عید الاضحیٰ نزدیک آتی جارہی ہے
اور اِس کی مناسبت سے شہر میں قربانی کے جانوروں کی تعداد بھی بڑھتی جارہی
ہے۔ ویسے تو شہر میں دو پیروں پر چلنے والے ”قربانی کے بکرے“ بھی کم نہیں
اور وہ آئے دن سیاسی قربان گاہ کی نذر بھی ہوتے رہتے ہیں مگر اصلی بکروں کی
بات کچھ اور ہے۔ اُن کا خون اور گوشت رائیگاں ہیں جاتا!
کل راستے میں ایک بکرے سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے سوچا کچھ بتیالیں تاکہ آپ کے
لیے کچھ تو لکھیں جو معمول سے ہٹ کر ہو۔ جس بکرے سے ہم نے گفتگو کی اُس کے
سَر پر تو نہیں مگر باتوں میں خاصے نوکیلے سینگ تھے۔ گفتگو سے اقتباسات
ملاحظہ فرمائیے۔
٭ کیوں میاں بکرے! کیسی گزر رہی ہے؟
بکرا : ہماری تو جیسے تیسے گزر ہی جاتی ہے اور گزر ہی جائے گی۔ ہماری فکر
چھوڑو، اپنی خیر مناؤ۔ ہم تو خود اِنسانوں کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان
ہوتے رہتے ہیں کہ اِن کا کیا ہوگا!
٭ کیوں؟ ہمیں کیا ہوا ہے جو تم یہ سوچتے ہو کہ ہمارا کیا ہوگا؟
بکرا : اب ایسے بھولے بادشاہ بھی نہ بنو۔ شاید اِسی بھولپن کے لیے رئیس
امروہوی فرما گئے ہیں
کہنے لگے کہ ہم کو تباہی کا غم نہیں
میں نے کہا کہ وجہِ تباہی یہی تو ہے!
ہم لوگ ہیں عذاب الٰہی سے بے خبر
سب سے بڑا عذاب الٰہی یہی تو ہے!
یہ جو پورے پاکستان میں ہو رہا ہے کیا اِس کا کوئی جواز پیش کرسکتے ہو؟
٭ کیا ہو رہا ہے پاکستان میں؟
بکرا : اُف یہ سادگی! لگتا ہے صرف پی ٹی وی دیکھتے ہو! میرے ہمدم! چند ماہ
کے دوران جو کچھ کراچی اور دیگر شہروں میں ہوا ہے اُس کا ذکر کر رہا ہوں۔
کوئی بے حِسی تو دیکھے۔ ایک دوسرے کو ذبح کرنے والے باہم پُرسہ دینے کا
خیال بھی ذہن میں لائے بغیر ہم بکروں کی مزاج پُرسی فرما رہے ہیں! ایک بات
تو بتاؤ۔ آج کل قتل و غارت کا بازار ٹھنڈا کیوں پڑا ہوا ہے؟ کیا اہل سِتم
دَم لینے کو رُکے ہیں؟ یا پھر یہ کہ ہمیں ذبح کرنے کا موسم آیا تو اپنوں پر
کچھ رحم آگیا ہے؟
٭ ہو نا آخر بکرے۔ اِنسانوں کے رُموز تم کیا جانو۔
بکرا : ہماری تو خیر بساط ہی کیا ہے، یہ رُموز تو خود تم بھی نہیں جانتے۔
کسی دِن پٹخنی دیکر گرائے جاؤ گے اور ذبح کردیئے جاؤ گے۔
٭ بہت بولنا آگیا ہے؟
بکرا : ہم تو پھر بھی کچھ بول کر، دل کی بھڑاس نکال ذبیحے کی منزل سے گزرتے
ہیں۔ تم تو معصوم، بے زبان اِنسانوں کے گلے پر چُھرے پھیرتے ہو اور پھر اُن
کے لاشوں پر کھڑے ہوکر اپنی بے گناہی کا بھونپو بجاتے ہو، سیاست کی دُکان
چمکاتے ہو!
٭ گھاس چرتے چرتے یہ الزام تراشی کا ہُنر کہاں سے سیکھا؟
بکرا : ہم بے زبان جانوروں کو کیا پڑی ہے کہ تم پر الزام دھرتے پھریں؟ اِس
معاملے میں تو تم خود ہی ایک دوسرے کے لیے کافی ہو!
