بھوک کی حقیقت

یہ ایک معمول کی صبح تھی۔ اسلام آباد کے ایک غریب علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے مکان میں فاطمہ اور اس کے تین بچے سو رہے تھے۔ آسمان پر سورج کی کرنیں آہستہ آہستہ روشنی پھیلا رہی تھیں، مگر فاطمہ کی آنکھوں میں مسلسل اندھیرا تھا۔ گھر میں چولہا ٹھنڈا تھا اور آٹے کا ڈرم خالی پڑا تھا۔ پچھلے دو دنوں سے اس نے بچوں کو صرف پانی اور نمکین روٹی دی تھی، مگر آج صورتحال کچھ مختلف تھی۔

"بیٹا، آج کچھ کھانے کو ملے گا؟" فاطمہ نے اپنے چھوٹے بیٹے علی سے پوچھا جو ابھی بھی بستر پر لیٹے ہوئے تھا۔

علی نے سر ہلا دیا اور کہا، "اماں، کیا آپ نے روٹی بنائی؟"

فاطمہ کا دل بری طرح سے چوٹ کھاتا تھا، لیکن اس نے علی کی آنکھوں میں جھک کر کہا، "ہاں، بیٹا، جلد روٹی بن جائے گی۔"

مگر وہ جانتی تھی کہ یہ صرف ایک وعدہ تھا جو وہ خود سے کر رہی تھی۔ اس کے پاس نہ تو آٹا تھا، نہ پیسہ، اور نہ ہی کوئی ایسا ذریعہ تھا جس سے وہ بچوں کو کھانا دے سکے۔

فاطمہ کے شوہر، آصف، ایک معمولی مزدور تھے۔ وہ دن بھر عمارتوں میں مزدوری کرتے، مگر ان کی کمائی اتنی کم تھی کہ گزر بسر کرنا بھی مشکل ہو جاتا تھا۔ پچھلے چند ماہ سے آصف کو کام کے مواقع بھی کم مل رہے تھے، اور جب سے کرونا وبا نے اپنے پنجے گاڑے تھے، حالات مزید بدتر ہوگئے تھے۔

فاطمہ کی نظریں بچوں کی طرف اُٹھیں۔ ان کے چہرے پر بھوک کی لکیریں واضح نظر آ رہی تھیں، مگر وہ چپ تھے۔ بچوں کی حالت دیکھ کر فاطمہ کا دل تڑپ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس کے لیے کیا راستہ ہے؟ کب تک وہ اس صورتحال کو برداشت کرے گی؟

دوسری طرف، آصف گھر واپس آیا۔ اس کا چہرہ تھکا ہارا تھا، اور آنکھوں میں مایوسی کی جھلک تھی۔ اس نے اندر آتے ہی فاطمہ سے کہا، "آج بھی کچھ نہیں ملا۔ ہمیں تو بھیک مانگنی پڑے گی اگر یہی حال رہا۔"

فاطمہ نے آصف کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سر ہلا دیا، اور پھر آصف کی نظر بچوں کی طرف گئی۔ "ہاں، مجھے سمجھ آ رہا ہے۔ میں نے آج کل کی گلیوں میں دیکھنا شروع کر دیا ہے، لوگ کیسے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کھانا ہے؟ کسی کا کچھ نہیں بچا۔"

"آصف، تمہیں نہیں لگتا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ یہ غربت، یہ بھوک، یہ مفلسی کب تک؟" فاطمہ کی آواز میں لرزش تھی، لیکن اس نے آصف کی طرف دیکھا، اور جیسے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ "ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں، اور کشتی ڈوب رہی ہے۔"

آصف خاموش رہا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ معاشرتی نظام نے غریبوں کو کچل دیا ہے، اور حکومت کی جانب سے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں مل رہی تھی۔ پچھلے کئی سالوں میں حکومتی وعدے صرف الفاظ کی صورت میں رہ گئے تھے، اور حقیقت میں عوامی فلاح کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا۔

