عبادات انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد کے خوبصورت و
شاندار کانفرنس روم میں گزشتہ بروز اتوار ایک عظیم الشان کانفرنس شاعر مشرق
علامہ محمد اقبال ؒکے حوالے سے منعقد کی گئی۔یہ کانفرنس صدر شعبہ اردو
ڈاکٹر عارف فرہادصاحب نے منعقد کروائی۔یونی ورسٹی کا کانفرنس روم ایم فل
اور پی ایچ ڈی (اردو)سکالرز سے بھرا ہوا تھا ۔اس کے ساتھ اس کانفرنس میں
شعبہ اردو سے ڈاکٹر گل احمد صاحب اور ڈاکٹر قیصر آفتاب صاحب بھی موجود تھے۔
کانفرنس کی صدارت نامور شاعر پروفیسر جلیل عالی نے کی اور مہمان خصوصی
پروفیسر ادریس آزاد تھے۔ کانفرنس کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔
جس کا شرف ایم فل سکالر جناب شعیب نوید خان کو حاصل ہوا۔ ڈاکٹر عارف
فرہادصاحب نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ کا مختصر
تعارف پیش کیا اور بتایا کہ یہ کتاب علامہ اقبال کے انگریزی زبان میں سات
لیکچرز کا مجموعہ ہے اس کتاب میں انہوں نے مذہبِ اسلام کی تعمیرو ترقی کو
نئے طرز سے سوچنے کی فکر اور نئی جہتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس کے ساتھ
ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس کتاب کا پہلا خطبہ علم اور مذہبی مشاہدات، دوسرا
خطبہ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار، تیسرا خطبہ ذات الہٰیہ کا تصور اور
حقیقت دعا، چوتھا خطبہ خودی جبر و قدر، حیات بعد الموت ،پانچواں خطبہ
اسلامی ثقافت کی روح اور چھٹا خطبہ الاجتہاد فی الاسلام اور ساتواں خطبہ
کیا مذہب کا امکان ہے؟ شامل ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنے خطبہ استقبالیہ
میں کانفرنس میں شریک مہمانوں کا تعارف بھی کروایا ۔پہلے مقرر پروفیسر
ادریس آزاد کو دعوت خطاب دیا گیا انہوں نے ایک گھنٹے سے زائد گفتگوکی ۔
سامعین ایک گھنٹے سے زائدوقت میں ان کے لیکچر کے دوران مبہوت ہو کر رہ گئے
تھے۔سامعین کے دماغ گہرے فلسفیانہ اور خوبصورت انداز مقررا نہ سے لطف اندوز
ہو رہے تھے۔ وہاں موجود مہمانان گرامی سے لے کر کانفرنس میں موجود نشستوں
پر بیٹھے سبھی لوگ ہمہ تن گوش محوِ استعجاب تھے۔ قلبی خوشی چہروں سے جھلک
رہی تھی۔پروفیسر ادریس آزاد نے اقبالؒ کے مذہبی مشاہدات کے فلسفیانہ معیار
کو شرح وبسط کے ساتھ منفرد اور بسیط انداز میں بیان کیا۔ انہوں نےاقبال کے
سفرِ یورپ میں اقبال کی زندگی پر اسلام کا رنگ و اثرات کو کھل کر بیان
کیااور بتایا کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔انہوں نے فلسفہ یونان سے
مذہب کی پرکھ کے بجا ئے،مذہب کے ذریعے فلسفہ یونان کے رد کی بات کی۔ اور
الہامی علم کو وہبی اور کسبی علم پر فوقیت کا بیان کیا۔انہوں نے بتایا کہ
انسانی حوّاس خمسہ کے ذریعے پرکھ کسی صورت صحیح نہیں ہو سکتی۔اورمنطقی
اصولوں صحت و صدا قت(Validity and Truth)کامعیار حوّاس خمسہ نہیں ہو سکتے ۔