٭ اچھا، بکواس چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ آج کل منڈی کا بھاؤ کیا ہے؟
بکرا : کیسی منڈی؟ کس کا بھاؤ؟
٭ بکروں کا، اور کس کا؟
بکرا : کیوں؟ بھاؤ جان کر کیا کرنا ہے؟
٭ بکرا : تمہارے چند بھائی بند خریدنے ہیں۔ اور کیا؟
بکرا : کیا واقعی؟ اب کیا قربانی کے بکرے بھی قربانی کے لیے بکرے خریدیں
گے؟ کہیں میری ہنسی نہ چھوٹ جائے!
٭ تم بکرے ہو یا ”مغرور لیلیٰ؟“
بکرا : غرور کی خصلت اِنسانوں ہی کو مبارک ہو۔ ہم تو وہ مرنجان مرنج ہیں کہ
اپنے وجود کو چُھری کے نیچے لاکر اِنسانوں کے پیٹ بھرنے کی راہ ہموار کرتے
ہیں۔ اور اِس بے مثال خدمت پر کبھی غرور نہیں کیا۔
٭ یہ فلسفیانہ رنگ کی باتیں کہاں سے سیکھیں؟ کیا کسی دانشور کے گھر میں
پَلے ہو؟
بکرا : اللہ نہ کرے۔ آج کل کے دانشور تو خود ہماری طرح مَیں مَیں کرتے رہتے
ہیں اور کسی دوسرے کو خاطر ہی نہیں لاتے۔ ایک دانشور کے گھر میں چند روز
رہنے کا موقع ملا تھا۔ بس کچھ نہ پوچھو کیا حال ہوا۔ انٹ شنٹ باتیں سُننے
سے رات دن سر میں درد رہتا تھا۔ پھر میں بھی وقت بے وقت مَیں مَیں کرنے
لگا۔ کسی نے میرے مالک کو سمجھایا کہ دانشور کی باتیں سُن سُن کر اچھے خاصے
بکرے کا دِماغ کہیں ناکارہ نہ ہو جائے اِس لیے واپس بُلالو۔ میرے مالک کی
سمجھ میں یہ بات آگئی اور وہ مجھے واپس لے آیا۔ میرا مالک ہے تو اِنسان مگر
ہم بکروں کے درمیان زندگی گزارنے سے ایک اچھی غیر اِنسانی خصلت اُس میں
ضرور پیدا ہوئی ہے کہ کسی کا اچھا مشورہ مان لیتا ہے!
٭ تم نے بتایا نہیں کہ آج کل منڈی میں بکروں کا بھاؤ کیا چل رہا ہے؟
بکرا : سال میں ایک بار یعنی صرف عیدالاضحیٰ پر بکرے کا گوشت کھانے والے
ہمارا بھاؤ جان کر کیا کریں گے؟
٭ تم شاید فروخت ہونا ہی نہیں چاہتے۔
بکرا : ہم پر بکاؤ ہونے کا الزام مت لگاؤ۔ ہم کوئی اِنسان تو ہیں نہیں کہ
دام لگے گا تو بکیں گے۔ ہم تو محبت کے بھوکے ہیں۔ کوئی بس ایک نظر پیار سے
دیکھ لے، ہم اُس کے آگے سر جُھکا دیتے ہیں۔ اگر کوئی قصائی بھی پیار سے
دیکھے تو پھر ہم اُس کی چُھری کی طرف نہیں دیکھتے اور مُسکراتے ہوئے ذبح ہو
جاتے ہیں۔
٭ عیدالاضحیٰ کے موقع پر جب تمہیں شہر لایا جاتا ہے تو کیسا لگتا ہے؟
بکرا : پچھلے سال میرے کچھ ”بزرگ“ فروخت ہونے سے رہ گئے تھے۔ وہ کیٹل فارم
میں واپس آئے تو اُنہیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اِنسانوں میں کچھ دِن رہنے
سے مویشیوں میں دو چار بُری عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
٭ کیسی عادتیں؟
بکرا : جو ”بزرگ“ کراچی میں کچھ دن گزار واپس آئے اُنہوں نے کیٹل فارم میں
اِنسانوں کے اُصول پھیلا دیئے۔
٭ کیسے اُصول؟
بکرا : وہ ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے تھے اور کسی سبب یا جواز کے بغیر
بھی ایک دوسرے کو بھنبھوڑنے لگتے تھے۔ ”شہر پلٹ“ بکروں کے ہاتھوں کئی معصوم
بکرے زخمی ہوگئے۔ شہر سے واپس آنے والے بکرے پیٹ بھر جانے کے بعد بھی چارا
