رات کے سناٹے میں ایک ہلکی سی ہوا کے جھونکے نے پردے کو
جنبش دی۔ عائشہ نے چائے کا کپ اٹھایا اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔
باہر تاریکی تھی، اور آسمان پر چمکتے ستارے جیسے اسے کچھ کہنا چاہتے تھے۔
وہ گہری سانس لے کر ماضی کی کسی گمشدہ دنیا میں جا پہنچی۔
عائشہ کی زندگی ایک کھلا راز تھی۔ باہر سے دیکھنے والوں کو لگتا تھا کہ وہ
ایک خوشحال، مطمئن خاتون ہے، مگر اندر کہیں وہ کچھ ایسی یادوں کی قیدی تھی
جو اسے دن رات جلاتی تھیں۔
وہ 20 سال پہلے کی بات تھی۔ عائشہ اور زید یونیورسٹی میں ایک ساتھ پڑھتے
تھے۔ زید کی ہنسی، اس کی باتیں، اور زندگی کو جینے کا انداز، سب کچھ منفرد
تھا۔ دونوں نے کبھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا، مگر ان کے بیچ
ایک خاموش تعلق تھا۔ وہ ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہ تھے، مگر قسمت ہمیشہ
اپنی چال کھیلتی ہے۔
گریجویشن کے بعد زید کسی دوسرے شہر چلا گیا۔ وعدے ہوئے کہ رابطہ رہے گا،
مگر وقت کے ساتھ زندگی کے شور نے ان کی باتوں کو خاموشی میں بدل دیا۔ زید
کی جدائی عائشہ کے لیے کسی گہرے خلا کی مانند تھی، مگر وہ اپنی زندگی میں
آگے بڑھتی گئی۔
سالوں بعد، عائشہ نے شادی کر لی، بچے ہوئے، ذمہ داریاں آئیں، لیکن زید کی
یادیں کبھی ختم نہ ہوئیں۔ وہ ہر چھوٹے لمحے میں چھپی ہوتی تھیں—بارش کی
پہلی بوند میں، کسی پرانی کتاب کی خوشبو میں، یا کسی نغمے کی دھن میں۔
آج وہی یادیں اسے چائے کے ہر گھونٹ کے ساتھ اپنی گرفت میں لے رہی تھیں۔ وہ
جانتی تھی کہ زید کو یاد کرنا بے معنی ہے، مگر کچھ یادیں دل کے ایسے گوشے
میں رہتی ہیں جہاں سے انہیں نکالنا ممکن نہیں ہوتا۔
"زندگی عجیب ہے،" عائشہ نے خود سے کہا۔ "یہ وہ تعلق ہمیں دے جاتی ہے جو
کبھی مکمل نہیں ہو پاتے، مگر انہی ادھورے رشتوں میں شاید زندگی کا اصل رنگ
چھپا ہوتا ہے۔"
چائے ختم ہو گئی، مگر وہ کھڑکی کے پاس کھڑی رہی۔ تاریکی گہری ہو رہی تھی،
مگر اس تاریکی میں وہ ایک روشنی محسوس کر رہی تھی—وہ روشنی جو زید کی یادوں
نے اس کے دل میں چھوڑ دی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ یادیں اسے جلاتی رہیں گی،
مگر یہی جلن اسے جینے کا حوصلہ بھی دیتی ہے۔
یہ کہانی اس حقیقت کا عکس ہے کہ کچھ تعلقات یا یادیں ہماری زندگی کا وہ حصہ
بن جاتے ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ وہ ہمیں تکلیف دیتے ہیں، لیکن ہمیں آگے
بڑھنے کا راستہ بھی دکھاتے ہیں۔ |