اٹک میں سونے کے ذخائر کی دریافت میں ذمہ داروں کی غفلت

پنجاب کے ضلع اٹک میں سونے کے وسیع ذخائر کی دریافت میں غفلت کی اطلاعات سامنے آئی ہیں، صوبائی وزیرِ کان کنی و معدنیات، ابراہیم حسن مراد کے مطابق، اٹک میں 28 لاکھ تولہ سونے کے ذخائر دریافت ہوئے جن کی مالیت تقریباً 600 ارب روپے بتائی جا رہی ہے لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت ن اس اہم دریافت کو قومی دولت بنانے اور اسے ملک کی ترقی کیلئے بروئے کار لانے کی بجائے مناسب توجہ نہ دیتے ہوئے ضائع کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ذخائر اٹک کی 32 کلومیٹر طویل پٹی میں پائے گئے ہیں،جیولوجیکل سروے آف پاکستان نے اس انکشاف کی تصدیق کی ہے۔ سروے کے دوران 127 مقامات سے نمونے اکٹھے کیے گئے، جن میں سونے کے علاوہ زنک، چاندی، نکل، مینگنیز اور تانبے جیسے دیگر قیمتی معدنیات کی بھی نشاندہی ہوئی ۔

پلیسر گولڈ کے 9 بلاکس کی نشاندہی ہو چکی ہے، یہ ذخائر 75 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پائے گئے ہیں، اور ان کی ترقی سے ملکی معیشت کو استحکام ملنے کی توقع ہے۔ یہ دریافت پاکستان کے معدنی وسائل کی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے، جو نہ صرف ملکی معیشت کو مضبوط کرے گی بلکہ مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے بھی نئے مواقع پیدا کرے گی۔

اٹک میں سونے کے ذخائر کے حوالے سے سامنے آنے والی غفلت کئی پہلوؤں پر مشتمل ہے، جو پاکستان کی معدنی وسائل کی ترقی میں رکاوٹ رہی ہے۔ ان پہلوؤں میں بدانتظامی، ناکافی انفراسٹرکچر، شفافیت کا فقدان، اور حکومتی عدم توجہی شامل ہیں۔ اگر ان ذخائر کا صحیح استعمال کیا جاتا تو پاکستان کی معیشت پر بہت مثبت اثرات مرتب ہو سکتے تھے۔

اس منصوبے کو قومی ترقی کیلئے پائیدار بنانے میں غفلت کی تفصیلات کچھ یوں سامنے آئی ہے کہ تحقیقات اور سروے میں تاخیر کی گئی ہے پاکستان میں معدنی ذخائر کی دریافت اور ان کی ترقی کے لیے تحقیقاتی سرگرمیاں عموماً تاخیر کا شکار رہتی ہیں۔ اٹک کے سونے کے ذخائر پر بھی سالوں تک توجہ نہ دی گئی، جس کی وجہ سے قیمتی وقت اور وسائل ضائع ہوئے۔اس کے علاوہ اس منصوبے کی ناکامی میں بدعنوانی اور غیر شفافیت بھی شامل رہی، معدنی وسائل کے شعبے میں بدعنوانی عام ہے۔ ذخائر کی نیلامی یا ترقیاتی منصوبوں میں غیر شفافیت اکثر مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو دور رکھتی ہے، جس سے ان منصوبوں کی ترقی رک جاتی ہے۔یہ بات بھی سب کے سامنے ہے کہ سونے کی کان کنی کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے، جو پاکستان میں ناکافی ہے۔
حکومت کی جانب سے اس جانب توجہ نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ ذخائر ابھی تک غیر ترقی یافتہ ہیں۔منصوبے کو قومی ترقی کیلئے استعمال میں لانے میں سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کی تبدیلی بھی ان ذخائر کے صحیح استعمال میں رکاوٹ رہی۔ وسائل کے ترقیاتی منصوبے اکثر نئی حکومتوں کے آنے پر ختم یا تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔اب سوال اس اہم دریافت کی پاکستان کی معیشت پر ممکنہ اثرات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر ان ذخائر کا صحیح مصرف کیا جاتا تو یہ پاکستان کی معیشت کو کئی طرح سے مستحکم کر سکتی تھی،

اٹک کے سونے کے ذخائر کو ترقی دے کر پاکستان قیمتی دھاتوں کی برآمدات میں اضافہ کر سکتا تھا، جو زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا۔سونے کی کان کنی کے منصوبے ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کر سکتے تھے، جس سے غربت میں کمی اور مقامی معیشت کی ترقی ممکن ہوتی۔سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کی پروسیسنگ کے لیے مقامی سطح پر صنعتوں کے قیام سے صنعتی ترقی ہوتی اور معیشت میں تنوع پیدا ہوتا۔ شفاف نیلامی اور عالمی معیار کے مطابق کان کنی کے منصوبے شروع کرکے پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتا تھا، جو ملک کی معاشی ترقی کو فروغ دیتا۔نیز ان ذخائر سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے پاکستان بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر انحصار کم کر سکتا تھا اور خود انحصاری کی طرف قدم بڑھا سکتا تھا۔

اٹک کے سونے کے ذخائر کے صحیح استعمال میں غفلت نہ صرف ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی بلکہ قیمتی وسائل ضائع ہونے کا سبب بھی بنی۔ اگر ان ذخائر کو شفافیت، جدید ٹیکنالوجی، اور مؤثر پالیسیوں کے تحت ترقی دی جائے تو یہ پاکستان کی معیشت کے لیے گیم چینجر بن سکتے ہیں۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 66 Articles with 55345 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.