بے نظیر بھٹو جمہوریت پسند تھیں اور جمہور کے جلسے میں ہی جان دے دی۔۔۔۔بحیثیت سیاست دان مخالفوں کے خلاف تنقید میں کچھ تیز نشتر چلائے،لیکن پھر بھی وہ حد نہ پار کی جو پاکستان کے مرد سیاست دانوں نے اُنکے اور خصوصاً ایک خاتون کے خلاف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔۔۔۔آج جمہوریت کے دعویداروں نے اُنکی دونوں جمہوری حکومتوں میں رخنہ ڈال کر آج کی جمہوریت کا چہرہ بھی بے نقاب کر دیا۔۔۔۔ |
|
|
محترمہ بے نظیر بھٹو کی فیملیز |
|
محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی شخصیت میں سب سے اہم اُنکی جمہوریت پسند سوچ تھی جسکے لیئے اُنھوں نے اپنے والد زیڈ۔اے۔بھٹو سے تربیت لی تھی اور دوسرا جن اعلیٰ تعلیمی داروں سے اُنھوں نے تعلیم حاصل کی تھی اُنکے اثرات بھی محترمہ کی شخصیت میں واضح نظر آتے تھے، لیکن جیسے ہی حکومتی ذمہداریوں اور اُنکی شادی کے بعد کی ذاتی زندگی کی بات آتی ہے تو اُنکے قول و فعل میں کہیں کہیں تضاد ضرور نظر آتا ہے۔ جسکے باوجود اُنکی شہادت کے 17سال بعد بھی اُنکی شخصیت بہت سے چیلنجز کے گِرد گھومتی ہو ئی نظر آتی ہے۔: ٭ضیا ء دور کی مارشل لاء میں اُنکی اسیری: اولا د اور وہ بھی بیٹی بے نظیر بھٹو، جسکا سوال تھا کہ اُنکے والد سابق وزیر ِاعظم پاکستان زیڈ۔ اے۔ بھٹو کو کس جُرم پر تختہ دار پر لٹکایا گیا؟ اُس وقت کے اَمر چیف آف دِی اَ رمی اسٹاف، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اُنھیں زیڈ۔اے۔بھٹو کی بیٹی ہونے کی وجہ سے کبھی نظر بندی اور کبھی سخت ا سیری کی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔ مارچ1981 ء میں سکھر جیل میں میں اسیری اور کان میں شدید تکلیف کو وہ اپنی زندگی میں کبھی نہ بھول پائیں تھیں۔اسیری کے اُن دِنوں میں ہی اُنھوں نے عزم کر لیا تھا کہ وہ انتقام ضرور لیں گی۔ لہذا اُنکا قول تھا " جمہوریت بہترین انتقام ہے"۔ ٭عام انتخابات میں حکومتی سطح پر پی پی پی مخالف رویہ: اُنکے وزارت ِعظمیٰ کے دو ادوار تھے: پہلا (1988-1990) ،دوسرا (1993-1996)۔ اگست1988ء میں صدر جنرل ضیاء الحق کی ہوائی جہاز کے حادثے میں ہلاکت کے بعد عدلیہ نے ملک بھر میں نومبر1988ء میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات منعقد کروانے کی نوید سُنائی تو سروے کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ِاعظم کی جیت کی صدائیں سُنائی دینے لگیں۔ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فوج کو نمایاں طاقت حاصل تھی۔ جس پر حکومتی سطح پر پاکستان کے ایک اہم ادارے آئی ایس آئی نے اُنکے خلاف مخالفانہ رویہ اپنا تے ہوئے مسلم لیگ، جماعت ِاسلامی اور دیگر چند سیاسی جماعتوں کا "اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی) کے نام سے اتحاد بنوا دیا۔پھر اتحاد سے متعلقہ جماعتوں کی اگلے چند سالوں تک ایسی پُشت پناہی کی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے دونوں دور ِحکومت میں عوامی مسائل حل کرنے کے چیلنجز میں بہت سی رُکاوٹوں کا سامنا کر نا پڑا۔بلکہ آئی ایس آئی سے اپنے تعلقات کو بحال رکھنا عوامی فلاحی کاموں سے بھی بڑا چیلنج تھا۔شاید اسی لیئے اُنھیں دونوں مرتبہ وزارت ِعُظمیٰ کے عہدے برطرف ہونا پڑا۔ ٭ بے نظیر کے مخالف نواز شریف: 1988 کے عام انتخابات میں جب آئی جے آئی کے تمام سرکردہ رہنما شکست کھا گئے تو پنجاب کے وزیراعلی میاں نواز شریف نے کامیابی حاصل کر لی۔ اس جیت نے نواز شریف کی قسمت بدل دی اور جماعت اسلامی کی پشت پنائی کی وجہ سے اُنھوں نے "جاگ پنجابی جاگ" کا نعرہ لگا کر صوبائی انتخابات جیت لیے اور ایک دفعہ پھر پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ کا قلمدان سنبھال لیا۔ لیکن یہ عہدہ اس دفعہ مرکز کے ساتھ محاذآرائی کا باعث بن گیا، جہاں پاکستان کی وزیراعظم تھیں " محترم بے نظیر بھٹو "۔میاں نوازشریف کوپہلے ہی گزشتہ کئی سالوں سے فوج کی آشیرباد حاصل تھی،لہذا اس محاز آرائی نے آئی ایس کا کام آسان کر دیا اور میاں نواز شریف ملک ایک نئے اور قد آور سیاسی شخصیت کی صور ت میں اُبھر کر سامنے آگئے،جنہوں نے پھر محترمہ بے نظیر کو اُنکے دونوں ادوار میں حکومت نہ کرنے دی اور دونوں مرتبہ اُنھیں برطرف کروانے میں کو ئی کسر اُدھار نہ رکھی۔کونسی بہودہ زبان یا الزام نہیں ہو گا جو اُنکی ذاتی زندگی اور حکومتی فیصلوں پر اُنھوں نے نہ لگایا ہو۔نواز شریف کی وجہ سے " چھانگا مانگا اور لوٹاکریسی" جیسی نئی اصطلاحیں پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ ٭آصف علی زرداری الزامات کی زد میں: محترمہ بے نظیر بھٹو جب اکیلی سیاسی اجلاسوں میں یا عوام میں جاتیں تو مخالفین اُنھیں طعنے دیتے جس پر اُنکی والدہ محترمہ نصرت بھٹو نے اُنکی شادی آصف علی زرداری سے کر دی۔پھر جہاں دونوں مرتبہ وزیر ِاعظم کے عہدے سے محترمہ کے برطرف ہو نے کی مختلف وجوہات سامنے آئیں، وہاں آصف علی زرداری کرپشن کی کہانیاں الگ ہی ہوتیں اوردونوں بار محترمہ کی برطرفی کے ساتھ ہی آصف علی زرداری کو گرفتار بھی کیا گیا۔ تاہم، وزیر ِاعظم ہاؤس میں آصف علی زرداری کی شاہانہ زندگی اور سرے محل کی خریداری آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ ٭محترمہ کی عوامی فلاح کیلئے وسعت ِنظر محترمہ بے نظیر بھٹو کو دو مرتبہ وزیر ِاعظم بننے کاموقع ملا،پروہ اپنے عہدے کی معیاد ایک بار بھی مکمل نہ کر سکیں جس میں اہم کردار میاں نواز شریف کا تھا، لیکن بے نظیربھٹو نے اپنی وسعت ِنظر کے مطابق بہت سے عوامی فلاحی کاموں کا آغاز ضرور کیا۔جن میں سے کچھ اُنکی حکومتوں کے دوران ہی مکمل کر لیئے گئے تھے۔ باقی کچھ اُنکی حکومتیں ختم ہو نے کے بعد بامشکل مکمل کیئے گئے اور بعض اہم فلاحی کام فائلوں میں ہی دب کر رہے گئے۔بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام آج بھی جاری ہے اور ایک طبقہ اُسے مستفید ہو رہا ہے۔ بہرحال اُنھوں نے عوام کیلئے جو بنیادی کام کیے، اُن میں " تعمیر ِوطن"پروگرام کے تحت جو نمایاں ہیں: میڈیا سے سنسرشپ کا خاتمہ کیا گیا، انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے ہیومن رائٹس کی وزارت کا قیام، اور متعلقہ قوانین کا نفاذ، چائلڈ لیبر سے متاثرہ بچوں کیلئے سینٹر کا قیام، محنت کشوں کے مفاد میں قانون سازی، ٹریڈ یونین کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ، دورِآمریت میں جبری برطرف کیے گئے 40 ہزار سے زیادہ ملازمین کی بحالی، مزدوروں کو پنشن کا حق دیا، لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم کیئے، خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی،خواتین کیلئے الگ پولیس اسٹیشن،خواتین کو معاشی طور پر طاقت ور بنانے کے لیے قرضوں کے اجرا کا وسیع پروگرام ترتیب دیا گیا۔ پہلا وویمن بینک بھی محترمہ کا کارنامہ ہے۔ خواتین کو روزگار فراہم کرنے کیلئے محترمہ نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پروگرام شروع کیا اور ایک لاکھ 33 ہزار افراد پر مشتمل نیٹ ورک قائم کیا گیا، تاکہ ملک میں دیہی اور شہری خاندانوں کی خدمت کی جاسکے۔ پبلک سروس میں خواتین کے کوٹے مختص کیے گئے اور خواتین جج تعینات کی گئیں۔ بے نظیربھٹو کی حکومت میں عام لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے اور معیشت کو سدھارنے کے اقدامات کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ محترمہ بے نظیر نے 1994 میں نئی پاور پالیسی دی اور آئی پی پیز معاہدے کیئے جس سے ملک میں توانائی کا بحران ختم کرنے میں مدد ملی۔ لوڈشیڈنگ کو ختم کیا گیا اور ایک مربوط معاشی ترقی کی بنیاد ڈالی گئی۔ 1993سے 1996ء کے دوران توانائی، پیٹرول اور کیمیائی شعبوں میں 3 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ FDIمیں ریکارڈ اضافہ ہوا،1800شہروں میں بجلی اور 1.5ملین گیس کنکشن فراہم کیے گئے۔ صحت کے بجٹ میں دو گنا اضافہ کیا گیا۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کیلئے پہلی مہم شروع کی گئی، جس سے لاکھوں بچے مستفید ہوئے اور پولیو کا مکمل خاتمہ کیا گیا۔ زرعی اور صنعتی شعبے کی ترقی کیلئے مناسب منصوبہ بندی کی کوشش ضرور کی گئی لیکن یہی وہ شعبے ہیں جنکی گزشتہ کئی سالوں سے آمدن اور حکومت کی وصولیوں میں فرق پاکستان کو بیرونی قرضوں کی طرف راغب کرتی رہتی ہے۔ ٭خارجہ پالیسی: دُنیا بھر میں زیڈ۔اے۔بھٹو جیسی شخصیت اور پھر اُسکی بیٹی دونوں کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے۔ لہذا بے نظیر بھٹو کی عالمی سیاست پر نظر کسی عالمانہ سے کم نہیں تھی۔جبکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ضیاء دور اور جہاد ِافغانستان کی وجہ سے نئے چیلنجز کا سامنا کر رہی تھی اور دائمی مسائل کشمیر اور فلسطین اپنی جگہ مزید ابتر حالت میں موجود تھے۔بے نظیر نے پاکستانی وزارت ِخارجہ کی بریفنگ کے مطابق ہر فیصلے کو پاکستان کی ساکھ اور سا لمیت کے مطابق کرنے کی کوشش کی۔ اسکے لیئے اُنھوں نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ پیچیدہ تعلقات کو بھی آگے بڑھایا۔ جسکے لیئے اُنھیں خاص طور پر امریکہ اور بھارت کے ساتھ توازن بھی قائم کرنا تھا۔ اسلامی ممالک میں بھٹو کی بیٹی کی وجہ سے اُنھیں عزت کی نظر سے دیکھا گیا۔لیکن پاکستان کی حزبِ اختلاف نے قسم کھائی ہوئی تھی کہ صر ف تنقید اور سیکیورٹی خدشات کے ساتھ چیلنج کیا جاتا رہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے اُنھو ں نے اپنی دوسری مدت کے دوران ایٹمی پروگرام کو مزید اہمیت اور تقویت دینے کیلئے پاکستان کے جوہری ترقیاتی پروگرام کی حمایت کی۔ مزائل پروگرام کیلئے اُنکی تاریخی کاوشیں عالمی برادری کے ساتھ اُنکے تناؤکا باعث بنیں۔ ٭دہشت گردی: اُنکے دور میں ملک کے اندر بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور انتہا پسندی دیکھی گئی۔جسکے خلاف سیکیورٹی کا انتظام کرنا ایک مستقل چیلنج تھا۔