کھاتے رہتے تھے جس کے باعث اُن کا ہاضمہ خراب ہوگیا۔ نخرے اِتنے بڑھ گئے کہ
کام کچھ کرتے نہیں تھے اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے تھے۔ اور کھانے کے
بعد ”کولا“ کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ اُن میں عجیب بے مروتی پیدا ہوگئی تھی۔
جب مالک چارا ڈالتا تھا تو پورے ڈھیر کو گھیر لیتے تھے اور کسی بھی کمزور
بکرے کو وہاں پھٹکنے بھی نہ دیتے تھے۔ اگر مالک چند ایک مویشیوں کو الگ سے
چارا دیتا تھا تو اِنسانی ماحول سے آلودہ ہوکر آنے والے بکرے اُن سے بھی
تھوڑا بہت لُوسن وصول کرکے دم لیتے تھے۔ ہم نے پوچھا یہ کیا ہے تو بولے
اِسے شہری زبان میں بَھتّہ کہتے ہیں۔ اور اُن میں سے دو ایک بکرے تو ایسے
تھے جن کی سرگرمیاں دیکھ کر مالک بھی پریشان ہوگیا۔
٭ کیسی سرگرمیاں؟
بکرا : پیٹ بھر کھانے کے بعد وہ پینے کے لیے کچھ نہ کچھ مانگتے تھے۔ مالک
کچھ دن اُن کے ناز اُٹھاتا رہا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ کسی نمایاں جگہ بیٹھ کر
باقی بکروں کو اپنے سامنے بیٹھنے پر مجبور کرنے لگے۔ شہر کی ہوا کھانے والے
دو چار بکرے انٹ شنٹ مَیں مَیں کرتے رہتے تھے۔ مالک سمجھ نہ پایا کہ وہ
ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ پھر اُس نے جانوروں کی نفسیات کے ماہر کو بُلایا تو
اُس نے صورت حال کا جائزہ لیکر بتایا کہ بعض بکروں میں ”لیڈرانہ“ صِفات
پیدا ہوگئی ہیں۔ ماہر نفسیات نے یہ بھی بتایا کہ جن کے سَر میں لیڈری کا
خنّاس پیدا ہو جائے وہ اِنسان ہو یا بکرا، اُسے سُدھارا یا سِدھایا نہیں
جاسکتا! اور پھر مالک نے اُس ماہر نفسیات کے مشورے ہی پر تمام ”شہر پلٹ“
بکروں کو فروخت کرکے کیٹل فارم کو پاک کیا!
٭ پتا نہیں کیا اناپ شناپ بَکے جارہے ہو؟ کچھ پتا بھی ہے کہ اِنسانوں نے
کتنی ترقی کی ہے؟ تم جانور چارے کے لیے بھی آپس میں لڑتے رہتے ہو اور ہم
مفاہمت کی پالیسی پر کاربند رہتے ہوئے مل بانٹ کر کھاتے ہیں؟
بکرا : اِس اِنصاف کے قربان جائیے۔ تم اِنسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ جو رات
دن محنت کرتے ہیں اُنہیں دال روٹی بھی ڈھنگ سے نصیب نہیں ہوتی اور جو کچھ
نہیں کرتے وہ بڑے مزے سے سڑک پر سجے ہوئے دستر خوان پر بیٹھ کر صدقے کے
بکروں کا گوشت ڈکارتے ہیں! کیا اِسی کو تم اِنصاف کہتے ہو؟ ذرا ہم بکروں کی
دُنیا کا جائزہ لو۔ بکرا چھوٹے گھر کا ہو یا بڑے گھر کا، سبھی چارا چرتے
ہیں، ایک ہی ٹائپ کے چنے اور دالیں کھاتے ہیں۔
٭ چُپ رہنے کا کیا لوگے؟
بکرا : کیا بات ہے! آگئے نا اِنسانوں والی ذہنیت پر۔ ہم مفاہمت کی سیاست پر
یقین نہیں رکھتے۔ اگر کوئی بات بُری لگتی ہے تو جی بھر کے شور مچاتے اور
مجاز اتھارٹی کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انڈر دی ٹیبل سیٹلمنٹ کے
ذریعے چُپ رہنا اور شخصی مفادات کے چُھرے سے اجتماعی مفادات کا ”جھٹکا“
کرنے کی خصلت تم اِنسانوں کو مبارک! |