اسلام کے ابتدائی دنوں میں جب ہر طرف مخالفت اور مصائب کا طوفان بھر پاتھا
۔ان دنوں میں جب مشکلات نے اسلام کو گھیرا ڈال رکھاتھا۔تب ایک ایسی ہستی نے
اپنے مال،وقت اور محبت کے ساتھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور ساتھ
دیاتھا۔یہ ایک خا تون تھی۔جن کا نام حضرت خدیجہ الکبرٰی رضی اللہ عنہا
تھا۔جو آپ کی ازواج مطہرات میں سے پہلی ازواج تھی ۔جنہوں نے آپ کا ساتھ
تب بھی دیا جب تمام لوگ آپکے خلاف تھے۔یہ پوری زندگی آپ کا ساتھ دیتی رہی
اور ہر مشکل حالات میں آ پ کو صبر کرنے کی تلقین کرتی رہتی تھی۔
ایک دن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے وحی کا بو جھ لے کر کا
نپتے ہوئے واپس آئے تو یہی وہ پہلی خاتون تھی جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو حوصلہ اور تسلی دی تھی اور کہا :
"آپ غم نہ کریں،اللہ آپ کوکبھی ضا ئع نہ کرے گا ۔آپ حوصلہ رحمی کرتے
،یتیموں کی مدد کرتے،مظلوموں کے حق میں کھڑے رہنے والوں میں سے ہیں ۔"
یہ الفاظ اسی ہستی کے تھے ۔جنہوں نے اپنی زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم
اوردین اسلام کےلئے وقف کردی ۔ان کو صحا بیا ت کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ان کے
علاوہ اور بھی بہت سی صحابیات ہیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی اور کچھ نے
اپنی اسلام میں داخل ہونے کے بعد کی تمام زندگی دین اسلام کے لئے وقف کردی
۔یہ وہ صحا بیات تھی جنہوں نے اسلام کے اندر آنے کے بعد دنیا کی زندگی کو
خیر آباد کہہ دیا تھااور آخر دم تک دین اسلام پر قائم رہی تھی۔صحابیا ت
ان عظیم خواتین میں سے ہیں جو ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے
میں اسلام لائی تھی۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا بھی تھا۔یہ
ایمان کی حالت میں ہی وفات پائی تھی ۔ان خواتین کو اسلام کے ابتدا ئی دور
میں ہی عظیم قربانیوں کا شرف حاصل ہوا بلکہ انہوں نے اسلام کی تعلیما ت اور
ترقی کو فرو غ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔صحابیا ت نے اپنے سامنے
آنے والی ہر مشکل کا سامنا صبرواستقامت سے کیا ۔صحابیات میں سے کچھ نے
اپنے مال اور دولت سے اسلام کی خدمت کی ۔ان میں سےکچھ نے اپنے علم کے ذریعے
سے اسلام کی خدما ت انجام دی۔انہی میں سے کچھ ایسی تھی جو میدان جنگ میں
بطور جنگجو کی حیثیت سے اپنی خدمات سر انجا م دیا کرتی ۔صحابیات نے دین
اسلام میں اپنا بھر پور کردار نبھایا اسی کے ساتھ ساتھ گھر یلو زندگی میں
بھی ان کا کردار نہایت اہمیت رکھتاہے ۔انہوں نے اپنے گھروں کو دین اسلام کی
روشنی سے اجاگر کیا اس کے ساتھ گھر کے معاملات کو تقویٰ اور صبر سے
چلایا۔ان کی زندگیاں ہمیں نہ صرف گھر یلو زند گی کا سبق دیتی ہیں بلکہ ہمیں
یہ بھی سکھاتی ہیں کہ ایک عورت اپنے گھر کو دین کا گہوارہ کیسے بناتی
ہے۔صھابیات کی زندگیاں نہایت سادگی اور قناعت پر مبنی ہے۔صحا بیا ت نے اپنے
شوہروں کے ساتھ بھی محبت اور وفاداری اور ہر طرح کے حالات میں تعاون کا
اعلیٰ نمونہ پیش کیا ۔صحابیات نے اپنے بچوں کی تربیت میںاور انہیں دین کا
حقیقی داعی بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔صحابیا ت اپنے گھروں میں
عبادات کو ترجیح دیا کرتی تھی اور گھر کو روحانی ما حول کا مرکز بناتی تھی
۔صحابیات نے نہ صرف خودکے گھروں میں مثالی زندگی قائم کی بلکہ دیگر خواتین
کے لئے بھی مشعل راہ بنیں۔
صحابیات کی زند گیوں سےراہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔جیسے دیکھا جائے تو
صحابیات کا ایمان مضبوط تھا۔وہ دنیا وی خواہشات کو کبھی بھی دین اسلام پر
