شام کے سائے ڈھلنے لگے۔۔۔پرندوں کو اپنے آشیانوں میں لوٹ
جانے کی فکرستانے لگی۔اندھیرے بڑھ جائیں تو منزل دھندلا جاتی ہے۔
چلتے چلتے بالآخر وہ تھک گیا۔۔قدم اٹھانامحال ہو گیا۔صدشکر قریب رکھے لکڑی
کے بےجان بینچ نے اسے سہارا دیا۔ذہن پر بوجھ ذیادہ تھا یا قدموں پر۔۔۔اسے
اندازہ لگانے میں قدرے دشواری ہوئی۔
سوچوں کی مسافت نے کتنا تھکا دیا نا! یہ تھکن کیسے اتارے۔۔؟۔سوچ پر سوچ نے
تھکن کو مزید بڑھا دیا۔۔حد ہے ! وہ جی بھر کر بے زار ہوا۔اور بینچ کی پشت
سے سر ٹکا لیا۔سوچوں نے ایک بار پھر پرواز پکڑی۔
ماہ وسال کیسے گزرے پتاہی نہیں چلا۔ابھی کل کی بات ہے 2024 کا پیڑ اس کے
سامنے ہی لگا تھا۔۔سال بھر میں کتنی خزاں بہار دیکھی اس ننھے پیڑ نے، یکدم
ہی اسکے کٹنے کا وقت بھی آگیا۔۔آہ! کیسے گزر گیا سال بھر کچھ حاصل حصول ہی
نہیں۔۔افسردگی نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اچانک بینچ کے قریب لگے درخت میں ہلچل ہوئی۔۔اور اس کی سوچوں میں خلل
پڑگیا۔۔وہ چونک کر سیدھاہو بیٹھا۔بغور دیکھا تو درخت کا انداز شکوہ
بھرالگا۔۔۔گویا یہ گھنا درخت 2024 کا وہ ننھا پیڑ ہو جو سال بھر میں ہی
زمانے کے سردو گرم سےتناور درخت بن گیا اور شکوہ کر رہاہو کہ حاصل حصول میں
مت پڑو۔۔ تمہارے حصے میں خسارے ہی آئیں گے۔۔کیونکہ تم خساروں کے شیدائی
ہو۔۔۔
میں خساروں کاشیدائی۔۔۔؟ کیسے۔۔۔؟اسے تعجب ہوا۔
تم ہو شیدائی۔۔تم خود خوش رہنانہیں چاہتے۔۔ہر چھوٹی بات تمہارے نازک دل پر
گراں گزرتی ہے۔۔ہجوم میں تم خود کو تنہاسمجھتے ہو۔۔ رونقیں تمہیں گراں
گزرتی ہیں۔۔۔خوشی تمہں خوش اور مطمئن نہیں کرتی کیونکہ تم دکھی انسان کاٹیگ
ساتھ لگائے رکھناپسند کرتے ہو تم خود کوآدم بیزار دکھا تے ہو۔۔جبکہ تم
ہمیشہ سے اچھی صحبت کے تمنائی ہو۔۔جیسے تم ہو ویسے کیوں نہیں رہتے۔۔۔؟
تم کسی اور کونہیں بلکہ سراسر خود کو دھوکےمیں رکھتے ہو۔۔درخت کی آواز
بھرائی ہوئی تھی ۔۔۔شاید تھکن زدہ بھی۔۔
مجھے تم نے اور تمہاری خودساختہ سوچوں نے تھکا دیا ہے۔۔درخت نے مزید شکوہ
کیا۔۔۔وہ خاموش سنتارہا۔۔
میں تمہاراسال تھا۔۔مجھےتم نےسنوارناتھا۔۔کیا 365 دنوں میں سںے میں نے
تمہیں کوئی خوشی کے لمحات نہیں دیئے؟ تم کیوں کہتے ہو کہ مجھے سال بھرکچھ
حاصل نہیں ہوا۔۔۔تم مجھے بے ثمرگردانتے ہو۔۔۔تم بہت بے رحم انسان ہو۔۔۔لمحے
بھر کے دکھ کو سینے سے لگائے رکھتے ہو اور سارے رنگین لمحات فراموش کردیتے
ہو۔۔۔پھرحاصل حصول کی بات کرتے ہو۔۔۔ذراسوچو ۔۔۔تم تو اپنی خودساختہ سوچوں
کے جال میں خود پھنسےہو۔۔لیکن میراکیاقصور ہے؟ مجھے کیوں بےثمر گردان رہے
ہو؟ مجھے بوڑھا زمانے کے سردوگرم نے نہیں ۔۔تم نے کیا ہے۔۔۔تم نے مجھے ضائع
کردیا۔۔کاش! تم میرےہرلمحے کو کھل کرجیتے ۔۔لیکن تم نے مجھے یوں ہی
گزاردیا۔۔درخت کی آوازدردسےکپکپا گئی۔۔۔تم ایسے ہی بےرحم رہوگے۔۔۔آنے والے
ماہ وسال کے ساتھ بھی تم یہی کرو گے۔۔۔یہ تمہاری فطرت ہے۔۔۔یہ کہہ کردرخت
خاموش ہوگیا اور حقیقت واضح ہوگئی۔۔واقعی اس نے اپناایک اورقیمتی سال خود
گنوا دیا۔۔۔۔
رات کے اندھیرے پر پھیلا گئے۔۔۔ہرطرف سناٹاچھاگیا۔پرندےبھی گھروں کولوٹ
چکےتھے۔۔۔
مجھے بھی اب لوٹ جانا چاہیے۔۔۔اس نےسوچااوربوجھل قدموں سے واپسی کےلیے قدم
بڑھادیئے۔۔۔۔
|