جنت کا حصول

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
ہر اہل ایمان مسلمان کا یہ خواب مرنے کے بعد جنت میں جانا ہوتا ہے اور خواہش یہ ہی ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت اسے جنت میں اعلی سے اعلی مقام عطا کرے اور رب تعالی نے بھی قرآن مجید میں اپنے بندوں سے کئی جگہوں پر جنت کے حصول کی خاطر اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی ہے جیسے سورہ العمران کی آیت 133 میں ارشاد ربانی ہے کہ
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُۙ-اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ(133)
ترجمعہ کنزالعرفان: :
اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑوجس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

اسی طرح سورہ الرعد کی آیت 23, 24 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ(23)سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِﭤ(24)۔
ترجمعہ کنزالایمان::
(23)بسنے کے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے اور جو لائق ہوں ان کے باپ دادا اور بیبیوں اور اولاد میں اور فرشتے ہر دروازے سے ان پر یہ کہتے آئیں گے ،
(24) سلامتی ہو تم پر تمہارے صبر کا بدلہ تو پچھلا گھر کیا ہی خوب ملا.
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی طرح سنن ابوداؤد کی ایک حدیث میں ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو لڑائی جھگڑا ترک کر دے، اگرچہ وہ حق پر ہو، اور جنت کے بیچوں بیچ ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو جھوٹ بولنا چھوڑ دے اگرچہ وہ ہنسی مذاق ہی میں ہو، اور جنت کی بلندی میں ایک گھر کا اس شخص کے لیے جو خوش خلق ہو“۔
ان آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس طرح دنیا میں موجود ہر اہل ایمان جنت کا خواہاں ہے بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریمﷺ کی بھی پسندیدہ جگہ جنت ہی ہے اسی لیئے اس کی طرف دوڑ لگانے اور حاصل کرنے کی تلقین کی گئی اور جسے رب تعالی نے اپنے محبوب ، متقی ، پرہیزگار اور اپنے احکامات پر عمل کرنے والوں کے لیئے بنائی ہے جبکہ صحیح مسلم کی ایک حدیث کہ ابوحازم نے کہا: میں نے حضر ت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک مجلس میں حاضر ہوا جس میں آپﷺ نے جنت کی صفت بیان کی حتیٰ کہ آ پ نے بات ختم کی۔ پھر اپنی بات کے آخر میں فرمایا: ’’اس (جنت) میں وہ کچھ ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جنت دراصل اللہ کے محبوب بندوں کے لیئے آخری مقام ہے اور اطاعت گزروں اور پرہیزگاروں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے ۔ یہ ایسا حسین اور خوبصورت باغ ہے جس کی مثال کوئی نہیں ۔یہ مقام مرنے کے بعد قیامت کے دن ان لوگوں کو ملے گا جنہوں نے دنیا میں ایمان لا کر نیک اور اچھے کام کیے ہیں۔ قرآن مجید نے جنت کی یہ تعریف کی ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہوں گی، عالیشان عمارتیں ہوں گی،خدمت کے لیےحور و غلمان ملیں گے، انسان کی تمام جائز خواہشیں پوری ہوں گی، اور لوگ امن اور چین سے ابدی زندگی بسر کریں گے اسی لئے فقہاء کہتے ہیں کہ جنت کا حصول انتہائی آسان کام ہے یہ ہر اس شخص کے مقدر کا حصہ بن سکتی ہے جو اس کے حصول کے لئے سچے دل سے کوشش کرے کیونکہ یہ باری تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرب بندوں کے لئے ہی بنائی ہے اور یہ انہی کے لئے ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کہا جاتا ہے کہ بروز قیامت جب حساب کا معاملہ ہو جائے گا جنتی اور جہنمی لوگوں کا فیصلہ ہو جائے گا تو وہ لوگ جن کے جنت میں جانے کی باری ہوگی تو اللہ تعالیٰ انہیں تین جماعتوں میں تقسیم کرکے