تر جیح نہ دیتی تھی ۔جیسے حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے اپنے مال کو
اور زندگی کو دین کے لئے وقف کردیا تھا۔جبکہ آج کل کی خواتین دین سے
وابستہ ہیں ۔مگردنیاوی مصروفیات ،فیشن اور مادی زندگی ان کےدینی معاملات
میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔بہت سی خواتین دین کی بنیادی تعلیمات سے کوسوں دور
ہوتی چلی جارہی ہیںجیسے نمازاورحجاب وغیرہ۔دین کو اکثر دوسرے نمبر پر رکھ
کر دنیاوی تر جیحات کو جیسے کیرئیر،شہرت اور مادی آسائشیںان کے لئے پہلے
نمبر پر آتی ہیں۔صحابیات کی زندگی میں صبر اور قربانی کی اعلیٰ مثال مو
جود ہے۔وہ دین اسلام کی خاظر اپنی جان ،مالی یہاں تک کہ اولاد تک کو قربان
کردیا کرتی تھی۔ جیسے حضرت خنساء رضی اللہ عنہا نے اپنے چار بیٹوں کی شہادت
پر صبر کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کیا۔جبکہ آج کی خواتین اس معاملے میں
بہت کمزور دکھائی دیتی ہیں ۔ان کی زندگیوں میں صبر کی جگہ اب ما یوسی اور
جلد بازی نے لے لی ہے ۔اس معا ملے میں بہت سی خواتین مشکلات کے مقابلے میں
کمزوری دکھاتی ہیں۔صحابیات نے اپنے گھروں کے معاملات بھی دین کے مطابق ہی
پورے کئے جس کے برعکس وہ بہترین بیویاں ،ما ئیں،بہنیںبن سکیں ۔آپﷺکی زوجہ
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی مثال ایک بہترین مثال ہے۔آج کے دور
کی عورتیں کیر ئیر اور سماجی مصروفیات کی وجہ سے گھریلو ذمہ داریوں کو
ثانوی سمجھتی ہیں ۔اولاد کی تر بیت کے معاملے میں وقت کی کمی اور دینی علم
کی کمی بچو ں پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔
صحابیا ت بھی علم حاصل کرنے کی شوقین تھی ۔انہوں نے دینی اور دنیا وی دونوں
علوم سے آگاہی حاصل کر رکھی تھی ۔حضرت اسماء رضی اللہ عنہا جو حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھی انہوں نے بڑی بہادری اور حکمت دانائی کے
ساتھ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے میں نبی پاکﷺ کی مدد کی تھی ۔اس کے بر عکس
دیکھا جائے تو آج کی عورتیں تعلیم کے معاملے میں تو ترقی کر رہی ہیں ،لیکن
اکثر یہ تعلیم دین کی بجائے دنیاوی مقصد کے لئے استعمال ہو تی ہے۔دینی علم
کی کمی کی وجہ سے زندگی کے اہم فیصلے اسلامی اصولوں کے مطا بق نہیں کئے
جاتے ۔صحابیات کی زندگی شرم و حیا ء کا پیکر تھی۔صحابیات پردے کا بخوبی
اہتمام کیا کرتی تھی ۔صحابیات دین کے احکا مات پر عمل کرتیں تھیں ۔حضرت
زینب رضی اللہ عنہا اور بھی دیگر صحا بیات نے حجا ب کو اپنی زندگی کا حصہ
بنا رکھاتھا۔آج شرم و حیاء کا معیار ہی تبدیل ہوچکا ہے ۔فیشن ،میڈیا اور
سماجی دباؤ کی وجہ سے آج کے دور کی خواتین پردے اور حجا ب کے احکام سے کو
سو ں دور ہو چکی ہیں ۔صحابیا ت دین کے دفاع کے لئے ہر وقت تیار رہاکرتی تھی
۔آج کل کی عورتیں ایسے معاملات میں بلکل خاموش نظر آتی ہیں ۔کچھ خواتین
ہیں جو دین اسلام پر کھل کر بات کرتی ہیں ۔
صحابیات میں سے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا جو اسلام کی سب سے پہلی شہید خاتون
تھی۔ یہ اسلامی تاریخ میں قربانی ،ایمان کی مضبوطی اور استقامت کا ایک روشن
مثال واقعہ ہے۔آپ کا شمار ان بلند پایہ صحابیات میں ہوتا ہے جنہوں نے
اسلام کی راہ میں سخت تر ین اذیتوں کا سامنا کیا ۔آپ کا شمار مکہ کے ان
سات افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے اول وقت میں اسلام قبول کر لیا تھا۔جن کے
نام ہیں حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا
،حضرت بلال رضی اللہ عنہ ،حضرت خباب رضی اللہ عنہ ،حضرت صہیب رضی اللہ عنہ
،آپ کے شوہر حضرت یا سر رضی اللہ عنہ اور آپ کے بیٹے حضرت عمار رضی اللہ