بے نظیر نے اسکے لیئے بھی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن ایک طرف ہندستاون اور دوسری طرف ضیاء دور کی جہاد ِافغانستان کی پالیسی کی وجہ سے افغانستان کی غیر یقینی صورت ِحال کے نتائج پاکستان کو دیکھنے پڑ رہے تھے۔ ٭چارٹر آف ڈیموکریسی ایک تاریخی دستاویز: (میثاق جمہوریت) پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے مئی 2006ء میں لندن میں دستخط کیے جوپاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ چارٹر کا مقصد پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینا تھا۔اسکے لیئے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے خاوند آصف علی زرداری کے ساتھ میاں نواز شریف اور اُنکی فیملی سے ملنے سعودیہ عرب گئیں، جہاں نواز شریف جلا وطنی کی زندگی گزر رہے تھے۔ لہذا بے نظیر کا جمہوریت کیلئے یہ ایک اہم قدم تھا جسکے لیئے نواز شریف بھی راضی ہو گئے۔لیکن تاریخ کیلئے ایک سوال چھوڑ گئے کہ اس معاہدے سے پہلے تک کی محاذ آرائی کی وجہ سے پاکستان کو جو داخلی و خارجی سطح پر نقصانات ہوئے اُنکا ذمہدار کون ہو گا؟ ٭کنگرو کورٹس: بے نظیر بھٹو نے اکثر پاکستان کے عدالتی نظام پر تنقید کی۔وہ اُنھیں ''کنگرو کورٹس'' کی اصطلاح سے منسلک کر کے عدالتوں کی طرف سے متعلقہ ناانصافی اور قانونی حیثیت کی کمی کو اُجاگر کرتیں۔ اُنھوں نے دلیل دی کہ یہ عدالتیں سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کی گئیں، خاص طور پر اُنکے قانونی معاملات اور قید کے دوران اُنھیں اور اُنکے سیاسی اتحادیوں کو نشانہ بنانے کیلئے۔اصل میں اُنکی دونوں مرتبہ حکومت برطرف کرنے کی کورٹس میں اپیلوں کے فیصلے اُنکی برطرفی کے حق میں آئے،جبکہ نواز شریف کی1993 ء میں حکومت کی برطرفی کو عدالت نے ناجائز قرار دیکر اُنکی حکومت بحال کر دی تھی۔ ٭شہادت کا درجہ: 27ِدسمبر 2007 ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو عام انتخابات کے سلسلے میں لیاقت باغ راولپنڈی میں منعقد جلسے کے بعد گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ اس واقعہ کے نتیجے میں اُنکے کے سیاسی حریفوں، میڈیا اور اُنکے حامیوں نے پاکستان میں جمہوریت اور خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد کی علامت کے طور پر بے نظیر کی زندگی اور خدمات کو ناقابل ِفراموش قرار دے دیا۔ زیڈ۔اے۔ بھٹو کی وارثتی ذمہداری کا جسطرح بے نظیر بھٹو نے خیال رکھا اُس سے زیادہ اُنھوں نے اپنا سیاسی انداز بھی مہذبانہ رکھنے کی کوشش کی۔بحیثیت سیاست دان مخالفوں کے خلاف تنقید میں کچھ تیز نشتر چلائے،لیکن پھر بھی وہ حد نہ پار کی جو پاکستان کے مرد سیاست دانوں نے اُنکے اور خصوصاً ایک خاتون کے خلاف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ سیاسی حریفوں نے اُنکے لیئے ایک ہنگامہ خیز سیاسی ماحول پیدا کیئے رکھا۔ سیاسی چالبازیوں اور بدعنوانی کے الزامات سمیت اُنکے اختیار کو کمزور کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ بے نظیربھٹو کی حکومت کو بدعنوانی اور بدانتظامی کے متعدد الزامات کا سامنا کرنا پڑا، جس نے ان کی انتظامیہ کو نقصان پہنچایا اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بنا۔ آج جمہوریت کے دعویداروں نے اُنکی دونوں جمہوری حکومتوں میں رخنہ ڈال کر آج کی جمہوریت کا چہرہ بھی بے نقاب کر دیا۔ بے نظیر بھٹو جمہوریت پسند تھیں اور جمہور کے جلسے میں ہی جان دے دی۔٭٭٭٭٭
|