ایک جگہ کھڑا کرے گا پہلی جماعت سے پوچھے گا کہ تم نے دنیاوی زندگی میں میری عبادت کی نیکیاں کیں اچھے کام کئے اور میں نے بدلے میں تمہیں جنت عطا کی تو یہ بتائو کہ تم نے دنیاوی زندگی میں میری عبادت کس نیت سے کی تھی تو وہ کہیں گے یا باری تعالیٰ ہم جانتے تھے کہ تو رئوف ہے رحیم ہے کریم ہے لیکن جب پتہ چلا کہ تو جبار بھی ہے تو قہار بھی ہے تو ہم ڈر گئے ہمیں ہر وقت تیرا خوف تھا اور اسی خوف کی وجہ سے ہم تیری عبادت میں مصروف ہوگئے کہ ہوسکتا ہے اللہ اپنے رحیم اور کریم ہونے کی وجہ سے ہمیں بخش دے اور ہمیں جنت کا حقدار بنادے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہاری عبادات سے خوش ہوا اب جائو اور ہمیشہ کے لئے جنت میں رہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں پھر اللہ تبارک وتعالیٰ دوسری جماعت کے لوگوں سے یہ ہی سوال پوچھے گا کہ دنیا میں میری عبادت اور نیکیاں تم نے کس نیت سے کی تھیں تو وہ کہیں گے باری تعالیٰ تو نے قرآن میں فرمایا ہے کہ " پوچھو علم والوں سے جو تم نہیں جانتے " تو ہم ان لوگوں سے جن لوگوں کو تو نے دنیا میں عالم دین کا منصب عطا فرمایا تھا ان سے جنت اور دوزخ کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو ہمیں دوزخ کے عذابات اور جنت کے انعامات کا پتہ چلا بس ہم صرف جنت کے حصول کی خاطر تیری عبادات میں لگ گئے اور نیک کاموں کو کبھی نہیں چھوڑا جبکہ گناہوں کے کام سے توبہ کرلیا اور صرف تیرے احکامات کی پیروی اور تیرے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی باتوں پر عمل پیرا ہونا شروع کردیا تاکہ آج کے اس فیصلے کے دن تو ہمیں جنت عطا کردے ان کی یہ بات سن کر اللہ باری تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہاری نیت اور تمہاری عبادات سے خوش ہوا اب جائو اس جنت میں جس کے حصول کی خاطر تم لوگوں نے اچھے کام کئے یہ جگہ تمہارے لئے ہی ہے اور ہمیشہ اس میں رہو ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد سب سے آخری جماعت کی باری آئے گی اور رب تعالی ان سے پوچھے گا کہ آج تمہیں جنت کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے دنیاوی زندگی میں اپنی نیکیوں اور اچھے کاموں کی بدولت لیکن وہ کیا وجہ بنی کہ دنیا کی خوبصورت ، دلکش ، رنگینیوں اور رعانائیوں والی زندگی کو چھوڑ کر تم لوگ میری عبادت میں لگ گئے اور میرے احکامات پر عمل پیرا ہوگئے تو وہ کہیں گے کہ یا اللہ ہمیں جب معلوم ہوا کہ دنیا کی عارضی زندگی دراصل ایک امتحانی کمرے کی مانند ہے اور یہاں ہم جو کریں گے اس کا حساب ہمیں آج یعنی قیامت کے دن دینا پڑے گا اور اگر ہم آج یعنی قیامت کے دن کے عذابات سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنا ہر کام صرف اور صرف تیری رضا کی خاطر کرنا ہوں گے کیونکہ اگر تو راضی ہوگیا تو ہمیں سب کچھ مل جائے گا ہر وہ چیز جس کی خواہش ہمارے انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان ، اولیاء کرام اور بزرگان دین نے بھی کی اور اپنی زندگیاں صرف تیری رضا میں گزاردی ہمیں جنت کی کوئی طلب نہیں اور نہ ہی ہمیں جنت میں جانے کی خواہش ہے بس تو راضی ہوگیا ہمارے لئے یہ ہی بہت ہے ان کی باتوں کو سن کر باری تعالی فرمائے گا کہ میں تم لوگوں سے راضی ہوگیا اور اپنی خوشی سے تم لوگوں کو جنت میں داخلہ عطا کرتا ہوں تو وہ انکار کریں گے تب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کی انہیں زنجیروں سے باندھ کر کھینچ کر جنت میں داخل کردو ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لئے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ ہیں جنت کے حصول کے مختلف رنگ مختلف انداز اور مختلف طریقے اور جنت کے حصول کے ان طریقوں پر چلنے کا راستہ بھی