آزادکشمیر میں جہادی کلچر کی بحالی!
(Athar Masood Wani, Rawalpindi)
اطہر مسعود وانی آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد میں5جنوری کو یوم حق خود ارادیت کے حوالے سے منعقدہ ایک تقریب میں وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری انوار الحق کے اس اعلان نے سب کو چونکا دیا کہ '' جہادی کلچر واپس لانے کے لئے جتنے وسائل کی ضرورت ہو وہ ہم مہیا کریں گے''۔مختلف حلقوں کی طرف سے وزیر اعظم کے اس بیان پہ تبصرہ کیا گیا کہ سیاستدان ، ارکان اسمبلی خود جہاد میں شامل ہو کر اس کی ابتداء کریں۔ اس کے بعد وزیر اعظم چودھری انوار الحق نے اسمبلی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے یہ کیا کہہ دیا ہے، اتنی تو پیاز کی پرتیں نہیں ہیں جتنے ہمارے چہرے ہیں،ان چہروں کے ساتھ تحریک آزادی کشمیر کی کیا خدمت کر پائیں گے؟ اگر اسمبلی کے ارکان کا کردار درست ہے تو یہ ایوان مقدس ہے،اگر آپ کا عمل، آپ کی گفتگوسے سو فیصد مغائرآ پ کا کردار ہے تو پھر تحریک آزادی کشمیر کو ہم کون سے جلا بخش سکتے ہیں؟ یہ ایون ،یہ نظام کیوں بنا،یہ آزاد کشمیر کے اب کے دس اضلاع اور پرانے دو اضلاع ، ان کے لئے یہ گورنینس سسٹم کا سٹریکچر ترتیب دیا گیا،یہ صدارتی، یہ وزارت عظمی کے دفاتر، ہائی کورٹ ، سپریم کورٹ، یہ پورا سٹیٹ سٹریکچر کیوں ترتیب دیاگیا؟ یہ سب کچھ تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد پر تشکیل ہوا،اس سے تحریک آزاد ی کشمیر نکال دیجئے،یہ پوراایوان اپنی پوری تقدیس کے ساتھ زمین بوس ہو جائے گا،یہ کیسے قائم رہے گا؟آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اس کی کیا جوازیت ہے؟ اور پھر ہم نے کیا کیا ہے؟یہ گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، اس پہ اجتماعی معافی اورتوبہ مانگنے کی ضرورت ہے پھر ہمیں مستقبل کا راستہ نظر آئے گا،اس میوزیکل چیئر کے کھیل میں، یہ جو نظام حکومت تحریک آزادی کشمیر کے لئے بنایا گیا تھا،جس کو ہمارے دوست بیس کیمپ کے نام سے جاننا چاہتے ہیں،یہاں پہ ڈویلپمنٹ کے نام پہ، بددیانتی کے نام پہ ہم نے اسے بزنس کیمپ میں تبدیل کر دیا،آج وزارت کے لئے ، وزارت عظمی کے لئے جو کتاب آپ پڑھنا چاہئیں پڑھ لیں، تحریک آزادی کشمیر کے نام پہ اگر آپ کوئی جرات مندانہ موقف لینا چاہتے ہیں، تو اس پہ بھی موت پڑتی ہے سنتے ہوئے،اس طرح آپ اپنی نئی نسل کو کس طرح جوابدہ ہوں گے؟کل یہ سکول کالج کے بچے آپ کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیںگے،آزاد ی کا تعمیر و ترقی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،سستا آٹا سستی بجلی انسانی ضرورت ہے،تحریک آزادی کشمیر کو فیشن کے طورپرزیر بحث لانا ! یہ قومی جرم ہے،اس سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے،مضبوط پاکستان اور پاکستان کی مضبوط قیادت ، وہ چاہئے ہمیں ! تو خود ہم نے کیا کرنا ہے؟ ادھر مراعات کا بل لے آئیں ،پھر دیکھیں ماحول کیا ہو گا، ایک انچ قربانی دینی نہیں اور پاکستانی قیادت سے مطالبہ کرنا ہے کہ ہماری جنگ آپ لڑئیے ۔ بلا شبہ وزیر اعظم چودھری انوار الحق نے آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان، سیاستدانوں کو آئینہ دکھایا ہے کہ وہ باتیں کیا کرتے ہیں اور ان کا کردار کیا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی مزاحمتی تحریک 1988سے شروع ہوئی اور تقریبا 14سال کے بعد2002میں جنرل مشرف کی حکومت نے آزاد کشمیر میں قائم کشمیری مجاہدین کے کیمپ بند کرا دیئے اور ہندوستان کو سیز فائر لائین( لائین آف کنٹرول) پہ باڑ لگانے کی اجازت بھی دے دی۔پھر2019میں ہندوستان کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے ہندوستان کی مرکزی حکومت کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے کے اقدام کے بعد پاکستان انتظامیہ کی طرف سے یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ آزاد کشمیر میں کوئی ایسا کام نہ ہو کہ جس سے ہندوستان کو آزاد کشمیر، گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کا موقع مل جائے۔تاہم اب وزیر اعظم آزاد کشمیر کی طرف سے آزاد کشمیر میں جہادی کلچر کی بحالی سے متعلق بیان کوئی اتفاقیہ بات نہیں ہے بلکہ اس سے پاکستان انتظامیہ کی کشمیر پالیسی اور حکمت عملی کی راہوں پہ بھی روشنی پڑتی ہے۔گزشتہ چالیس سال کا احوال دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومتیں، سیاسی جماعتیں، سیاسی شخصیات کشمیر کاز سے متعلق صلاحیت اور دلچسپی سے ہی عاری ہیں ۔
موجودہ علاقائی و عالمی صورتحال کو دیکھتے ہوئے آزاد کشمیر میں جہادی کلچر کی بحالی پہ کئی ایسے سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں جن کے جواب شاید ارباب اختیار کے پاس بھی نہیں ہیں۔آزاد کشمیر میں اگر جہادی کلچر کی بحالی کے بجائے اگر تحریک آزادی کشمیرکی اصطلاح استعمال کی جائے تو مناسب بات ہو گی۔تاہم اس کے لئے اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاست مسلح لڑائی سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے جبکہ آزاد کشمیر میں سیاست کمزور، لاغر، ناتواں، مجبور،عاجزہوتے ہوئے مفاد پرستی کے دائرے میں گھوم رہی ہے۔''گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا ''کے مصداق آزاد کشمیر کی سیاست کشمیر کاز کے لئے کیا مثبت کردار ادا کر سکتی ہے کہ جب ان کا ہر عمل خاندانی ، قبیلائی اور علاقائی مفاد کے تناظر میں ہی ہوتا ہے۔آزاد کشمیر میں جہادی کلچر کے احیاء سے کیا مراد ہے اور اس سے کیا کرنا مطلوب ہے، یہ تو آزاد کشمیر کی سلامتی اور نظام کے ذمہ داران ہی جانتے ہیں ، دیکھنا یہ ہے کہ اب آزاد کشمیر کی حکومت اور سیاست سے کیا کام لیا جانا مطلوب ہے۔
|