سورج آہستہ آہستہ افق کی طرف غروب ہو رہا تھا، اور آسمان
کو سنہری اور گلابی رنگوں میں رنگ رہا تھا۔ ایما چٹان کے نیچے پتھریلے
کنارے پر ایک ٹوٹے ہوئے سنگی دیوار کے دہلیز پر بیٹھی تھی، اس کے پاؤں چٹان
سے کچھ اوپر لٹک رہے تھے۔ سمندر ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرح چمک رہا تھا، آخری
روشنی کی کرنوں کو منعکس کرتا ہوا، جبکہ ایک نرم ہوا اس کے نم بالوں میں
سرک رہی تھی، جو ابھی تک اس کے دوپہر کے تیراکی سے بھیگے ہوئے تھے۔
صرف ایک نرم سفید تولیہ اوڑھ کر، جو اس کے جسم کے گرد چمٹ کر لپٹا ہوا تھا،
ایما خود کو کمزوری اور آزادی دونوں کا احساس کر رہی تھی۔ یہ ایک طویل ہفتہ
تھا؛ اس کے کام کی مطالبات اور اس کے روزمرہ کے معمولات کا ہلکا سا بوجھ اس
پر تھا۔ لیکن اس لمحے میں، سمندر کے وسیع منظر سے نظریں جمائے وہ ایک پناہ
گاہ محسوس کر رہی تھی — یہ سب کچھ سے عارضی طور پر بچنا تھا۔
سمندر لامتناہی محسوس ہوتا تھا، نیلا پانی جس کے نیچے بے شمار راز پوشیدہ
تھے۔ ایما ہمیشہ سمندر کی طرف کھنچی جاتی تھی، اس کی لہر زدہ حرکتیں اس کے
بے چین خیالات کے لیے ایک پرسکون مرہم کی طرح تھی۔ اس نے آنکھیں بند کر
لیں، دنیا کی آوازوں کو مدھم ہونے دیا — صرف لہروں کا ٹوٹنا اور دور سے آتی
ہوئی سمندری پرندوں کی آواز باقی رہ گئی۔
چند ماہ پہلے، ایما نے اسی جگہ پر کھڑے ہو کر اسی افق کو دیکھا تھا، لیکن
اس وقت اس کی حقیقت کا بوجھ کچھ مختلف محسوس ہو رہا تھا۔ وہ یاد کرتی ہے کہ
اس کے کندھوں میں تناؤ تھا، جب وہ زندگی کی وہ ذمہ داریاں اور مایوسیاں
محسوس کر رہی تھی جو اس کے راستے میں آئی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب اس نے خود
کے لیے وقت نکالنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا، اپنے وجود کے شور میں کچھ سکون
کے لمحات نکالنا سیکھا نہیں تھا۔
آج وہ چٹان پر صرف منظر دیکھنے کے لیے نہیں آئی تھی؛ وہ یہاں اکیلا وقت
گزارنے آئی تھی، سکون تلاش کرنے آئی تھی۔ جب وہ وہاں بیٹھی تھی، اس نے یاد
کیا کہ یہاں آنے کا فیصلہ اس سوال سے آیا تھا جو اس نے آج صبح اپنے آپ سے
پوچھا تھا: "تم حقیقت میں کیا چاہتی ہو؟"
اس کے جسم کے گرد لپٹا تولیہ ایک کوکون کی طرح محسوس ہو رہا تھا، جو اسے
باہر کی دنیا سے محفوظ رکھے ہوئے تھا۔ اس نے گہری سانس لی، تازہ سمندری ہوا
میں سانس بھر کر اس کی خوشبو اپنے اندر اتاری۔ اس کے خیالات الجھنا شروع ہو
گئے، اس کی پریشانیوں اور خوف کا بوجھ آہستہ آہستہ امید کی بڑھتی ہوئی
محسوسات میں بدلنے لگا۔
دور سمندر میں ایک کشتی ہلکے سے لہرائی ہوئی تھی، اس کے سفید بادبان ہوا سے
بھرے ہوئے تھے۔ ایما نے اس کشتی کی آزادی پر حیرانی سے نظریں ڈالی، جو
زندگی کی پیچیدگیوں سے آزاد نظر آ رہی تھی۔ "شاید وہ میری طرح ہو سکتی ہے،"
اس نے مسکاتے ہوئے کہا، اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
شاید یہ وقت ہے کہ وہ اپنی زندگی میں نئی سمت اختیار کرے، نئے پانیوں کو
تلاش کرے، چاہے اس کا مطلب پرانی چیزوں کو پیچھے چھوڑ دینا ہو۔
لیکن جب آسمان ایک مدھم رات کی رنگت اختیار کر رہا تھا، قصبے کے گھنٹے بجنے
لگے، جو اسے یاد دلا رہے تھے کہ شام آ رہی ہے اور واپس گھر میں اس کے منتظر
ذاتی ذمہ داریاں آ رہی ہیں۔ وہ لمحہ مختصر تھا، اور اس کے ساتھ ہی ایک
اچانک احساس نے اس کے دل کو پکڑ لیا۔
"صرف پانچ منٹ اور،" اس نے اپنے آپ سے کہا، اور دوبارہ سکون کی لہر کو اپنے
اندر محسوس کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایما نے سمجھا کہ اسے اس احساس کو اپنے
اندر گہرائی سے قبول کرنا چاہیے — صرف ایک بچاؤ کے طور پر نہیں، بلکہ
تبدیلی کی بنیاد کے طور پر۔ وہ جانتی تھی کہ اسے اس آزادی اور طاقت کے
احساس کو اپنی زندگی میں واپس لانا ہے۔
سمندر کی لہروں کو آخری بار دیکھتے ہوئے، اس نے اٹھ کر تولیہ کو اپنے جسم
کے گرد مضبوطی سے لپیٹا، اس کے جسم پر اس کی حرارت کا احساس کرتے ہوئے۔ اس
نے آخری گہری سانس لی، اور خوشبو اور آوازوں کو اپنے اندر بھر کر آگے کے
سفر کے لیے حوصلہ حاصل کیا۔
چٹان کے دہلیز سے ہٹتے ہوئے، ایما نے خود کو ہلکا محسوس کیا، اس کی فکر کا
بوجھ آہستہ آہستہ جیسے صبح کی دھند کی طرح ختم ہونے لگا۔ یہ وقت تھا کہ وہ
سکون کے ان مختصر لمحوں کو ایک گہری، بامقصد زندگی میں تبدیل کرے۔
اس کے پاس ابھی تک تمام جوابات نہیں تھے، لیکن جب وہ دہلیز سے ہٹ کر چل رہی
تھی، ایک بات واضح تھی: لہروں کو گلے لگانا زندگی سے بچنا نہیں تھا؛ یہ
زندگی کو گزارنے کا سلیقہ سیکھنا تھا۔
|