فاطمہ اور آصف کو سمجھ آ چکا تھا کہ غربت صرف پیسہ یا کھانے کی کمی تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایک جذباتی بحران ہے، جو انسان کو نہ صرف مالی طور پر، بلکہ ذہنی طور پر بھی تباہ کر دیتا ہے۔ اور ان کا سب سے بڑا دکھ یہ تھا کہ ان کے بچے، جو اپنے مستقبل کی خوشبو محسوس کرنا چاہتے تھے، ان کے سامنے صرف ایک سیاہ رات تھی۔

چند دنوں بعد، فاطمہ اور آصف نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا گاؤں چھوڑ کر شہر جائیں گے۔ شہر میں شاید کچھ بہتر مواقع ملیں گے۔ وہ اس امید کے ساتھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گئے۔ لیکن شہر آ کر انھیں یہ حقیقت جاننے کو ملی کہ شہر میں بھی وہی غربت، وہی بھوک اور وہی مایوسی تھی۔ شہر کے پوش علاقوں میں جہاں لوگ ہر خوشی سے زندگی گزار رہے تھے، وہاں کی گلیوں میں فاطمہ جیسے ہزاروں لوگ روزانہ زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے لڑ رہے تھے۔

ایک دن فاطمہ نے شہر کے ایک چوراہے پر ایک چھوٹے بچے کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ بچے کا جسم بھی تھکا ہوا تھا اور چہرے پر گہرے نشان تھے۔ فاطمہ کے دل میں ایک گہری ٹیس اُٹھی۔ اس نے بچہ سے پوچھا، "تم یہاں کیوں بھیک مانگ رہے ہو؟ تمہاری ماں کہاں ہے؟"

بچے نے جواب دیا، "ماں بیمار ہے، اور گھر میں کچھ نہیں ہے۔ کھانا مانگتا ہوں تاکہ ماں کو دوا دلا سکوں۔"

فاطمہ کا دل چھلنی ہو گیا۔ وہ بچہ جو اپنے والدین کی محبت اور دعاؤں سے محروم تھا، ان حالات میں بھی امید کے ساتھ جینے کی کوشش کر رہا تھا۔ فاطمہ نے جیب سے تھوڑی سی رقم نکالی اور بچے کو دے دی۔

"یہ لو، بیٹا، تمہاری ماں کے علاج کے لیے۔" فاطمہ نے کہا۔

بچہ مسکرا دیا اور پیسے لے کر دوڑ گیا۔ فاطمہ کے دل میں ایک نیا عزم پیدا ہوا۔ اس نے سوچا، "یہ بچہ، یہ لوگ، یہ ہم سب، ہمیں اس معاشرتی ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ ہمیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہوگا۔"

شہر میں رہ کر فاطمہ اور آصف نے کئی ایسے لوگوں سے ملاقات کی جو غربت کی وجہ سے بھوک اور بیماریوں کا شکار تھے۔ انھیں احساس ہوا کہ یہ مسئلہ صرف ان کا نہیں، پورے پاکستان کا ہے۔ ایک طرف تو حکومتی سطح پر کچھ اقدامات نہیں کیے جا رہے تھے، اور دوسری طرف ان کے جیسے لاکھوں لوگ زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم تھے۔

فاطمہ اور آصف نے ایک فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گاؤں واپس جائیں گے اور وہاں لوگوں کو اس مسئلے کے بارے میں آگاہ کریں گے۔ انھوں نے اپنے چھوٹے سے گروپ کا آغاز کیا، اور وہاں کی کمیونٹی کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یہ تبدیلی آ سکتی ہے تو وہ عوامی سطح پر بیداری اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے سے ہی آ سکتی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔
 

Allahrazi rajput
About the Author: Allahrazi rajput Read More Articles by Allahrazi rajput: 13 Articles with 1295 views Allahrazi Rajput
🔹 Poet | Writer| psychologist🔹

Born into the proud Rajput legacy, Allahrazi Rajput is a poet, thinker, and changemaker who blen
.. View More