ایک مثال پیش کی کہ ایک ہی وقت میں اپنا ہاتھ گرم پانی سے نکال کر سر دپانی
میں ڈالا جائے تو حسّی اعصاب اس سرد پانی کو گرم ظاہر کر رہے ہوتے
ہیں۔انہوں نے منطق استقرائی(indeductive Logic) اور منطق
استخراجی(Deductive Logic) کے فرق کو بیان کیا۔۔ پروفیسر صاحب نے اپنے
منفرد انداز بیان کے ساتھ سامعین کے دماغوں کو خوابِ مصنوئی جیسے اثرات کے
ساتھ جکڑلیا۔ راقم سمیت سبھی ہمہ تن گوش تھے۔ پروفیسر ادریس آزاد نے اقبال
کے علم و مذہبی مشاہدات کو فلسفہ یونان کے رد اور الہٰیات اسلامی کی تشکیل
جدید کی روشنی میں تو تاریخی سن کی زبانی بار آوری کو سماعتوں میں انڈیلا
اور فلسفے کی تاریخ میں سقراط، برکسان،اور دیگر فلاسفراور اقبالؒ کے فلسفہ
زبان و مکان کوبھی بیان کیا ۔وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اس کے ساتھ ہی
انہوں کے اس بات پر اپنےلیکچر کاا ختتام کیا کہ یہ دنیا آپ کو سزا کے طور
پر نہی ملی بلکہ آپ نے زندگی گزارنی ہےاوراس کو آپ نے ترک نہی کرنا ۔اس کے
ساتھ ہی روم سکالرز کی تالیوں سے گونج اٹھا ۔ اس کے بعد پروفیسر جلیل عالی
نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ اقبال کے الہٰیات اسلامی کی تشکیل جدید پر
واضح انداز میں روشنی ڈالی اور مسلمانوں کی تابناک تاریخ کو خراج تحسین پیش
کیا۔ پروفیسر جلیل عالی نے انتہائی مدبرانہ اور دھیمے اندازاور آسان الفاظ
میں اقبال کے الہٰیات اسلامی کی تشکیل جدید کو ایسا اپنے اندازسے بیان کیا
کہ وہاں پر موجود تمام سامعین کونہ صرف اپنے سحر میں مبتلا کرلیابلکہ اس
میں موجود فلسفیا نہ انداز اور علمی مدلّل نکات بھی نکھر کر سامنےلے کر آئے
۔صدارتی خطبہ کے بعد ڈاکٹر عارف فرہادصاحب نے پروگرام کا موڈ شاعری کی طرف
موڑ دیا جو کو ہر ایک نے نہ صرف سراہا بلکہ ہم سب لطف اندوز بھی ہوئے۔ سب
سے پہلے ایم فل سکالر جناب شعیب نوید خان نے اپنی نظم "قلندر" پیش کی جو
واقعی کمال کی تھی۔ اس کے بعد ڈاکٹر عارف فرہاد صاحب نے ایک اپنی نظم اور
ایک غزل سے سامعین کی داد سمیٹی۔ اس کے بعد پروفیسر ادریس آزاد نے اپنی تین
نظمیں اپنے انداز کے ساتھ بیان کیں جن میں (دسمبر، فلیش پیڈ اور پنجابی نظم
"اڈیک)شامل ہیں اور آخر میں پروفیسر جلیل عالی نے اپنی نظم "مگر تم کب
ہمارے ہو" اور ایک غزل پیش کی جس سے سامعین کے چہرے کھِل اٹھے۔اس کے بعد
سوالات و جوابات کی نشست بھی ہوئی ۔پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر عارف فرہاد
صاحب تمام مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا۔ یہ کامیاب کانفرنس صدر شعبہ
اردو ڈاکٹر عارف فرہاد کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔آخر میں ہم صدرشعبہ اردو
ڈاکٹر عارف فرہاد صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ ایسی علمی و ادبی کانفرنسزکا
انعقاد جاری رہناچاہیے تاکہ یہاں آنے والے تشنگانِ علم کی علمی پیاس کو
تسکین ملتی رہے
|