تھے۔سیدنا ابوبکر ؓ بھی اپنی خلافت کے دوران میں ایسا کرتے رہے۔
مسلمانوں کے لئے ایثار اور ان کی نصرت و اعانت میں بے دریغ اپنی دولت لگانا سیدناابوبکر ؓ کا ساری عمر شیوہ رہا۔ انہوں نے بڑی بڑی نفسیاتی الجھنوں اور سیاسی آزمائشوں سے امت محمدیہ ﷺ کو نکالا اور اس کی کامیاب فکری و عملی قیادت کی۔ وہ ملت کے حقیقی لیڈر تھے اور لوگ ان سے محبت کرتے تھے۔ ایسا ہونا ہی چاہئے تھا کیونکہ وہ خود اللہ کے رسول ﷺ سے محبت کرتے تھے۔
حضور اکرم ﷺ کے بعد سیدناابوبکر ؓ نے اسلام کو دوبارہ زندہ اور غالب کیا۔ اسی لئے حضور ﷺ کے بعد دنیائے اسلام پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر ؓ کا ہے شاعر رسول سیدنا حسان بن ثابت ؓ نے اپنے ایک قصیدہ میں سیدنا ابوبکر ؓ کی شان میں کہا:
خیر البریہ اتقاہا واعدلہا
بعد النبی و اوفہا بما حملا
ترجمہ (ابوبکر ؓ تمام مخلوق میں نبی ﷺ کے بعد تقویٰ اور عدل کے لحاظ سے بہتر تھے اور انہوں نے جو کچھ اٹھایا اسے پورا کرکے چھوڑا)
سیدنا ابوبکر ؓ کی زندگی تکلفات اور تعیشات سے پاک تھی، ہمیشہ موٹا جھوٹا پہنتے اور عام مسلمانوں کی سی خوراک کھاتے تھے جو بیت المال سے بقدر کفایت مقررتھی۔
سادگی،تواضع، نرم خوئی، عجز و انکسار، خدمت خلق، عدل و مساوات، بردباری، رقیق القلمی ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ زہد و ورع کا مجسم پیکر تھے۔ نمود و نمائش سے دور بھاگتے تھے۔ سادگی و خود داری کا یہ عالم تھا کہ اپنے تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتے۔ اگر اونٹ پر سوار ہوتے اور اونٹ کی مہار گر جاتی تو خود نیچے اتر کر پکڑتے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میرے آقا و مولا ﷺ نے مجھے حکم دیا ہے کہ انسانوں سے کوئی سوال نہ کروں۔ خود اپنے گھر میں جھاڑو دینے اور چولھے میں آگ جلانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔
خلیفہ ہونے سے پہلے محلہ کی ہواؤں محتاجوں اور یتیموں کا خاص خیال رکھتے تھے، ان کی ضروریات کی دیکھ بھال کرتے، ان کی بکریاں چراتے اور ان کا دودھ دوھ دیتے تھے۔ جب خلیفہ ہوئے تو ایک یتیم لڑکی نے کہا کہ
افسوس! اب ہماری بکریاں کون دو ہے گا؟'' یہ سن کر صدیق اکبر ؓ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! خلافت مجھے خدمت خلق سے باز نہیں رکھ سکے گی۔
آپؓ نفع رسانی اور خدمت خلق میں پیش پیش رہتے۔ بیماروں کی تیمار داری اور ضعیفوں ناتوانوں کی حاجت برآری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ رحم دلی اور صلہ رحمی میں ممتاز تھے اپنے عزیزوں سے ہمیشہ حسن سلوک سے پیش آتے رہے۔
ایک دفعہ سیدنا صدیق اکبر ؓ کے گرد صحابہ کا مجمع تھا۔ ایک صاحب آئے اور کہا کہ ''اے خلیفہ رسول السلام علیکم سیدنا ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ مجھ اکیلے کو سلام کیوں؟ سب کو کیوں نہیں؟ عجز و انکسار اور تواضع میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ لوگ خلیفہ رسول کی حیثیت سے تعظیم و توقیر کرتے تو انہیں تکلیف ہوتی فرماتے کہ مجھے لوگوں نے بہت بڑھا دیا ہے۔
امارت، دنیا طلبی اور جاہ پسندی سے نفرت کرتے تھے۔ تقویٰ اور اکل حلال کا اس قدر اہتمام تھا کہ ایک دفعہ ان کے غلام نے کھانے کی کوئی چیز دی جو اسے فال گوئی کے عوض ملی تھی۔ ابوبکر ؓ نے لاعلمی میں کھالی لیکن جب اس کی حقیقت معلوم ہوئی تو حلق میں انگلی ڈال کر قے کر دی۔ فرمایا کرتے جو جسم اکل حرام سے پرورش پاتا ہے،جہنم اس کا بدترین مسکن ہے۔
نظم و نسق حکومت کی مصروفیات کے باوجود زُہد و عبادت کی یہ کیفیت تھی کہ راتیں قیام وسجود میں اور دن روزوں میں گزارتے تھے۔ نماز کی حالت میں چوب خشک نظر آتے۔ رفت و گریہ سے ہچکی بندھ جاتی۔ حافظ قرآن تھے۔ تلاوت کرتے وقت آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے اور دیکھنے سننے والے بے حد متاثر ہوتے۔
قرآن فہمی میں ابوبکر ؓ تمام صحابہ سے ممتاز تھے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ نماز کی امامت وہ شخص کرے جو قرآن کا سب سے زیادہ عالم ہو۔ اپنے مرض الموت میں حضور ﷺ نے ابوبکر ؓ کو نماز پڑھانے کاحکم دیا اور خود بھی ان کی امامت میں نماز پڑھی۔ یہ اس امر کا اظہار تھا کہ ابوبکر ؓدوسروں سے قرآن کے زیادہ عالم ہیں اور آپ ﷺ کے بعدملت کی امامت اور خلافت کے بھی مستحق۔
رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد سب سے پہلے ایسے بطل عظیم جو اسلام کے سٹیج پر نمودار ہوئے وہ سیدناابوبکر صدیق ؓ تھے۔ حضور ﷺ کے بعد امت مسلمہ سب سے زیادہ انہی کی مرہون احسان ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ پیغمبروں کے سوا ابوبکر ؓ سے بڑے کسی انسان پر سورج طلوع و غروب نہیں ہوا۔ سیدنا ابوبکر ؓ کا عہد،رسول اللہ ﷺ کے عہد کا تتمہ وتکملہ تھا۔
سیدنا ابوبکر صدیق ؓ ایک جامع کمالات ہستی اور اُسْوَہ رسول ﷺ کا پَرْتَوتھے۔
اکرام الحق چوہدری
 

ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری
About the Author: ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری Read More Articles by ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری: 21 Articles with 51891 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.