وہ ہی ہے جو ان اہل ایمان مسلمانوں نے دنیاوی اور عارضی طور پر ملنے والی زندگی میں اپنایا یعنی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور اس کے حبیب کریمﷺ کی باتوں پر عمل کرنا ایک بات ہمیشہ یاد رکھئے کہ ہر اہل ایمان مسلمان کی صرف یہ جستجو ہوتی ہے یا ہونی چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو اس طرح گزارے کہ رب تعالیٰ اس سے راضی ہوجائے کیونکہ جب رب تعالیٰ اپنے کسی بندے سے خوش ہوتا ہے یا راضی ہوجاتا ہے تو وہ اپنے بندوں کو بیشمار نعمتوں سے نوازنا چاہتا ہے اور اس کے پاس اپنے بندے کو انعام کی صورت میں تحفہ کی صورت میں دینے کے لئے جنت سے جیسی خوبصورت اور ہمیشہ قائم رہنے والی جگہ موجود ہے جہاں اپنے بندوں کو داخل کرکے وہ بہت خوش ہوتا ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں جب اللہ تعالٰی کسی سے راضی ہوتا تو وہ اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے ذریعے اس بندے تک جنت کی بشارت دیتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ کئی صحابہ کرام علیہم الرضوان کو خود حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت سے سرفراز فرمایا اور انہیں جنتی قرار دے دیا بالکل اسی طرح جیسے ایک حدیث کے مطابق ایک دفعہ مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ سامنے والے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دیکھو ابھی وہاں سے جو شخص نمودار ہونے والا ہے وہ اہل جنت میں سے ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں تھوڑی ہی دیر میں ایک انصاری صحابی وہاں سے نمودار ہوئے وضو کے قطرے ان کی داڑھی سے ٹپکتے ہوئے صاف دکھائی دے رہے تھے بارگاہ رسالتﷺ میں سلام پیش کرنے کے بعد وہ ایک جگہ خاموشی سے بیٹھ گئے تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان ان کے چہرے کی زیارت سے سرفراز ہورہے تھے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب دوسرے دن حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اسی طرح فرمایا تو لوگوں میں تجسس پیدا ہوگیا کہ دیکھیں آج کس کا نام آتا ہے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان کے حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دوسرے دن بھی وہ ہی انصاری صحابی تشریف لائے لیکن جب تیسری مرتبہ ایسا ہوا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان میں تجسس کے ساتھ ساتھ رشک بھی پیدا ہوگیا اور جب محفل کے برخاست ہونے پر وہ انصاری صحابی اپنے گھر کی طرف جانے لگے تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان کے پیچھے ہوئے اور جب وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچے تو فرمایا کہ میں کسی وجہ سے تین راتیں اپنے گھر نہیں جاسکتا کیا آپ مجھے اپنے گھر میں قیام کی اجازت دیں گے ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ انصاری صحابی بسمہ اللہ پڑھ کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اپنے گھر کے اندر لے گئے جہاں انہوں نے تین راتیں قیام فرمایا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس جستجو میں تھے کہ دن بھر کے معمولات کے علاوہ آخر وہ کون سا خاص عمل ہے جو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنا محبوب قرار پایا کہ تین دن تک جنت کی نوید صرف انہی کا نصیب بنتی رہی لیکن ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کوئی بھی تو غیر معمولی عمل اس انصاری کا نظر نہ آیا۔ ان کے شب و روز کے معمولات وہی تھے جو باقی تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے تھے آخر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نہ رہا گیا اور اپنے اس انصاری دوست سے کہا کہ دراصل آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہاں تین راتیں رکنے کا مقصد یہ تھا کہ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کون سا ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے مسلسل تنی دن تک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیئے جنت کی بشارت دی لیکن مجھے کوئی خاص عمل نظر نہیں آیا ہوسکتا ہے کہ وہ عمل میری نظر سے نہ گزرا ہو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بتا دیجئے تو انصاری صحابی نے کہا کہ میرے سارے اعمال تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ہیں دوست ان کا یہ جواب سن کر جب میں واپس آنے کے لئے اٹھا تو انہوں نے کہا کہ عمل تو وہی تھے جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھے لیکن ایک دل کی بات بتادیتا ہوں کہ ’میرے دل میں کسی مسلمان کے لئے کینہ نہیں ہے اور نہ میں اللہ کی طرف سے اسے ملنے والی کسی نعمت پر حسد کرتا ہوں۔ ‘‘ایک اور روایت میں یہ کچھ اس طرح بھی آیا ہے کہ ’’میں نے کسی مسلمان کے بارے میں کبھی اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھ کر رات نہیں گزاری۔ ‘‘
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما خوشی سے پکار اٹھے۔ یہی تو راز ہے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کی مقبولیت کا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انصاری صحابی کے دل کا کسی اور مسلمان کے لئے حسد، کینہ اور بغض و عناد سے پاک ہونا ان کے لئے جنت کی خوشخبری کی نوید بن گیا اور یہاں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اپنے دل میں کسی کے لیئے بغض رکھنا کسی سے حسد کرنا اور اللہ رب العزت کی طرف سے کسی کو ملنے والی نعمت پر دل میں اس کے لئے کینہ رکھنا صرف تباہی کی طرف لے جاتا ہے جبکہ ان چیزوں سے بچنے والے کے لئے جنت کی بشارت ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مضمون کے شروع میں سورہ العمران کی آیت میں جس طرح ارشاد باری تعالی ہوا کہ رب کی بخشش اور جنت کی طرف دوڑو یعنی زندگی میں ہر کام کرنے کا مقصد اللہ کی رضا ہو یا جنت کا حصول ہو اور جنت کے حصول کی خاطر کوشش کرنا اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی تعمیل کرنا احادیث مبارکہ میں بیان کیا گیا حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا ہر فرمان کو پڑھنا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا قرآن اور حدیث میں ہر وہ عمل جس کی جزا جنت بیان کی گئی ہے اس پر عمل پیرا رہنا گویا اپنی زندگی انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابہ کرام علیہم الرضوان ،اولیاء کرام اور بزرگان دین کی طرح گزارنی ہوگی جو صرف جنت کے حصول کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی خاطر گزاری تاکہ بروز قیامت رب العزت اپنی رحمت کے طفیل ہمیں بھی جنت کا اعلی سے اعلی درجہ عطا فرمائے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اگر ہم زندگی کے ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرنا شروع کردیں تو وہ وقت دور نہیں جب رب تعالیٰ ہم سے ہمارے اعمال کے سبب اور راضی بھی ہو جائے گا اور ہمیں جنت بھی عطا فرمائے گا ان شاءاللہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ ایمان کے ساتھ کرے زندگی کو اپنے حکم کی تعمیل میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے مجھے سچ لکھنے ہمیں پڑھ کر سمجھ کر اس پر عمل کرنے توفیق عطا فرمائے اور ہماری جنت کے حصول کی کوششوں میں مصروف عمل رکھے آمین آمین بجاالنبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 172 Articles with 139926 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.