عنہ یہ وہ لو گ تھے جنہو ں نے سچے دل سے اسلام قبو ل کیا تھا ۔آپ رضی اللہ
عنہما مکہ کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔آپ رضی اللہ عنہا حضرت
یا سر رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھی ۔آپ رضی اللہ عنہا حضرت عمار رضی اللہ عنہ
کی والدہ تھیں ۔اسلام کے ابتدائی دنوں میںیہ خاندان ایمان لایا تھا۔جس وجہ
سے مکہ کے کفار کی سختیوں اور اذیتوں کا شکار ہوا ۔حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا
اور ان کے خاندان کو مکہ کے گرم ریتیلے صحراء میں لے جا کر دھوپ میں باندھ
دیا جاتا تھا ۔انہیں کہا جا تا کہ اسلام چھوڑ دیں انہیں اسلام چھوڑنے پر
مجبور کیا جاتا مگر یہ اور ان کےایمان نےکبھی لغزش نہ کھائی ۔ابو جہل جو
اسلام کا سب سے بڑا دشمن اور کافر تھا اس نے حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کو
اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا مگر آپ رضی اللہ عنہا نے انکا ر کر دیا ۔ابو
جہل نے نیزہ تان کر ان کو دھمکا کر کہا کہ تو کلمہ نہ پڑھ ورنہ میں تجھے یہ
نیزہ ماردوں گا حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے زور زور سے کلمہ پڑھنا شروع
کردیا ابو جہل کو غصہ آگیا اور اسی غصہ میں اس نے آپ رضی اللہ عنہا کو
نیزہ دے مارا جس سے آپ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا اور آپ شہید ہو
گئی ۔
غزوہ بدر میں ابو جہل بھی مارا گیا ،تو آپ رضی اللہ عنہا نے عمار سے فر
مایا "دیکھو تمھا ری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کردیا"۔
ان کا واقعہ ہمیں یہ بیان کرتاہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے ظالم کے ظلم کے
سامنے ہمیشہ حق پر ڈٹے رہنا ہی ہماری اصل اور حقیقی کامیابی ہے ۔دین اسلام
کے لئے دی جا نے والی قر بانی ہی ہمیں اللہ کے قریب کرتی ہےآخرت میں سر
خوئی کا با عث بنتی ہے اور رہی بات ظالموں کی ان کا انجام برا ہو تا ہے ۔
صحابیات کی زندگی ہمیں ایمان ،صبر اور قربانی کا سبق دیتی ہے۔آج کل کی
عورتوں کے سامنے صحابیات کی زندگی کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا گیا ہےتاکہ
وہ اس سے یہ سمجھ سکیں کہ دین کو دنیا پر ترجیح دینا ،صبر سے مشکلات کا
سامنا کرنا،اس کے ساتھ ساتھ اپنے گھروں کو تقویٰ وعبادت کا مرکز بنانا کتنا
ضروری ہے۔صحابیات کی زندگیاں آج کی عورتوں کےلئے ایک مشعل راہ کا کام کرتا
ہے ۔آج کی عورتیں اگر صحابیات کے کردار ،حیاءاور دین سے وابستگی کو اپنی
زندگی میں شامل کر لیتی ہیں تو نہ صرف وہ ایک مثالی ماںبلکہ مثالی بیٹی اور
مثالی بیوی بھی بن سکتی ہیںاس کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی فلاح اور ترقی میں
بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔دنیاوی مصروفیات اور مادی خواہشات کے با
وجود بھی اگر یہ عورتیں صحابیات کے نقش قدم پر چلتی ہیں تو وہ اپنی دنیا
اور آخرت دونوں میں کامیا ب و کامران ہو سکتی ہیں۔آج کل کی خواتین کو
چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی تربیت پر بھی توجہ دیں ۔ان کو یہ بھی چاہیے
کہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی خدمت کو بھی اہمیت دیں
۔دنیاوی مصروفیات اور فیشن کو محدود رکھ کر ایمان اور حیاء کو اپنی زندگی
کا حصہ بنائیں ۔صحابیات کی یہ قربانیاں اور خدمت ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں
کہ کامیابی اللہ کے دین پر عمل کرنے میں ہے ۔صحابیا ت کی سیرت ہمیں یہ
پیغام دیتی ہے کہ اللہ کی رضا کےلئے کی جانے والی ہر قربانی کبھی رائیگاں
نہیں جا تی ہے ۔
|