سمندر کی گہرائیوں میں

زندگی کی گہرائیوں میں پوشیدہ راز ہمیں سادگی اور لمحے کی خوبصورتی کو سمجھنے کا درس دیتے ہیں۔

سمندر کی گہرائیوں میں، جہاں روشنی مدھم ہو جاتی ہے اور شور مدہم سرگوشیوں میں بدل جاتا ہے، وہاں زندگی اپنی نرالی دنیا سجائے بیٹھی ہے۔ وہ دنیا جہاں وقت کی قید سے آزاد مخلوقات اپنی فطرت کے رنگ بکھیرتی ہیں۔ یہ پانی کا جادوئی آسمان ہے جہاں ہر مخلوق اپنی خود مختار کائنات میں رقصاں ہے۔

ایک عورت، جو شاید اپنی زمین کی تنگیوں سے فرار چاہتی تھی، سمندر کے نیلے پانیوں میں اترتی ہے۔ اس کے جسم پر سورج کی کرنوں کا عکس پڑتا ہے، اور وہ نیلا پانی اس کی روح کی آزاد خواہشات کی کہانی سناتا ہے۔ یہاں، پانی کے بیچوں بیچ، وہ ایک ڈولفن سے ملاقات کرتی ہے۔

ڈولفن، جو سمندر کی دانائی اور خوشی کی علامت ہے، اپنی معصومیت کے ساتھ اس کے قریب آتی ہے۔ وہ عورت اپنے ہاتھوں سے ڈولفن کو چھوتی ہے، اور ایک لمحہ، جیسے کائنات کے راز ان دونوں کے درمیان پلک جھپکنے میں سمٹ آئے ہوں، وہ لمحہ وجود میں آتا ہے۔

یہ منظر صرف ایک حیاتیاتی رابطہ نہیں، بلکہ انسانی روح اور قدرت کے درمیان ایک مکالمہ ہے۔ عورت کی آنکھوں میں سوالات ہیں: "کیا تم، اے سمندر کی مخلوق، میری تنہائی کو سمجھتی ہو؟ کیا تم میرے اندر کی بھٹکتی ہوئی روح کے سوالات کا جواب دے سکتی ہو؟"

ڈولفن، اپنی فطرت میں آزاد، کسی بھی مادی قید سے ماورا، جیسے کہہ رہی ہو، "زندگی صرف ایک بہاؤ ہے۔ نہ کوئی آغاز ہے، نہ انجام۔ یہ صرف لمحے ہیں، جو تمہیں جینا سکھاتے ہیں۔"

یہ فلسفہ اس عورت کو زندگی کی ایک گہری حقیقت سمجھاتا ہے۔ سمندر کی یہ گہرائیاں، ڈولفن کی یہ سادگی، اسے باور کراتی ہے کہ خوشی تلاش کرنے میں نہیں، بلکہ اس لمحے کو محسوس کرنے میں ہے جس میں تم موجود ہو۔

جب عورت ڈولفن کے قریب ہو کر اس کے ماتھے پر ایک نرم بوسہ دیتی ہے، تو یہ عمل صرف محبت کا نہیں، بلکہ فطرت کے سامنے جھکنے کا اقرار ہے۔ یہ انسان کے محدود وجود اور کائنات کی لامحدود وسعت کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔

سمندر کی لہریں، جو ہر پل بدلتی ہیں، ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ زندگی میں کوئی بھی لمحہ مستقل نہیں۔ یہ مسلسل بہاؤ ہمیں اپنی حقیقت کو قبول کرنے اور اس لمحے کی خوبصورتی کو اپنانے کا درس دیتا ہے۔

ڈولفن کا وجود اس عورت کے لیے زندگی کے اُن رازوں کی نمائندگی کرتا ہے جو ہمیں اکثر دیکھنے کو نہیں ملتے۔ وہ راز جو ہمیں بتاتے ہیں کہ خوشی، محبت، اور سکون، یہ سب انسان کے اندر موجود ہیں، لیکن انہیں دریافت کرنے کے لیے ہمیں اپنی مادی دنیا سے باہر قدم رکھنا ہوگا۔

یہ فلسفہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ انسان اور فطرت کا رشتہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ چاہے ہم کتنا ہی ترقی کیوں نہ کر لیں، ہم ہمیشہ اس زمین، اس پانی، اور ان مخلوقات کے محتاج رہیں گے جو ہمیں ہماری اصل کی یاد دلاتی ہیں۔

آخر کار، عورت پانی کی سطح پر واپس آتی ہے، لیکن اس کی روح سمندر کی گہرائیوں میں کہیں رہ جاتی ہے۔ وہ واپس جا رہی ہے، لیکن اس کے دل میں وہ فلسفہ جاگزیں ہے جو اس نے ڈولفن کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔

یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کی گہرائیاں ہمیں انمول سبق دیتی ہیں، اگر ہم انہیں سمجھنے کی ہمت کریں۔ یہ کہانی انسان کی فطرت کے ساتھ تعلق کی ایک لازوال مثال ہے، جو ہر دور میں ہمارے دلوں کو چھوتی رہے گی۔
 

Dr. Shakira Nandini
About the Author: Dr. Shakira Nandini Read More Articles by Dr. Shakira Nandini: 384 Articles with 265573 views Shakira Nandini is a talented model and dancer currently residing in Porto, Portugal. Born in Lahore, Pakistan, she has a rich cultural heritage that .. View More